Urdu Deccan

Friday, November 12, 2021

علامہ اقبال

 یوم پیدائش 09 نومبر 1877

وہ اشعار جن میں علامہ اقبال نے اپنا نام لکھا


جس کے دم سے دلّی و لاہور ہم پہلو ہوئے

آہ، اے اقبالؔ! وہ بُلبل بھی اب خاموش ہے


اسی اقبالؔ کی مَیں جُستجو کرتا رہا برسوں

بڑی مُدّت کے بعد آخر وہ شاہیں زیرِ دام آیا


اقبالؔ بڑا اُپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے

گفتارکا یہ غازی تو بنا،کردار کا غازی بن نہ سکا


اقبالؔ بھی ’اقبال‘ سے آگاہ نہیں ہے

کچھ اس میں تمسخر نہیں، و اللہ نہیں ہے


اقبالؔ نے کل اہلِ خیاباں کو سُنایا

یہ شعرِ نشاط آور و پُر سوز و طرب ناک

مَیں صُورتِ گُل دستِ صبا کا نہیں محتاج

کرتا ہے مرا جوشِ جُنوں میری قبا چاک


اقبالؔ کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا

ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا


اقبالؔ کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے

ہر ملّتِ مظلوم کا یورپ ہے خریدار


واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں

اقبالؔ کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے


خاور کی اُمیدوں کا یہی خاک ہے مرکز

اقبالؔ کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب


اقبالؔ یہ ہے خارہ تراشی کا زمانہ

’از ہر چہ بآئینہ نمایند بہ پرہیز‘


اقبالؔ! کس کے عشق کا یہ فیضِ عام ہے

رومی فنا ہُوا، حبَشی کو دوام ہے


اقبالؔ! کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں

معلوم کیا کسی کو دردِ نہاں ہمارا


اقبالؔ! یہاں نام نہ لے علمِ خودی کا

موزُوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات


حضرت نے مرے ایک شناسا سے یہ پُوچھا

اقبالؔ، کہ ہے قُمریِ شمشادِ معانی


اک پیشوائے قوم نے اقبالؔ سے کہا

کھُلنے کو جدّہ میں ہے شفاخانۂ حجاز


ایک دن اقبالؔ نے پُوچھا کلیمِ طُور سے

اے کہ تیرے نقشِ پا سے وادیِ سِینا چمن


بڑا کریم ہے اقبالِؔ بے نوا لیکن

عطائے شُعلہ شرر کے سوا کچھ اور نہیں


اگر ہوتا وہ مجذوبِ فرنگی اس زمانے میں

تو اقبالؔ اس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے


ترا گُناہ ہے اقبالؔ! مجلس آرائی

اگرچہ تُو ہے مثالِ زمانہ کم پیوند


تُو بھی ہے اسی قافلۂ شوق میں اقبالؔ

جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رومیؔ


جو بے نماز کبھی پڑھتے ہیں نماز اقبالؔ

بُلا کے دَیر سے مجھ کو امام کرتے ہیں


جو گھر سے اقبالؔ دور ہُوں میں، تو ہوں نہ مُحزوں عزیز میرے

مثالِ گوہر وطن کی فرقت کمال ہے میری آبرو کا


خبر اقبالؔ کی لائی ہے گلستاں سے نسیم

نَو گرفتار پھڑکتا ہے تہِ دام ابھی


دیا اقبالؔ نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا

یہ اک مردِ تن‌آساں تھا، تن‌آسانوں کے کام آیا


رازِ حرم سے شاید اقبالؔ باخبر ہے

ہیں اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ


زائرانِ کعبہ سے اقبالؔ یہ پُوچھے کوئی

کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں


سُنا ہے میں نے سخن رس ہے تُرکِ عثمانی

سُنائے کون اسے اقبالؔ کا یہ شعرِ غریب


سُنے گا اقبالؔ کون ان کو، یہ انجمن ہی بدل گئی ہے

نئے زمانے میں آپ ہم کو پُرانی باتیں سنا رہے ہیں!


صدائے لن ترانی سُن کے اے اقبالؔ میں چُپ ہوں

تقاضوں کی کہاں طاقت ہے مجھ فُرقت کے مارے میں


غم نصیب اقبالؔ کو بخشا گیا ماتم ترا

چُن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا


فقیرانِ حرم کے ہاتھ اقبالؔ آگیا کیونکر

میّسر میر و سُلطاں کو نہیں شاہینِ کافوری


مجموعۂ اضداد ہے، اقبالؔ نہیں ہے

دل دفترِ حکمت ہے، طبیعت خفَقانی


مجھ کو بھی تمنّا ہے کہ ’اقبال‘ کو دیکھوں

کی اس کی جُدائی میں بہت اشک فشانی


مرے اشعار اے اقبالؔ! کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو

مرے ٹُوٹے ہُوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں


مسلم سے ایک روز یہ اقبالؔ نے کہا

دیوانِ جُزو و کُل میں ہے تیرا وجود فرد


مقامِ عقل سے آساں گزر گیا اقبالؔ

مقامِ شوق میں کھویا گیا وہ فرزانہ


مُدیرِ ’مخزن‘ سے کوئی اقبالؔ جا کے میرا پیام کہہ دے

جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں، اُنھیں مذاقِ سخن نہیں ہے


مِل ہی جائے گی کبھی منزلِ لیلیٰ اقبالؔ!

کوئی دن اور ابھی بادیہ پیمائی کر


میں نے اے اقبالؔ یورپ میں اُسے ڈھونڈا عبث

بات جو ہندوستاں کے ماہ سیماؤں میں تھی


میں نے اقبالؔ سے از راہِ نصیحت یہ کہا

عاملِ روزہ ہے تُو اور نہ پابند نماز


نکلی تو لبِ اقبالؔ سے ہے، کیا جانیے کس کی ہے یہ صدا

پیغامِ سکوں پہنچا بھی گئی، دل محفل کا تڑپا بھی گئی


نہ پُوچھ اقبالؔ کا ٹھکانا، ابھی وہی کیفیت ہے اُس کی

کہیں سرِ رہ گزار بیٹھا ستم کشِ انتظار ہو گا


نہیں ہے نا اُمید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بہت زرخیز ہے ساقی


ٹھہَر سکا نہ کسی خانقاہ میں اقبالؔ

کہ ہے ظریف و خوش اندیشہ و شگُفتہ دماغ


پھر بادِ بہار آئی، اقبالؔ غزل خواں ہو

غنچہ ہے اگر گُل ہو، گُل ہے تو گُلستاں ہو


چُپ رہ نہ سکا حضرتِ یزداں میں بھی اقبالؔ

کرتا کوئی اس بندۂ گستاخ کا مُنہ بند!


ڈھُونڈتا پھرتا ہوں اے اقبالؔ اپنے آپ کو

آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں


بُرا سمجھوں انھیں، مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا

کہ میں خود بھی تو ہوں اقبالؔ اپنے نُکتہ چینوں میں


کہا اقبالؔ نے شیخِ حرم سے

تہِ محرابِ مسجد سو گیا کون

نِدا مسجد کی دیواروں سے آئی

فرنگی بُت کدے میں کھو گیا کون؟


کہاں اقبالؔ تُو نے آ بنایا آشیاں اپنا

نوا اس باغ میں بُلبل کو ہے سامانِ رُسوائی


کہاں سے تُونے اے اقبالؔ سِیکھی ہے یہ درویشی

کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا


کہیں ذکر رہتا ہے اقبالؔ تیرا

فسوں تھا کوئی، تیری گُفتار کیا تھی


کی حق سے فرشتوں نے اقبالؔ کی غمّازی

گُستاخ ہے، کرتا ہے فطرت کی حِنابندی


ہر نفَس اقبالؔ تیرا آہ میں مستور ہے

سینۂ سوزاں ترا فریاد سے معمور ہے


ہوا ہو ایسی کہ ہندوستاں سے اے اقبالؔ

اُڑا کے مجھ کو غبارِ رہِ حجاز کرے


ہے عجب مجموعۂ اضداد اے اقبالؔ تو

رونقِ ہنگامۂ محفل بھی ہے، تنہا بھی ہے


یہ ہند کے فرقہ ساز اقبالؔ آزری کر رہے ہیں گویا

بچا کے دامن بُتوں سے اپنا غُبارِ راہِ حجاز ہو جا


علامہ اقبال


ریاض حسین چوہدری

 یوم پیدائش 08 نومبر 1941


یا نبیؐ اپنی غلامی کی مجھے دستار دیں

کربلائے عَصرِ نو میں سایۂ دیوار دیں


زرفشاں لمحات کی برسات میں بھیگے نظر

اپنے شاعر کو، رسولِ محتشمؐ، دیدار دیں


سیلِ تند و تیز کے سر کش تھپیڑوں سے نجات

بارشوں میں عافیت کی کشتیاں سرکارؐ دیں


راستے گم ہیں جہالت کے اندھیروں میں، حضورؐ

علم کی زرخیز مٹی سے اٹے اشجار دیں


عشق میں ڈوبے ہوئے قلب و نظر کی روشنی

عشق کے گلزار میں مہکی ہوئی اقدار دیں


ہم جنہیں دعویٰ ہَے حُبِّ سیّدِ ساداتؐ کا

کاش بچّوں کو اجالوں سے لکھا کردار دیں


شہرِ طیبہ کی ہوائیں آج بھی پڑھ کر درود

ہر قدم پر قافلوں کو صبح کے آثار دیں


میری چشمِ التجا ہَے منتظر، آقا حضورؐ

گنبدِ خضرا کے لاکھوں سرمدی انوار دیں


سرد خانوں میں پڑی ہیں سوچ کی سب گٹھڑیاں

اُمّتِ ناداں کو آقاؐ، گرمٔی بازار دیں


جھوٹ پر مبنی کتابیں مکتبوں کا ہیں نصاب

امنِ عالم کے ’’خداؤں‘‘ کے نئے افکار دیں


شہرِ طیبہ کے گلی کوچوں کے بچّوں کو سلام

جان اپنی اِن کے قدموں پر خوشی سے وار دیں


مَیں نے جبریلِ امیں سے عرض یہ کی ہَے ریاضؔ

مجھ کو عشقِ مصطفیٰؐ میں جھومتے اشعار دیں


ریاض حسین چوہدری


شمشاد شاد

 حسابِ قبر میں مصروف ہیں یہاں کے مکیں

یہاں نہیں کوئی خطرہ یہاں ٹھہر جاؤ

شمشاد شاد


آصف علی آصف

 یوم پیدائش 08 نومبر 1973


شہر کے بیچ بیابان کبھی دیکھا ہے ؟

بھیڑ میں راستہ سنسان کبھی دیکھا ہے؟


دیکھ ! تصویر میں ہے کون مری بانہوں میں

تیرا ہم شکل ہے۔۔پہچان۔۔کبھی دیکھا ہے؟


جان کہہ کہہ کے مری جان تو لے لی تم نے

جان کا حال مری جان ! کبھی دیکھا ہے؟


ذکر بے کار فرشتوں کا کئے جاتے ہو

یہ بتاؤ یہاں انسان کبھی دیکھا ہے ؟


پوچھتے کیا ہو حجابات کے پیچھے کیا ہے

عکس آئینے میں انجان کبھی دیکھا ہے؟


آصف علی آصف


کرشن بہاری نور

 یوم پیدائش 08 نومبر 1925


زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں

اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں


اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں

میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں


زندگی موت تیری منزل ہے

دوسرا کوئی رستہ ہی نہیں


سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے

جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں


زندگی اب بتا کہاں جائیں

زہر بازار میں ملا ہی نہیں


جس کے کارن فساد ہوتے ہیں

اس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں


کیسے اوتار کیسے پیغمبر

ایسا لگتا ہے اب خدا ہی نہیں


چاہے سونے کے فریم میں جڑ دو

آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں


اپنی رچناؤں میں وہ زندہ ہے

نورؔ سنسار سے گیا ہی نہیں


کرشن بہاری نور


انور مسعود

 یوم پیدائش 08 نومبر 1935


اب کہاں اور کسی چیز کی جا رکھی ہے

دل میں اک تیری تمنا جو بسا رکھی ہے


سر بکف میں بھی ہوں شمشیر بکف ہے تو بھی

تو نے کس دن پہ یہ تقریب اٹھا رکھی ہے


دل سلگتا ہے ترے سرد رویے سے مرا

دیکھ اس برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے


آئنہ دیکھ ذرا کیا میں غلط کہتا ہوں

تو نے خود سے بھی کوئی بات چھپا رکھی ہے


جیسے تو حکم کرے دل مرا ویسے دھڑکے

یہ گھڑی تیرے اشاروں سے ملا رکھی ہے


مطمئن مجھ سے نہیں ہے جو رعیت میری

یہ مرا تاج رکھا ہے یہ قبا رکھی ہے


گوہر اشک سے خالی نہیں آنکھیں انورؔ

یہی پونجی تو زمانے سے بچا رکھی ہے


انور مسعود


اسد اقبال

 یوم پیدائش 06 نومبر


اپنی نادان خطاؤں پہ ہنسی آتی ہے

حُسن والوں کی اداؤں پہ ہنسی آتی ہے


ایک پر جوڑ نہیں سکتے کسی مچّھر کا

اِن زمانے کے خداؤں پہ ہنسی آتی ہے


وہ جو چلتی ہیں بُجھانے کو عقیدت کے چراغ

ایسی کم ظرف ہواؤں پہ ہنسی آتی ہے


یہ جو اخلاص سے خالی ہے تگ و دو دن رات

ایسے سجدوں پہ دعاؤں پہ ہنسی آتی ہے


کیا اثر ہو گا دوا کا یہ خُدا ہی جانے 

سوچتا ہوں تو دواؤں پہ ہنسی آتی ہے 


حال دنیا کا اسد دیکھ کے روتا ہے دل

اور اِن راہ نماؤں پہ ہنسی آتی ہے 


اسد اقبال


عتیق الرحمن پرستش

 یوم پیدائش 07 نومبر


وسائل کی قلت میں دھن لٹ رہا ہے

صد افسوس سارا وطن لٹ رہا ہے


ادب لٹ رہا ہے بنامِ محبّت 

غزل لٹ رہی ہے سخن لٹ رہا ہے


کہاں قیس کو اب ہیں لیلیٰ کی یادیں 

خلوص و وفا کا چمن لٹ رہا ہے 


اکابر کو رہتی ہے بس فکر اپنی 

خبر ہی نہیں ہے وطن لٹ رہا ہے 


پرستشؔ نہ پوچھو کہ شہرِ جفا میں 

سرِ عام اک گُل بدن لٹ رہا ہے 


عتیق الرحمن پرستشؔ


خواجہ عبد الرسول جنید

 یوم پیدائش 07 نومبر 1980


فرقتِ جاناں کے جو احوال کہتے بن گئے

ساعتوں کے مرحلے تھے سال کہتے بن گئے

 

 عشق میں کیا کیا بلائیں پیش پڑتی دیکھ لیں

 عشق ہے اہلِ ہوس جنجال کہتے بن گئے

 

 واعظوں کے آگئے فتوے صلیب و دار کے

 شیخ صاحب کھیج لیجے کھال کہتے بن گئے

 

 بال بکھرے اور شاہد ورم آنکھوں کے جنید

 تیری فرقت میں ہمارا حال کہتے بن گئے


خواجہ عبد الرسول جنید


مخمور دہلوی

 یوم پیدائش 07 نومبر 1901


یہ تجھ سے آشنا دنیا سے بیگانے کہاں جاتے

ترے کوچے سے اٹھتے بھی تو دیوانے کہاں جاتے


قفس میں بھی مجھے صیاد کے ہاتھوں سے ملتے ہیں

مری تقدیر کے لکھے ہوئے دانے کہاں جاتے


نہ چھوڑا ضبط نے دامن نہیں تو تیرے سودائی

ہجوم غم سے گھبرا کر خدا جانے کہاں جاتے


میں اپنے آنسوؤں کو کیسے دامن میں چھپا لیتا

جو پلکوں تک چلے آئے وہ افسانے کہاں جاتے


تمہارے نام سے منسوب ہو جاتے ہیں دیوانے

یہ اپنے ہوش میں ہوتے تو پہچانے کہاں جاتے


اگر کوئی حریم ناز کے پردے اٹھا دیتا

تو پھر کعبہ کہاں رہتا صنم خانے کہاں جاتے


نہیں تھا مستحق مخمورؔ رندوں کے سوا کوئی

نہ ہوتے ہم تو پھر لبریز پیمانے کہاں جاتے


مخمور دہلوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...