Urdu Deccan

Thursday, December 30, 2021

رضا ہمدانی

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1910


یہ دور مسرت یہ تیور تمہارے

ابھرنے سے پہلے نہ ڈوبیں ستارے


بھنور سے لڑو تند لہروں سے الجھو

کہاں تک چلو گے کنارے کنارے


عجب چیز ہے یہ محبت کی بازی

جو ہارے وہ جیتے جو جیتے وہ ہارے


سیہ ناگنیں بن کے ڈستی ہیں کرنیں

کہاں کوئی یہ روز روشن گزارے


سفینے وہاں ڈوب کر ہی رہے ہیں

جہاں حوصلے ناخداؤں نے ہارے


کئی انقلابات آئے جہاں میں

مگر آج تک دن نہ بدلے ہمارے


رضاؔ سیل نو کی خبر دے رہے ہیں

افق کو یہ چھوتے ہوئے تیز دھارے


رضا ہمدانی


عشرت آفرین

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1956


اپنی آگ کو زندہ رکھنا کتنا مشکل ہے 

پتھر بیچ آئینہ رکھنا کتنا مشکل ہے 


کتنا آساں ہے تصویر بنانا اوروں کی 

خود کو پس آئینہ رکھنا کتنا مشکل ہے 


آنگن سے دہلیز تلک جب رشتہ صدیوں کا 

جوگی تجھ کو ٹھہرا رکھنا کتنا مشکل ہے 


دوپہروں کے زرد کواڑوں کی زنجیر سے پوچھ 

یادوں کو آوارہ رکھنا کتنا مشکل ہے 


چلو میں ہو درد کا دریا دھیان میں اس کے ہونٹ 

یوں بھی خود کو پیاسا رکھنا کتنا مشکل ہے 


تم نے معبد دیکھے ہوں گے یہ آنگن ہے یہاں 

ایک چراغ بھی جلتا رکھنا کتنا مشکل ہے 


داسی جانے ٹوٹے پھوٹے گیتوں کا یہ دان 

سمے کے چرنوں میں لا رکھنا کتنا مشکل ہے


عشرت آفرین


شمیم فاروقی

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1943


کتاب کون سی ہے اور کس زبان میں ہے

سنا ہے ذکر ہمارا بھی داستان میں ہے


اسی نے دھوپ میں چلنے کی جیت لی بازی

وہ ایک شخص جو مدت سے سائبان میں ہے


زمیں کو جو بھی اگانا ہے وہ اگائے گی

مجھے پتہ ہے مرا رزق آسمان میں ہے


وہ لوٹ آئے تو اپنی بھی کچھ خبر دوں گا

مرے لہو کا پرندہ ابھی اڑان میں ہے


اسے بھی چھوڑ کہ اب حوصلہ نہیں باقی

وہ ایک تیر جو اب تک تری کمان میں ہے


یہیں کہیں نہ کہیں ہے شمیمؔ فاروقی

اگر یقیں میں نہیں ہے تو پھر گمان میں ہے


شمیم فاروقی


سیف زلفی

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1934


سائے جو سنگ راہ تھے رستے سے ہٹ گئے

دل جل اٹھا تو خود ہی اندھیرے سمٹ گئے


دن بھر جلے جو دھوپ کے بستر پہ دوستو

سورج چھپا تو چادر شب میں سمٹ گئے


وہ کرب تھا کہ دل کا لہو آنچ دے اٹھا

ایسی ہوا چلی کہ گریبان پھٹ گئے


وہ فکر تھی کہ دیدہ و دل مضمحل ہوئے

وہ گرد تھی کہ گھر کے در و بام اٹ گئے


آئی جو موج پاؤں زمیں پر نہ جم سکے

دریا چڑھا تو کتنے سفینے الٹ گئے


پھیلا غبار غم تو کہیں منہ چھپا لیا

آندھی اٹھی تو گھر کے ستوں سے لپٹ گئے


کہتے تھے جس کو قرب وہی فاصلہ بنا

بدلا جو رخ ندی نے کئی شہر کٹ گئے


گمنام تھے تو سب کی طرف دیکھتے تھے ہم

شہرت ملی تو اپنی خودی میں سمٹ گئے


دستک ہوئی تو دل کا دریچہ نہ کھل سکا

آئے اور آ کے یاد کے جھونکے پلٹ گئے


میں خود ہی اپنی راہ کا پتھر بنا رہا

ہر چند آپ بھی مرے رستے سے ہٹ گئے


دل کو کسی کی یاد کا غم چاٹتا رہا

یوں میری زندگی کے کئی سال گھٹ گئے


زندان غم کا دھیان بھی خنجر سے کم نہ تھا

زنجیر کی کھنک سے مرے پاؤں کٹ گئے


رستے رہیں گے دیدۂ حسرت سے عمر بھر

زلفیؔ جو زخم پائے طلب سے چمٹ گئے


سیف زلفی


فرحت احساس

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1952


مرے ثبوت بہے جارہے ہیں پانی میں

کسے گواہ بناؤں سرائے فانی میں


جو آنسوؤں میں نہاتے رہے سو پاک رہے

نماز ورنہ کسے مل سکی جوانی میں


بھڑک اٹھے ہیں پھر آنکھوں میں آنسوؤں کے چراغ

پھر آج آگ لگادی گئی ہے پانی میں


ہمی تھے ایسے کہاں کے کہ اپنے گھر جاتے

بڑے بڑوں نے گزاری ہے بے مکانی میں


بے کنار بدن کون پار کر پایا

بہت چلے گئے سب لوگ اس روانی میں


وصال و ہجر کہ ایک اک چراغ تھے دونوں

سیاہ ہو کے رہے شب کی بے کرانی میں


بس ایک لمس کہ جل جائیں سب خس و خاشاک

اسے وصال بھی کہتے ہیں خوش بیانی میں


کہانی ختم ہوئی تب مجھے خیال آیا

ترے سوا بھی تو کردار تھے کہانی میں


فرحت احساس


سرشار صدیقی


 یوم پیدائش 25 دسمبر 1926


میرے بدن میں تھی تری خوشبوئے پیرہن

شب بھر مرے وجود میں مہکا ترا بدن


ہوں اپنے ہی ہجوم تمنا میں اجنبی

میں اپنے ہی دیار نفس میں جلا وطن


سب پتھروں پہ نام لکھے تھے رفیقوں کے

ہر زخم سر ہے سنگ ملامت پہ خندہ زن


اب دشت بے اماں ہی میں شاید ملے پناہ

گھر کی کھلی فضا میں تو بڑھنے لگی گھٹن


ہر آدمی ہے پیکر فریاد ان دنوں

ہر شخص کے بدن پہ ہے کاغذ کا پیرہن


خوش فہم ہیں کہ صرف روایت پرست ہیں

خوش فکر تھے کہ لے اڑے تاریخ کا کفن


اس دور میں یہاں بھی فلسطین کی طرح

کچھ لوگ بے زمیں ہوئے کچھ لوگ بے وطن


مثل صبا کوئی ادھر آیا ادھر گیا

گھر میں بسی ہوئی ہے مگر بوئے پیرہن


سرشارؔ میں نے عشق کے معنی بدل دیے

اس عاشقی میں پہلے نہ تھا وصل کا چلن


سرشار صدیقی

نوشاد علی

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1919


آبادیوں میں دشت کا منظر بھی آئے گا

گزرو گے شہر سے تو مرا گھر بھی آئے گا


اچھی نہیں نزاکت احساس اس قدر

شیشہ اگر بنوگے تو پتھر بھی آئے گا


سیراب ہو کے شاد نہ ہوں رہروان شوق

رستے میں تشنگی کا سمندر بھی آئے گا


دیر و حرم میں خاک اڑاتے چلے چلو

تم جس کی جستجو میں ہو وہ در بھی آئے گا


بیٹھا ہوں کب سے کوچۂ قاتل میں سرنگوں

قاتل کے ہاتھ میں کبھی خنجر بھی آئے گا


سرشار ہو کے جا چکے یاران مے کدہ

ساقی ہمارے نام کا ساغر بھی آئے گا


اس واسطے اٹھاتے ہیں کانٹوں کے ناز ہم

اک دن تو اپنے ہاتھ گل تر بھی آئے گا


اتنی بھی یاد خوب نہیں عہد عشق کی

نظروں میں ترک عشق کا منظر بھی آئے گا


روداد عشق اس لیے اب تک نہ کی بیاں

دل میں جو درد ہے وہ زباں پر بھی آئے گا


جس دن کی مدتوں سے ہے نوشادؔ جستجو

کیا جانے دن ہمیں وہ میسر بھی آئے گا


نوشاد علی


صہبا لکھنوی

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1919


تیرہ بختی نہ گئی سوختہ سامانوں کی

خاک روشن نہ ہوئی شمع سے پروانوں کی


چاہتے ہیں نہ رہے ہوش میں اپنے کوئی

کتنی معصوم ضدیں ہیں ترے دیوانوں کی


شیشۂ دل سے کوئی برق تڑپ کر نکلی

جب پڑی چوٹ چھلکتے ہوئے پیمانوں کی


نگہ مست سے ٹکراتے رہے شیشۂ دل

خوب چلتی رہی دیوانوں سے دیوانوں کی


مست صہبائے محبت ہے ازل سے صہباؔ

اس کو شیشہ کی ضرورت ہے نہ پیمانوں کی


صہبا لکھنوی


سید اظہر فرید

 یوم پیدائش 25 دسمبر


ایک خواہش تھی کوئی خواب معطر جاگے

  میری بستی میں تو ہر لمحہ ستم گر جاگے


تم نے پایا ہے اسے گزرا حوالہ دے کر

 اب نہ آنکھوں میں تمہاری یہ تکبر جاگے


  کیا پتہ تم کو دعاؤں کا ثمر مل جائے

تم قدم ریت پہ رکھ دو تو سمندر جاگے


  موسمِ ہجر نے آنے کو کہا ہے اظہر

   کیا خبر رات اندھیری کا مقدر جاگے


 سید اظہر فرید


فیصل فارانی

 یوم پیدائش 25 دسمبر


 کبھی یقیں میں کبھی تم گمان میں رہنا

 مجھے جو مل نہ سکے اس جہان میں رہنا

 

نکل پڑا ہوں ترے بے نشاں جزیروں کو

نشان بن کے مرے بادبان میں رہنا


أسی کے در پہ ہے دستک کی آرزو، جس نے

ازل سیکھا ہے بے در مکان میں رہنا


کسی طرح سے بھی ٹوٹے نہ رابطہ اپنا

نظر سے ہٹ بھی گئے تم تو دھیان میں رہنا


سبب یہی ہے مِرے دل کی لامکانی کا

زمیں پہ چلتے ہوئے آسمان میں رہنا


فیصل فارانی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...