Urdu Deccan

Saturday, November 20, 2021

اعجاز رحمانی

 کام کیا نفرت نے اپنا عشق نے اپنا کام کیا

 دار و رسن کو تم نے سجایا سر ہم نے نیلام کیا

 

 ایسے بھی کچھ راہ طلب میں ہم نے مسافر دیکھے ہیں

 دھوپ سے ہمت ہار گئے تو سائے کو بدنام کیا

 

 وقت یہ سب سے پوچھ رہا ہے جہدو عمل کی منزل میں

کس کس نے تلوار اٹھائی کس کس نے آرام کیا

 

 ایک ہی صورت باقی تھی سو ہم نے کیا یوں غم کا علاج

 چھوڑ دیا ساقی کو ہم نے ٹکڑے ٹکڑے جام کیا

 

 ہم نے فصیل شہر ستم پر دیپ جلا کر زخموں کے 

سورج کو زحمت سے بچایا ظلمت کو ناکام کیا


اعجاز رحمانی


وحشت رضا کلکتوی

 یوم پیدائش 18 نومبر 1881


یہاں ہر آنے والا بن کے عبرت کا نشاں آیا

گیا زیر زمیں جو کوئی زیر آسماں آیا


نہ ہو گرم اس قدر اے شمع اس میں تیرا کیا بگڑا

اگر جلنے کو اک پروانۂ آتش بجاں آیا


خدا جانے ملا کیا مجھ کو جا کر ان کی محفل میں

کہ باصد نامرادی بھی وہاں سے شادماں آیا


جمایا رنگ اپنا میں نے مٹ کر تیرے کوچے میں

یقین عشق میرا اب تو تجھ کو بدگماں آیا


نہ ہو آزردہ تو آزردگی کا کون موقع ہے

اگر محفل میں تیری وحشتؔ آزردہ جاں آیا


وحشتؔ رضا علی کلکتوی


غلام عباس

 یوم پیدائش 17نومبر 1909


ہم نے بطخ کے چھ انڈے 

اک مرغی کے نیچے رکھے 


پھوٹے انڈے پچیس دن میں 

بول رہے تھے بچے جن میں 


بچے نکلے پیارے پیارے 

مرغی کی آنکھوں کے تارے 


رنگ تھا پیلا چونچ میں لالی 

آنکھیں ان کی کالی کالی 


چونچ تھی چوڑی پنجہ چپٹا 

باقی چوزوں کا سا نقشہ 


بچے خوش تھے مرغی خوش تھی

ہم بھی خوش تھے وہ بھی خوش تھی 


مرغی چگتی کٹ کٹ کرتی 

لے کے ان کو باغ میں پہنچی 


جمع ہوئے واں بچے اس دم 

کوثر تاشی نیلو مریم 


کوثر جو تھی چھوٹی بچی 

بھولی بھالی عقل کی کچی 


اس نے جھٹ اک چوزہ لے کر 

پھینک دیا تالاب کے اندر 


کی یہ شرارت اس پھرتی سے 

رہ گئے ہم سب نہ نہ کہتے 


چوزہ جو تھا ننھا منا 

ہم سمجھے بس اب یہ ڈوبا 


لیکن صاحب وہ چوزہ تو 

کر گیا حیراں پل میں سب کو 


پانی سے کچھ بھی نہ ڈرا وہ 

پہلے جھجکا پھر سنبھلا وہ 


خوب ہی تیرا چھپ چھپ کر کے 

چونچ میں اپنی پانی بھر کے 


بچوں نے پھر باقی چوزے 

ڈال دیے تالاب میں سارے 


ہونے لگی پھر خوب غڑپ غپ 

چھپ چھپ چھپ چھپ چھپ چھپ چھپ چھپ 


مرغی کانپی ہول کے مارے 

جا پہنچی تالاب کنارے 


کٹ کٹ کر کے ان کو بلایا 

اک بھی بچہ پاس نہ آیا 


شاید وہ سمجھے نہیں بولی 

بڑھ گئی آگے ان کی ٹولی


غلام عباس


احمد علی برقی اعظمی

 اردو ہے امتزاجی روایت کی پاسدار


اردو ہے امتزاجی روایت کی پاسدار

یہ اتحاد فکر و نظر کی ہے یادگار


اردو زباں ہے جملہ زبانوں کا امتزاج

جس کا ادب ہے مظہرِ روداد روزگار


جمہوریت کی آج یہ زندہ مثال ہے

الفاظ ہر زبان کے ہیں اس میں بے شمار


اردو ادب کو جن پہ ہمیشہ رہے گا ناز

سرسید اور حالی تھے وہ فخر روزگار


شعرالعجم ہو شبلی کی یا سیرت النبی

عالم میں انتخاب ہیں اردو کے شاہکار


دنیا پہ آشکار ہے آج اس کی آب و تاب

غالب نے شعر و نثر کو بخشا ہے جو وقار


سوزِ دروں ہے میر کا اک محشرِ خیال

ہے شاعری نظیر کی آشوب روزگار


تھی داغ دہلوی کی زباں سہلِ ممتنع

تھے میر انیس مرثیہ گوئی کے شہریار


اردو ادب میں جس کی نہیں ہے کوئی مثال

اقبال کا کلام ہے وہ در شاہوار


برق اعظمی ہوں ، فیض ہوں ، احمد فراز ہوں

عہدِ رواں میں گلشنِ اردو کی تھے بہار


آزاد ہے یہ مذہب و ملت کی قید سے

ہر جا ملیں گے آپ کو اردو کے جاں نثار


منشی نولکشور ہوں یا سرکشن پرساد

طرزِ عمل سے اپنے تھے اردو کے پاسدار


چکبست ہوں ، فراق ہوں ، ملا ہوں یا نسیم

اردو کے جاں نثاروں کی لمبی ہے اک قطار


ہے اقتضائے وقت کہ اردو ہو سرخرو

ماحول آؤ مل کے کریں اس کا سازگار


عہدِ رواں میں اردو ہے اک عالمی زباں

مداح جس کے برقی ہیں دنیا میں بے شمار


احمد علی برقی اعظمی


حسین ماجد

 یوم پیدائش 15 نومبر 1947


طوفاں کوئی نظر میں نہ دریا ابال پر 

وہ کون تھے جو بہہ گئے پربت کی ڈھال پر 


کرنے چلی تھی عقل جنوں سے مباحثے 

پتھر کے بت میں ڈھل گئی پہلے سوال پر 


میرا خیال ہے کہ اسے بھی نہیں ثبات 

جاں دے رہا ہے سارا جہاں جس جمال پر 


لے چل کہیں بھی آرزو لیکن زبان دے 

ہرگز نہ خون روئے گی اپنے مآل پر 


ماجدؔ خدا کے واسطے کچھ دیر کے لیے 

رو لینے دے اکیلا مجھے اپنے حال پر


حسین ماجد


رشید احمد

 یوم پیدائش 01 جنوری 1959


اپنے آنگن میں اندھیرا نہیں ہونے دیتے

میرے بچے مجھے تنہا نہیں ہونے دیتے


تیری آواز کی ہر تان لئے پھرتے ہیں

شہرِ خاموش کو رسوا نہیں ہونے دیتے


تشنگی میں بھی انا کو ہیں سلامت رکھتے  

اپنی گردش کو پیالا نہیں ہونے دیتے 


بسکہ اتنا ہی کہوں گا کہ مرے شہر کے لوگ

ایسے کافر ہیں سویرا نہیں ہونے دیتے


عالمِ وجد میں بھی آنکھ کھلی رکھتے ہیں

اپنے جوبن کا نظارہ نہیں ہونے دیتے


مر تو جاتے ہیں مگر گھر کی حفاظت کے لئے

اپنی دیوار کو رستہ نہیں ہونے دیتے


گھر کے حالات ہوں یا کوئی بھی غم ناکی ہو

شہر والوں کو شناسا نہیں ہونے دیتے


دل کے داغوں کو بھی رکھتے ہیں چھپا کے ہر دم

اپنے زخموں کا تماشا نہیں ہونے دیتے


رشید احمد


شاہد جمال

 یوم پیدائش 17 نومبر 1963


دل سلگ اٹھے تو یوں شام و سحر تکلیف دے

جیسے مزدوروں کو جلتی دوپہر تکلیف دے


آج کی دنیا میں بخشا جائے کس کو اعتبار

جو بھی ہو جائے ذرا سا معتبر تکلیف دے


وہ کب آسانی سے ہوتا ہے کسی کو دستیاب

اس کی جانب جائے جو بھی رہ گزر تکلیف دے


زندگی میں جانے انجانے کوئی بھی فیصلہ

ہم سے ہو جائے غلط تو عمر بھر تکلیف دے


فون کی گھنٹی بجے یا ٹیلی ویژن آن ہو

آب کہیں سے آئے کوئی بھی خبر تکلیف دے


شاہد جمال


صفدر ہمدانی

 یوم پیدائش 17 نومبر 1950


تبدیلیاں ہیں عمر کے جانے کے ساتھ ساتھ

ناراضگی بڑھی ہے منانے کے ساتھ ساتھ


نفرت منافقت سے رہی مجھ کو عمر بھر

میں چل سکا نہیں ہوں زمانے کے ساتھ ساتھ


میری مصیبتیں بھی گوارا نہیں اسے

مجھ کو رلا رہا ہے ہنسانے کے ساتھ ساتھ


دل میں سلگ رہی ہیں دعاؤں کی مشعلیں

لب ہل رہے ہیں ہاتھ اٹھانے کے ساتھ ساتھ


اس کی ہر ایک بات تو یکسر نہیں غلط

ہیں کچھ حقیقتیں بھی بہانے کے ساتھ ساتھ


میں آشنا ہوں اس کے مزاج و خیال سے

یاد آؤں گا اسے میں بھلانے کے ساتھ ساتھ


صفدرؔ عجیب لگتی ہے بستی بسی ہوئی

آتش فشاں کے سرخ دہانے کے ساتھ ساتھ


صفدر ہمدانی


امید فاضلی

 یوم پیدائش 17 نومبر 1923


مقتل جاں سے کہ زنداں سے کہ گھر سے نکلے

ہم تو خوشبو کی طرح نکلے جدھر سے نکلے


گر قیامت یہ نہیں ہے تو قیامت کیا ہے

شہر جلتا رہا اور لوگ نہ گھر سے نکلے


جانے وہ کون سی منزل تھی محبت کی جہاں

میرے آنسو بھی ترے دیدۂ تر سے نکلے


دربدری کا ہمیں طعنہ نہ دے اے چشم غزال

دیکھ وہ خواب کہ جس کے لیے گھر سے نکلے


میرا رہزن ہوا کیا کیا نہ پشیمان کہ جب

اس کے نامے میرے اسباب سفر سے نکلے


بر سر دوش رہے یا سر نیزہ یارب

حق پرستی کا نہ سودا کبھی سر سے نکلے


امید فاضلی


اشفاق احمد صائم

 کبھی تو آؤ گی لوٹ کر تم 

آکے دیکھو گی راہگزر کو 

اک شکشتہ سا گھر ملے گا 

جس کی چوکھٹ سے بام تک اک

 زرد پتوں کی بیل ہو گی

جو سنائے گی داستانیں

اکیلے پن کی اداسیوں پر


ہاتھ اٹھے گا دستکوں کو 

در تو لیکن کھلا ملے گا

جیسے تم کو سدا ملا تھا


گھر کے آنگن میں دیکھنا تم

کتنی وحشت بھری پڑی ہے

سامنے اک گھڑی ہے دیکھو

جس پہ دو بج کے دس منٹ ہیں 

تیرے جاتے ہی ایک پل میں

وہ سارے لمحے ٹھہر گئے تھے

جو کہ اب تک رکے ہوئے ہیں 


یاد ہو گا نا میرا کمرہ

دیواریں جس کی بھری ہوئیں ہیں

اب بھی تیری ہی تصویروں سے

جس کی ساکن فضا میں اب تک

تمھاری خوشبو بسی ہوئی ہے

وہاں اک

 ضعیف سی میز ہو گی

جس پہ رکھے بوسیدہ کاغذ

ان پہ لکھی ادھوری نظمیں 

وہ اَدھ مِٹے سے حروف سارے

بتائیں گے تم کو کس طرح سے

ادھورے پن کے عذاب جھیلے 


کتنے سوکھے گلاب جن پر 

تمہاری اک ، اک ، سالگرہ کا 

دن بھی لکھا ، تاریخ بھی ہے


اکٹھے سارے گلاب کرنا 

پھر ان کا گن کے حساب کرنا 

کتنے سالوں سے تم نہ آئی


چھلک کے آنسو گریں گے ان پر 

اٹھا کے سارے بوسیدہ کاغذ

لگا کے دل سے گلاب سارے 

لپک کے بھاگو گی پھر گلی میں 

وہاں پہ بچے جو کھیلتے ہیں 

تم ان سے پوچھو گی جا کے میرا 

یہاں پہ بستا تھا ایک شاعر 

یہاں پہ رہتا تھا ایک صائم

کہاں ہے وہ ، اب کدھر گیا ہے

بچے حیرت سے تجھ کو دیکھیں گے

     " تم ہو وہ " 

تم ہو وہ

جس سے الفت نبھا نبھا کر

وہ جس کے قصے سنا سنا کر

وفا کو کر کے امر گیا وہ


تم نے آنے میں دیر کر دی


وہ تیرا شاعر، وہ تیرا صائم

برسوں پہلے ہی مر گیا وہ

تم نے آنے میں دیر کر دی 


اشفاق احمد صائم


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...