Urdu Deccan

Monday, November 29, 2021

انا دہلوی

 کون کہتا ہے زمانے کے لئے زندہ ہوں

میں تو بس آپ کو پانے کے لئے زندہ ہوں


آپ فرمائیں ستم شوق سے پھر بھی میں تو

آپ کے ناز اٹھانے کے لئے زندہ ہوں


کون اس دور میں ہوتا ہے کسی کا ساتھی

زندگی تجھ کو نبھانے کے لئے زندہ ہوں


جو ترے پیار کا صدیوں سے ہے واجب مجھ پر 

ہاں وہی قرض چکانے کے لئے زندہ ہوں


حاکم وقت نے جو آگ لگائی ہے یہاں

میں وہی آگ بجھانے کے لئے زندہ ہوں


جو ترقی پہ نئے لوگوں کی جلتے ہیں اناؔ

میں انہیں ہوش میں لانے کے لئے زندہ ہوں


انا دہلوی


بشری اعجاز

 محبت میں کوئی صدمہ اٹھانا چاہئے تھا

بھلایا تھا جسے وہ یاد آنا چاہئے تھا


گری تھیں گھر کی دیواریں تو صحن دل میں ہم کو

گھروندے کا کوئی نقشہ بنانا چاہئے تھا


اٹھانا چاہئے تھی راکھ شہر آرزو کی

پھر اس کے بعد اک طوفان اٹھانا چاہئے تھا


کوئی تو بات کرنا چاہئے تھی خود سے آخر

کہیں تو مجھ کو بھی یہ دل لگانا چاہئے تھا


کبھی تو اہتمام آرزو بھی تھا ضروری

کوئی تو زیست کرنے کا بہانا چاہئے تھا


مری اپنی اور اس کی آرزو میں فرق یہ تھا

مجھے بس وہ اسے سارا زمانہ چاہئے تھا


بشریٰ اعجاز


بشری فرخ

 بظاہر تجھ سے ملنے کا کوئی امکاں نہیں ہے

دلاسوں سے بہلتا یہ دل ناداں نہیں ہے


چمن میں لاکھ بھی برسے اگر ابر بہاراں

تو نخل دل ہرا ہونے کا کچھ امکاں نہیں ہے


وہ اک دیوار ہے حائل ہمارے درمیاں جو

کسی روزن کا اس میں اب کوئی امکاں نہیں ہے


اگرچہ کھا گئی دیمک غموں کی بام و در کو

مگر ٹوٹی ابھی تک یہ فصیل جاں نہیں ہے


تمہاری روح بشریؔ قید ہے تن کے قفس میں

اسے آزاد کرنا معجزہ آساں نہیں ہے


بشریٰ فرخ


ساغر صدیقی

 یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں

ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں


تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں

ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں


دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو

مرگ امید کے آثار نظر آتے ہیں


مرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں

آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں


کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر

آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں


حشر میں کون گواہی مری دے گا ساغرؔ

سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں


ساغر صدیقی


حسن عباس رضا

 یوم پیدائش 20 نومبر 1951


آنکھوں سے خواب دل سے تمنا تمام شد

تم کیا گئے کہ شوق نظارہ تمام شد


کل تیرے تشنگاں سے یہ کیا معجزہ ہوا

دریا پہ ہونٹ رکھے تو دریا تمام شد


دنیا تو ایک برف کی سل سے سوا نہ تھی

پہنچی دکھوں کی آنچ تو دنیا تمام شد


شہر دل تباہ میں پہنچوں تو کچھ کھلے

کیا بچ گیا ہے راکھ میں اور کیا تمام شد


عشاق پر یہ اب کے عجب وقت آ پڑا

مجنوں کے دل سے حسرت لیلیٰ تمام شد


ہم شہر جاں میں آخری نغمہ سنا چلے

سمجھو کہ اب ہمارا تماشا تمام شد


اک یاد یار ہی تو پس انداز ہے حسنؔ

ورنہ وہ کار عشق تو کب کا تمام شد


حسن عباس رضا


خواجہ ساجد

 یوم پیدائش 21 نومبر 1968


کوئی شیشہ نہ در سلامت ہے 

گھر مرا دشت کی امانت ہے 


سارے جذبوں کے باندھ ٹوٹ گئے 

اس نے بس یہ کہا اجازت ہے 


جان کر فاصلے سے ملنا بھی 

آشنائی کی اک علامت ہے 


اس سے ہر رسم و راہ توڑ تو دی 

دل کو لیکن بہت ندامت ہے 


روبرو اس کے ایک شب جو ہوئے 

ہم نے جانا کہ کیا عنایت ہے 


دو قدم ساتھ چل کے جان لیا 

کیا سفر اور کیا مسافت ہے 


کل سیاست میں بھی محبت تھی 

اب محبت میں بھی سیاست ہے 


رات پلکوں پہ دل دھڑکتا تھا 

تیرا وعدہ بھی کیا قیامت ہے


خواجہ ساجد


نائلہ راٹھور

 یوم پیدائش 21 نومبر


تیری قربت کی جستجو کی ہے 

کیا عجب دل نے آرزو کی ہے 


بات جو بھی تھی روبرو کی ہے 

کب پس پشت گفتگو کی ہے 


میں نے خود کو اگر نہیں بدلا 

ترک کب تو نے اپنی خو کی ہے 


سوچ تیری جدا ہے گر مجھ سے

کیوں پھر اتنی بھی گفتگو کی ہے 


زندگی جی کے تھک چکے ہیں ہم

موت کی اب تو آرزو کی ہے

  

عرش کو چھو کے کیوں نہیں آتی 

جب دعا کی ہے باوضو کی ہے 


بھول جانا تیری ضرورت تھی 

پوری تیری ہی آرزو کی ہے

 

تو نے کب مجھ سے بیوفائی کی 

بات ساری تو اس لہو کی ہے

 

نائلہ راٹھور


Saturday, November 20, 2021

شازیہ طارق

 یوم پیدائش 21 نومبر 1975


آرزو اے دل کا پیکر دل فریب

کیا بتائیں اے گلِ تر دل فریب


حالتِ ابتر کو میری دیکھ کر

رو پڑا پھولوں سا پیکر دل فریب


دے گیا دشمن کو ہائے تقویت

ڈوبنے کا میرے منظر دل فریب


بے خیالی میں ہو ئ مجھ سے خطا

جو پہن لی میں نے جھانجر دل فریب


سوزِ دل کا اب سبب مت پوچھیے

کیجیے بس ذکرِ دلبر دل فریب


بعد مدت کے کھلی دل کی کلی

دیکھ کے پھولوں سا پیکر دل فریب


شازیہ علم و ہنر کی گود سے

چن لو کچھ نایاب گوہر دل فریب


شازیہ طارق


نادیہ سحر

 تجھ سے اک کیا ہوئی شناسائی

آنکھ ہر ہو گئی تماشائی


تو بھی اپنا نہیں تھا دوست مرے

بات یہ دیر سے سمجھ آئی


بھول جانے پہ تھا بہت موقوف

پر تجھے بھول ہی نہیں پائی


نام تیرا لیا کسی نے کہیں 

آنکھ اشکوں سے میری بھر آئی


میرےکمرے میں دو ہی چیزیں ہیں 

ایک میں ایک میری تنہائی


ہم جہاں سے چلے تھے دکھ لے کر 

زندگی کیوں ہمیں وہیں لائی


ہم محبت کسی سے کر بیٹھے 

ہم نے اس جرم کی سزا پائی


بین کرتا ہے دل کسی کا سحر 

بج رہی ہے کہیں پہ شہنائی 


نادیہ سحر


دیشمکھ ابن مقصود مہروی

 ٹیپو سلطان کی یوم پیدائش کے حوالے سے ایک مطلع۔۔۔۔


تاریخ کے اوراق میں تابندہ رہیں گے 

مرجائیں گے، دنیا میں مگر زندہ رہیں گے 


دیشمکھ ابن مقصود مہروی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...