Urdu Deccan

Friday, December 17, 2021

ضمیر درویش

 یوم پیدائش 08 دسمبر 1943


دعا ہے ، زندگی اب یوں گزار جائیں ہم

کہ تُو ہو جب بھی مُقابل تو ہار جائیں ہم


اداس لوگوں میں جانے کا قصد ہے تو یہیں

لبوں کا اپنے تبسم اتار جائیں ہم


ہے کسرِ شان ترے در کی، بے قرار آکر

یہاں سے لوَٹ کے بھی بے قرار جائیں ہم


وہاں ہے جان کا خطرہ مگر نہ جانے کیوں

یہ بے کلی ہے وہاں بار بار جائیں ہم۔ 


سنوارنے میں لگے ہیں وہ عاقبت اپنی

کسی غریب کی دنیا سنوار جائیں ہم


تجھے پکارنا ہے رائگاں تو مجبوراً

ترے ضمیر کو اب کے پکار جا ئیں ہم


ضمیر درویش


افتخار الفی

 یوم پیدائش 08 دسمبر 1973


بانٹ لیتے سکھ سبھی دکھ بانٹتا کوئی نہیں

ابتری میں حال تک بھی پوچھتا کوئی نہیں


اجنبی ہر ایک چہرہ آنکھ میں بے گانگی

جیسے مجھ کو شہر بھر میں جانتا کوئی نہیں


رنگ ,تتلی,پھول,خوشبو عشرتوں کے چونچلے

 کلفتوں میں خواب ایسے دیکھتا کوئی نہیں

 


ہر کوئی ہے دوسروں کی عیب کوشی میں مگن

بس یہاں اپنا گریباں جھانکتا کوئی نہیں


جانتا ہوں آپ جیسے مخلصوں کی مخلصی 

بن غرض تو اب خدا کو پوجتا کوئی نہیں


دیکھتے ہیں سب یہاں پر تن بدن کے فاصلے

دل سے دل کی دوریوں کو ناپتا کوئی نہیں


جب اداسی بال کھولے چل رہی ہو ساتھ ساتھ

شوخیوں سے چہچہاتا ناچتا کوئی نہیں


پارسائی در حقیقت نارسائی کا فسوں

دسترس میں جام الفی چھوڑتا کوئی نہیں


افتخار الفی


مولانا امتیاز علی عرشی

 یوم پیدائش 08 دسمبر 1904


حسن خود جلوہ نمائی پہ ہے مجبور میاں

جانئے عشق کو ایک مجرم معذور میاں


قرب گر اور نہ بڑھ جائے تو میرا ذمہ

کھینچ کر دیکھیے اپنے کو ذرا دور میاں


مل رہی ہے ہمیں قسمت سے وہ صہبا کہ جسے

پی کے ہوتا نہیں کوئی بھی مخمور میاں


اپنی راتوں کو جو بیدار رکھا کرتے ہیں

ان کی بیداری کو درکار ہے اک صور میاں


عشق وہ نار کہ دیکھے سے دکھائی نہ پڑے

حسن وہ نور کہ رہتا نہیں مستور میاں


احترام گل و لالہ بسر و چشم مگر

بچیں کانٹوں سے یہ اپنا نہیں دستور میاں


تم جب آتے ہو تو کچھ ایسا لگا کرتا ہے

جیسے جنت سے اتر آئی ہو اک حور میاں


ہم نے سو بار بسایا اسے امیدوں سے

دل وہ بستی ہے جو رہتی نہیں معمور میاں


دار پر چڑھنے کی طاقت نہیں عرشیؔ میں ابھی

سر سے پا تک ہے شکستوں سے بدن چور میاں


 مولانا امتیاز علی عرشی


قاضی محمد زین العابدین

 یوم پیدائش 08 دسمبر 1892

نظم وقت


وقت کیا چیز ہے کچھ اسکی ہے قمیت معلوم

دفتروں میں نہ سماویں جو لکہی جائیں رقوم

اس سہ حرفی میں سمجھ دونوں جہانکا مفہوم

 جس طرح سے ہیں افاعیل فعل کے محکوم

 


رائیگاں اسکو نہ کھو دینا کہ پچتاؤ گے

مثل حرف غلط اس لوح سے مٹ جاؤ گے


لغو بیہودہ اگر وقت گزارا گزرا 

جو کہ گزرا وہ پلٹ کر نہ کبھی آئے گا

اب جو بچیائے تو پچتانے میں یہ وقت گیا

کام کرنا تھا جو اسوقت میں وہ بہی نہوا

 


ایک لمحہ کو بہی بے کار اگر کھوؤ گے

جنتلک جیتے ہو پچتاؤگے اور روؤگے


وقت کہتا ہے مری قدر کرو قدر کرو

رائیگاں ایک بھی لمحہ مرا جانے مت دو

ہے ضرورت مری ہر کام میں تم سمجہو تو

چیز انمول ملی مفت میں حاصل کرلو


میرا ہی نام ہے اقبال جو مجکو پاتو

میرا ہی نام ہے اوبار جو مجکو کھو دو


جو نکما مجھے چھوڑینگے وہی ہونگے ذلیل

اور جو کام میں لائیںگے بنیں گئے وہ جلیل

میں ہوں مقصود کرو حکم کی میری تعمیل

کام یابی کا نہیں میرے سوا کو وکیل


میرا دم ہے برکت دولت دنیا کے لئے

اور ضرورت ہے مری نعمت عقبے کے لئے


قاضی محمد زین العابدین 


ناصر کاظمی

 یوم پیدائش 08 دسمبر 1925


گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے

خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے


مٹی مٹی سی امیدیں تھکے تھکے سے خیال

بجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانے


ہزار شکر کہ ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا

یہ اور بات کہ پوچھا نہ اہل دنیا نے


بقدر تشنہ لبی پرشس وفا نہ ہوئی

چھلک کے رہ گئے تیری نظر کے پیمانے


خیال آ گیا مانوس رہ گزاروں کا

پلٹ کے آ گئے منزل سے تیرے دیوانے


کہاں ہے تو کہ ترے انتظار میں اے دوست

تمام رات سلگتے ہیں دل کے ویرانے


امید پرسشِ غم کس سے کیجیے ناصرؔ

جو اپنے دل پہ گزرتی ہے کوئی کیا جانے


ناصر کاظمی


مظہر وسطوی

 یوم پیدائش 07 دسمبر


بام پر چاند اگانے کی بہت کوشش کی

میں نے اک شوخ کو پانے کی بہت کوشش کی

  

 مجھ سے ناراض ہو لیکن یہ شرافت دیکھو

 نیند سے تم کو جگانے کی بہت کوشش کی

   

 وہ بھی اب دیکھتا ہے شوق نظر سے جس نے

  رخ پہ دیوار گرانے کی بہت کوشش کی 

  

آج تو بھی میرا مداح بنا بیٹھا ہے 

 یار تو نے تو مٹانے کی بہت کوشش کی

 

 دل کو پر نور بنانے کی بھی سوچیں اب ہم 

 گھر کو بازار بنانے کی بہت کوشش کی

 

 رات بھر میں بھی مناتا رہا مظہرؔ اس کو

  اس نے بھی روٹھ کے جانے کی بہت کوشش کی

  

 مظہر وسطوی


رفیعہ شبنم عابدی

 یوم پیدائش 07 دسمبر 1943


خود فریبی ہے دغا بازی ہے عیاری ہے

آج کے دور میں جینا بھی اداکاری ہے


تم جو پردیس سے آؤ تو یقیں آ جائے

اب کے برسات یہ سنتے ہیں بڑی پیاری ہے


میرے آنگن میں تو کانٹے بھی ہرے ہو نہ سکے

اس کی چھت پہ تو مہکتی ہوئی پھلواری ہے


چوڑیاں کانچ کی قاتل نہ کہیں بن جائیں

سحر انگیز بڑی ان کی گلوکاری ہے


کاش بجلی کوئی چمکے کوئی بادل برسے

آج کی شام زمینوں پہ بہت بھاری ہے


کھا گئی گرمئ جذبات کو رسموں کی ہوا

آج ہر شخص فقط برف کی الماری ہے


میں بھی رادھا سے کوئی کم تو نہیں ہوں شبنمؔ

سانولے رنگ کا میرا بھی تو گردھاری ہے


رفیعہ شبنم عابدی


علی اختر صفدر ہاشمی

 یوم پیدائش 05 دسمبر


کس خطا کی وہ سزا ہم کو دیا کرتے ہیں 

بیٹھ کر گوشے میں نظروں سے چھپا کرتے ہیں 


مجھ سے رودادِ شبِ ہجر نہ پوچھو ہمدم 

رات دن ہجر میں مر مر کے جیا کرتے ہیں 


پہلے ملتے تھے تو ملتے تھے بڑی الفت سے 

اب خدا جانے وہ کیوں مجھ سے حیا کرتے ہیں 


بے خودی نے ہمیں کس موڑ پہ چھوڑا لا کر

چھوڑ کر گھر کسی صحرا میں رہا کرتے ہیں 


چوٹ کھائی ہے بڑی ہم نے دلِ مضطر پر 

غم غلط کرنے کو ہم جام پیا کرتے ہیں 


واہ کیا خوب ادا سوجھی ہے ان کو یارو 

چاکِ گل کو رگِ بلبل سے سیا کرتے ہیں 


عشق کا راز کہاں ہم پہ کھلا ہے صفدر 

کس لئے شمع پہ پروانے جلا کرتے ہیں


علی اختر صفدر ہاشمی


فرحت بلتی

 یوم پیدائش 06 دسمبر


پوچھتے کیا ہو کہ اب میرا کوئی حال نہیں

اب سفیدی ہی کہاں سر پہ کوئی بال نہیں


اب تو تحفے میں نئی چیز کوئی دوں گا تجھے

اب تو میں جان ہی دوں گا کوئی رومال نہیں


یہ اذیت بھی عجب ہے کہ نئے دور میں اب

کوئی میسج بھی نہیں یار کوئی کال نہیں


سجدہ کرتے ہوئے اب شرم یہ آتی ہے مجھے

جن پہ رب خوش ہو مرے ایسے بھی اعمال نہیں


رونقیں تم سے تھیں اے جانِ جگر لوٹ کے آ

اب ترے بن ترے فرحت کا کوئی حال نہیں


فرحت بلتی


جدت اسلوبی

 یوم پیدائش 6 دسمبر


در بدر بھٹکا کیے اور یہاں تک پہنچے

خود کو پانے کے لئے پیر مغاں تک پہنچے


 وہ بھی دن تھا کہ مکمل تھا بھروسہ مجھ پر

 مرحلے اس کی محبت کے گماں تک پہنچے

 

 گھر سے نکلے ہوئے دو لمحے ہی گزرے تھے ابھی

 پوچھتے وہ ہیں کہ اب آپ کہاں تک پہنچے

 

 اس کی آنکھوں کا نشہ چھایا ہے ہم پر ایسا

 گرتے پڑتے ہوئے ہم اپنے مکاں تک پہنچے

 

 میری کوشش ہے رہے امن جہاں میں قائم

 "میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے"

 

 قبل اس کے وہ رہا کرتے تھے میرے دل میں

 جب ہوا عشق تو وہ آفت جاں تک پہنچے

 

 جو رہا کرتے تھے خوابوں میں ہمیشہ میرے

 آج یہ حال ہے وہ بھی رگ جاں تک پہنچے

 

 اپنے جدت کو تغافل سے نہ دیکھا کیجے

 آپ کے عشق میں ہم سوز نہاں تک پہنچے

 

جدت اسلوبی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...