یوم پیدائش 09 نومبر 1877
وہ اشعار جن میں علامہ اقبال نے اپنا نام لکھا
جس کے دم سے دلّی و لاہور ہم پہلو ہوئے
آہ، اے اقبالؔ! وہ بُلبل بھی اب خاموش ہے
اسی اقبالؔ کی مَیں جُستجو کرتا رہا برسوں
بڑی مُدّت کے بعد آخر وہ شاہیں زیرِ دام آیا
اقبالؔ بڑا اُپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتارکا یہ غازی تو بنا،کردار کا غازی بن نہ سکا
اقبالؔ بھی ’اقبال‘ سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں، و اللہ نہیں ہے
اقبالؔ نے کل اہلِ خیاباں کو سُنایا
یہ شعرِ نشاط آور و پُر سوز و طرب ناک
مَیں صُورتِ گُل دستِ صبا کا نہیں محتاج
کرتا ہے مرا جوشِ جُنوں میری قبا چاک
اقبالؔ کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
اقبالؔ کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملّتِ مظلوم کا یورپ ہے خریدار
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
اقبالؔ کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
خاور کی اُمیدوں کا یہی خاک ہے مرکز
اقبالؔ کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب
اقبالؔ یہ ہے خارہ تراشی کا زمانہ
’از ہر چہ بآئینہ نمایند بہ پرہیز‘
اقبالؔ! کس کے عشق کا یہ فیضِ عام ہے
رومی فنا ہُوا، حبَشی کو دوام ہے
اقبالؔ! کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں
معلوم کیا کسی کو دردِ نہاں ہمارا
اقبالؔ! یہاں نام نہ لے علمِ خودی کا
موزُوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات
حضرت نے مرے ایک شناسا سے یہ پُوچھا
اقبالؔ، کہ ہے قُمریِ شمشادِ معانی
اک پیشوائے قوم نے اقبالؔ سے کہا
کھُلنے کو جدّہ میں ہے شفاخانۂ حجاز
ایک دن اقبالؔ نے پُوچھا کلیمِ طُور سے
اے کہ تیرے نقشِ پا سے وادیِ سِینا چمن
بڑا کریم ہے اقبالِؔ بے نوا لیکن
عطائے شُعلہ شرر کے سوا کچھ اور نہیں
اگر ہوتا وہ مجذوبِ فرنگی اس زمانے میں
تو اقبالؔ اس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے
ترا گُناہ ہے اقبالؔ! مجلس آرائی
اگرچہ تُو ہے مثالِ زمانہ کم پیوند
تُو بھی ہے اسی قافلۂ شوق میں اقبالؔ
جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رومیؔ
جو بے نماز کبھی پڑھتے ہیں نماز اقبالؔ
بُلا کے دَیر سے مجھ کو امام کرتے ہیں
جو گھر سے اقبالؔ دور ہُوں میں، تو ہوں نہ مُحزوں عزیز میرے
مثالِ گوہر وطن کی فرقت کمال ہے میری آبرو کا
خبر اقبالؔ کی لائی ہے گلستاں سے نسیم
نَو گرفتار پھڑکتا ہے تہِ دام ابھی
دیا اقبالؔ نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا
یہ اک مردِ تنآساں تھا، تنآسانوں کے کام آیا
رازِ حرم سے شاید اقبالؔ باخبر ہے
ہیں اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ
زائرانِ کعبہ سے اقبالؔ یہ پُوچھے کوئی
کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں
سُنا ہے میں نے سخن رس ہے تُرکِ عثمانی
سُنائے کون اسے اقبالؔ کا یہ شعرِ غریب
سُنے گا اقبالؔ کون ان کو، یہ انجمن ہی بدل گئی ہے
نئے زمانے میں آپ ہم کو پُرانی باتیں سنا رہے ہیں!
صدائے لن ترانی سُن کے اے اقبالؔ میں چُپ ہوں
تقاضوں کی کہاں طاقت ہے مجھ فُرقت کے مارے میں
غم نصیب اقبالؔ کو بخشا گیا ماتم ترا
چُن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا
فقیرانِ حرم کے ہاتھ اقبالؔ آگیا کیونکر
میّسر میر و سُلطاں کو نہیں شاہینِ کافوری
مجموعۂ اضداد ہے، اقبالؔ نہیں ہے
دل دفترِ حکمت ہے، طبیعت خفَقانی
مجھ کو بھی تمنّا ہے کہ ’اقبال‘ کو دیکھوں
کی اس کی جُدائی میں بہت اشک فشانی
مرے اشعار اے اقبالؔ! کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو
مرے ٹُوٹے ہُوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں
مسلم سے ایک روز یہ اقبالؔ نے کہا
دیوانِ جُزو و کُل میں ہے تیرا وجود فرد
مقامِ عقل سے آساں گزر گیا اقبالؔ
مقامِ شوق میں کھویا گیا وہ فرزانہ
مُدیرِ ’مخزن‘ سے کوئی اقبالؔ جا کے میرا پیام کہہ دے
جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں، اُنھیں مذاقِ سخن نہیں ہے
مِل ہی جائے گی کبھی منزلِ لیلیٰ اقبالؔ!
کوئی دن اور ابھی بادیہ پیمائی کر
میں نے اے اقبالؔ یورپ میں اُسے ڈھونڈا عبث
بات جو ہندوستاں کے ماہ سیماؤں میں تھی
میں نے اقبالؔ سے از راہِ نصیحت یہ کہا
عاملِ روزہ ہے تُو اور نہ پابند نماز
نکلی تو لبِ اقبالؔ سے ہے، کیا جانیے کس کی ہے یہ صدا
پیغامِ سکوں پہنچا بھی گئی، دل محفل کا تڑپا بھی گئی
نہ پُوچھ اقبالؔ کا ٹھکانا، ابھی وہی کیفیت ہے اُس کی
کہیں سرِ رہ گزار بیٹھا ستم کشِ انتظار ہو گا
نہیں ہے نا اُمید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بہت زرخیز ہے ساقی
ٹھہَر سکا نہ کسی خانقاہ میں اقبالؔ
کہ ہے ظریف و خوش اندیشہ و شگُفتہ دماغ
پھر بادِ بہار آئی، اقبالؔ غزل خواں ہو
غنچہ ہے اگر گُل ہو، گُل ہے تو گُلستاں ہو
چُپ رہ نہ سکا حضرتِ یزداں میں بھی اقبالؔ
کرتا کوئی اس بندۂ گستاخ کا مُنہ بند!
ڈھُونڈتا پھرتا ہوں اے اقبالؔ اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں
بُرا سمجھوں انھیں، مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا
کہ میں خود بھی تو ہوں اقبالؔ اپنے نُکتہ چینوں میں
کہا اقبالؔ نے شیخِ حرم سے
تہِ محرابِ مسجد سو گیا کون
نِدا مسجد کی دیواروں سے آئی
فرنگی بُت کدے میں کھو گیا کون؟
کہاں اقبالؔ تُو نے آ بنایا آشیاں اپنا
نوا اس باغ میں بُلبل کو ہے سامانِ رُسوائی
کہاں سے تُونے اے اقبالؔ سِیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
کہیں ذکر رہتا ہے اقبالؔ تیرا
فسوں تھا کوئی، تیری گُفتار کیا تھی
کی حق سے فرشتوں نے اقبالؔ کی غمّازی
گُستاخ ہے، کرتا ہے فطرت کی حِنابندی
ہر نفَس اقبالؔ تیرا آہ میں مستور ہے
سینۂ سوزاں ترا فریاد سے معمور ہے
ہوا ہو ایسی کہ ہندوستاں سے اے اقبالؔ
اُڑا کے مجھ کو غبارِ رہِ حجاز کرے
ہے عجب مجموعۂ اضداد اے اقبالؔ تو
رونقِ ہنگامۂ محفل بھی ہے، تنہا بھی ہے
یہ ہند کے فرقہ ساز اقبالؔ آزری کر رہے ہیں گویا
بچا کے دامن بُتوں سے اپنا غُبارِ راہِ حجاز ہو جا
علامہ اقبال