Urdu Deccan

Friday, December 31, 2021

مخمور سعیدی

 یوم پیدائش 31 دسمبر 1938


لکھ کر ورق دل سے مٹانے نہیں ہوتے

کچھ لفظ ہیں ایسے جو پرانے نہیں ہوتے


جب چاہے کوئی پھونک دے خوابوں کے نشیمن

آنکھوں کے اجڑنے کے زمانے نہیں ہوتے


جو زخم عزیزوں نے محبت سے دئیے ہوں

وہ زخم زمانے کو دکھانے نہیں ہوتے


ہو جائے جہاں شام وہیں ان کا بسیرا

آوارہ پرندوں کے ٹھکانے نہیں ہوتے


بے وجہ تعلق کوئی بے نام رفاقت

جینے کے لیے کم یہ بہانے نہیں ہوتے


کہنے کو تو اس شہر میں کچھ بھی نہیں بدلا

موسم مگر اب اتنے سہانے نہیں ہوتے


سینے میں کسک بن کے بسے رہتے ہیں برسوں

لمحے جو پلٹ کر کبھی آنے نہیں ہوتے


آشفتہ سری میں ہنر حرف و نوا کیا

لفظوں میں بیاں غم کے فسانے نہیں ہوتے


مخمورؔ یہ اب کیا ہے کہ بار غم دل سے

بوجھل مرے احساس کے شانے نہیں ہوتے


مخمور سعیدی


آفتاب عارف

 یوم پیدائش 31 دسمبر 1943


دھڑکنیں جاگ اٹھیں پہلی ملاقات کے ساتھ

عشق چڑھتا رہا پروان محاکات کے ساتھ


 اشک آنکھوں میں امنڈ آۓ ہنسی آتے ہی

 مدتوں بعد کھلی دھوپ تو برسات کے ساتھ

 

تجھ کو سوچوں تو مہک اٹھتی ہے تنہائی مری

کوئی نسبت تو یقیناً ہے تری ذات کے ساتھ


ہجر کا سوگ منانے کی کسے فرصت ہے

رات کی بات گئی ، یار گئی رات کے ساتھ


صبح ہونے کو ہے دھڑ کا سا لگا ہے دل کو

 رات گزری ہے پریشان خیالات کے ساتھ

 

 مدتیں ہوگئیں احساس کا دربند ہوۓ

 دل کا اب کوئی تعلق نہیں جذبات کے ساتھ

 

عمر بھر جان ہتھیلی پے رکھے جیتے رہے

گو کہ سمجھوتہ گوارہ نہ تھا حالات کے ساتھ


زندگی تیری خوشی کے لئے کیا کچھ نہ کیا

تو ملی بھی تو ملی درد کی سوغات کے ساتھ


 آفتاب عارف


شمشاد شاد

 جہالتوں کی غلامی سے بچ نکلنے کا

سنھبل بھی جاؤ یہی وقت ہے سنبھلنے کا


بلندیاں بھی کریں گی سلام جھک کے تمھیں

شعور تم میں اگر ہے زمیں پہ چلنے کا


جو ناامیدی کے بادل فلک پہ چھاۓ ہوں

تم انتظار کرو برف کے پگھلنے کا


نڈھال ہو کے لو سورج بھی محو خواب ہوا

اے چاند تارو یہی وقت ہے نکلنے کا


میں وہ چراغ ہوں جس میں ہے عزم کا ایندھن

نہیں ہے خوف مجھے آندھیوں کے چلنے کا


شفق کے سائے میں دن رات مل رہے ہیں گلے

بڑا حسین ہے منظر یہ شام ڈھلنے کا


ہر اک سوال کا معقول دو جواب کہ شاد

نہیں یہ وقت خموشی سے ہاتھ ملنے کا


شمشاد شاد


رضا علی عابدی

 یوم پیدائش 30 دسمبر 1935

نظم چاند نگر سے خط آیا ہے


چاند نگر سے خط آیا ہے 

دیکھنا اس میں کیا لکھا ہے 

اس میں لکھا ہے پیارے بچو 

میں آکاش پہ بیٹھا بیٹھا 

تم سب لوگوں کی دنیا کو 

خاموشی سے دیکھ رہا ہوں 

اس میں لکھا ہے پیاری دنیا 

پہلے کتنی بھولی بھالی 

نیلی برف کے گولے جیسی 

سندر سی اچھی لگتی تھی 

اس میں لکھا پیارے بچو 

اب یہ خون کی رنگت جیسی 

اب یہ آگ کے شعلوں جیسی

سرخ نظر آیا کرتی ہے 

اس میں لکھا ہے اس دنیا کو 

کیوں تاریکی نے گھیرا ہے 

نفرت کی گھنگھور گھٹا کا 

کیوں کالا بادل چھایا ہے

اس میں لکھا ہے اچھے بچے 

پیار کے روشن دیے جلاؤ 

مجھ سے اجلی روشنی لے لو 

اپنی دنیا کو چمکاؤ

چاہے میں پڑ جاؤں ماند 

فقط تمہارا پیارا چاند 

چاند نگر سے خط آیا ہے 

دیکھنا اس میں کیا لکھا ہے


رضا علی عابدی 


اقبال ادیب کاشی پوری

 یوم پیدائش 09 جنوری 1954


اجاڑ نے پہ جسے متفق زمانہ ہے

اسی چمن میں ہمارا بھی آشیانہ ہے


مرے خدا کسی مشکل میں ڈالدے مجھ کو

مجھے کچھ اپنے عزیزوں کو آزمانا ہے


ہے آج تک بھی حسین و جمیل ویسا ہی

یہ چاند کہنے کولاکھوں برس پرانا ہے


یہاں پہ کوئی کسی کی مدد نہیں کرتا

خودا پنی راہ کا پتھر مجھے ہٹانا ہے


وہ ہم سے کوئی سا لہجہ بھی اختیار کرے

 ہمیں تو صرف محبت سے پیش آنا ہے


کسی کی جان چلی جاۓ یا رہے اقبال

اسے تو صرف نشانے کو آزمانا ہے


اقبال ادیب کاشی پوری


الوک شریواستو


 یوم پیدائش 30 دسمبر 1971


اگر سفر میں مرے ساتھ میرا یار چلے 

طواف کرتا ہوا موسم بہار چلے 


لگا کے وقت کو ٹھوکر جو خاکسار چلے 

یقیں کے قافلے ہم راہ بے شمار چلے 


نوازنا ہے تو پھر اس طرح نواز مجھے 

کہ میرے بعد مرا ذکر بار بار چلے 


یہ جسم کیا ہے کوئی پیرہن ادھار کا ہے 

یہیں سنبھال کے پہنا یہیں اتار چلے 


یہ جگنوؤں سے بھرا آسماں جہاں تک ہے 

وہاں تلک تری نظروں کا اقتدار چلے 


یہی تو ایک تمنا ہے اس مسافر کی

جو تم نہیں تو سفر میں تمہارا پیار چلے


آلوک شریواستو

ساحر شیوی

 یوم پیدائش 29 دسمبر 1936


غم حیات کی پہنائیوں سے خوف زدہ

میں عمر بھر رہا ناکامیوں سے خوف زدہ


جہاں بھی دیکھو تعصب کی چل رہی ہے ہوا

ہمارا شہر ہے بلوائیوں سے خوف زدہ


کبھی کسی کا برا ہی نہیں کیا پھر بھی

زمانہ ہے مری خوش حالیوں سے خوف زدہ


کرم تمہارا کوئی بے غرض نہیں ہوتا

ہے دل تمہاری مہربانیوں سے خوف زدہ


الٰہی تجھ کو خبر ہے کہ یہ ترا ساحرؔ

ہے کتنا اپنی پریشانیوں سے خوف زدہ


ساحر شیوی


 #شعراء #اردو #اردوشاعری #پیدائش #اردوغزل #urdudeccan #poetrylovers #اردودکن #birthday #urdu #urduadab


منظر بھوپالی

 یوم پیدائش 29 دسمبر 1959


کوئی بچنے کا نہیں سب کا پتا جانتی ہے

کس طرف آگ لگانا ہے ہوا جانتی ہے


اجلے کپڑوں میں رہو یا کہ نقابیں ڈالو

تم کو ہر رنگ میں یہ خلق خدا جانتی ہے


روک پائے گی نہ زنجیر نہ دیوار کوئی

اپنی منزل کا پتہ آہ رسا جانتی ہے


ٹوٹ جاؤں گا بکھر جاؤں گا ہاروں گا نہیں

میری ہمت کو زمانے کی ہوا جانتی ہے


آپ سچ بول رہے ہیں تو پشیماں کیوں ہیں

یہ وہ دنیا ہے جو اچھوں کو برا جانتی ہے


آندھیاں زور دکھائیں بھی تو کیا ہوتا ہے

گل کھلانے کا ہنر باد صبا جانتی ہے


آنکھ والے نہیں پہچانتے اس کو منظرؔ

جتنے نزدیک سے پھولوں کی ادا جانتی ہے


منظر بھوپالی


اثر صہبائی

 یوم پیدائش 28 دسمبر 1904


لطف گناہ میں ملا اور نہ مزہ ثواب میں

عمر تمام کٹ گئی کاوش احتساب میں


تیرے شباب نے کیا مجھ کو جنوں سے آشنا

میرے جنوں نے بھر دیے رنگ تری شباب میں


آہ یہ دل کہ جاں گداز جوشش اضطراب ہے

ہائے وہ دور جب کبھی لطف تھا اضطراب میں


قلب تڑپ تڑپ اٹھا روح لرز لرز گئی

بجلیاں تھیں بھری ہوئی زمزمۂ رباب میں


چرخ بھی مے پرست ہے بزم زمیں بھی مست ہے

غرق بلند و پست ہے جلوۂ ماہتاب میں


میرے لیے عجیب ہیں تیری یہ مسکراہٹیں

جاگ رہا ہوں یا تجھے دیکھ رہا ہوں خواب میں


میرے سکوت میں نہاں ہے مرے دل کی داستاں

جھک گئی چشم فتنہ زا ڈوب گئی حجاب میں


لذت جام جم کبھی تلخی زہر غم کبھی

عشرت زیست ہے اثرؔ گردش انقلاب میں


اثر صہبائی


نیاز فتح پوری

 یوم پیدائش 28 دسمبر 1884


جب قفس میں مجھ کو یاد آشیاں آ جائے ہے

سامنے آنکھوں کے اک بجلی سی لہرا جائے ہے


دل مرا وہ خانۂ ویراں ہے جل بجھنے پہ بھی

راکھ سے جس کی دھواں تا دیر اٹھتا جائے ہے


تم تو ٹھکرا کر گزر جاؤ تمہیں ٹوکے گا کون

میں پڑا ہوں راہ میں تو کیا تمہارا جائے ہے


چشم تر ہے اس طرف اور اس طرف ابر بہار

دیکھنا ہے آج کس سے کتنا رویا جائے ہے


میں تو بس یہ جانتا ہوں اس کو ہونا ہے خراب

کیا خبر اس کی مجھے دل آئے ہے یا جائے ہے


میرا پندار خدائی اس گھڑی دیکھے کوئی

جب مجھے بندہ ترا کہہ کر پکارا جائے ہے


اب وہ کیا آئیں گے تم بھی آنکھ جھپکا لو نیازؔ

صبح کا تارہ بھی اب تو جھلملاتا جائے ہے


نیاز فتح پوری


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...