Urdu Deccan

Saturday, January 8, 2022

شاد عظیم آبادی

 یوم پیدائش 07 جنوری 1846


اب بھی اک عمر پہ جینے کا نہ انداز آیا

زندگی چھوڑ دے پیچھا مرا میں باز آیا 


مژدہ اے روح تجھے عشق سا دم ساز آیا

نکبت فقر گئی شاہ سرافراز آیا 


پاس اپنے جو نیا کوئی فسوں ساز آیا

ہو رہے اس کے ہمیں یاد ترا ناز آیا 


پیتے پیتے تری اک عمر کٹی اس پر بھی

پینے والے تجھے پینے کا نہ انداز آیا 


دل ہو یا روح و جگر کان کھڑے سب کے ہوئے

عشق آیا کہ کوئی مفسدہ پرداز آیا 


لے رہا ہے در مے خانہ پہ سن گن واعظ

رندو ہشیار کہ اک مفسدہ پرداز آیا 


دل مجبور پہ اس طرح سے پہنچی وہ نگاہ

جیسے عصفور پہ پر تول کے شہباز آیا 


کیوں ہے خاموش دلا کس سے یہ سرگوشی ہے

موت آئی کہ ترے واسطے ہم راز آیا 


دیکھ لو اشک تواتر کو نہ پوچھو مرا حال

چپ رہو چپ رہو اس بزم میں غماز آیا 


اس خرابے میں تو ہم دونوں ہیں یکساں ساقی

ہم کو پینے تجھے دینے کا نہ انداز آیا 


نالہ آتا نہیں کن رس ہے فقط اے بلبل

مرد سیاح ہوں سن کر تری آواز آیا 


دل جو گھبرائے قفس میں تو ذرا پر کھولوں

زور اتنا بھی نہ اے حسرت پرواز آیا 


دیکھیے نالۂ دل جا کے لگائے کس سے

جس کا کھٹکا تھا وہی مفسدہ پرداز آیا 


مدعی بستہ زباں کیوں نہ ہو سن کر مرے شعر

کیا چلے سحر کی جب صاحب اعجاز آیا 


رند پھیلائے ہیں چلو کو تکلف کیسا

ساقیا ڈھال بھی دے جام خدا ساز آیا 


نہ گیا پر نہ گیا شمع کا رونا کسی حال

گو کہ پروانۂ مرحوم سا دم ساز آیا 


ایک چپکی میں گلو تم نے نکالے سب کام

غمزہ آیا نہ کرشمہ نہ تمہیں ناز آیا 


دھیان رہ رہ کے ادھر کا مجھے دلواتا ہے

دم نہ آیا مرے تن میں کوئی دم ساز آیا 


کس طرح موت کو سمجھوں نہ حیات ابدی

آپ آئے کہ کوئی صاحب اعجاز آیا 


بے انیسؔ اب چمن نظم ہے ویراں اے شادؔ

ہائے ایسا نہ کوئی زمزمہ پرداز آیا 


شاد عظیم آبادی


صوفی بستوی

 یوم پیدائش کی مبارک باد

 07 جنوری 1956


جب خیالات کے طوفان ٹھہر جاتے ہیں

دل کے قرطاس پہ الفاظ بکھر جاتے ہیں


جن کو موجوں کے تلاطم کی خبر رہتی ہے

وہ مصائب کے بھنور سے بھی گزر جاتے ہیں


جن کے رہنے سے مرے شہر میں تھی اک ہلچل

کرب چھالوں کا لیے کیوں وہ کدھر جاتے ہیں


جانتے ہیں جو تخیّل کے سجانے کا ہنر

لفظ و معنی کے سمندر میں اتر جاتے ہیں


جب بھی کہتا ہوں غزل تیرے لیے اے جانم

میرے الفاظ ستاروں سے سنور جاتے ہیں


جب کبھی حوصلہ کرتے ہیں سخن گوئی کا

ہم تری بزم کے آداب سے ڈر جاتے ہیں


آج بھی ایسے گھرانے ہیں جہاں میں صاحب

عزت نفس پہ حرف آئے تو مر جاتے ہیں


روشنی علم کی ملتی ہے جہاں پر صوفی

پاسِ آداب لیے شام و سحر جاتے ہیں


صوفی بستوی


ایم سرور پنڈولوی

 یوم پیدائش: 5، جنوری 1964


ہر طرف اس کے لیے بننے لگی ہے اب ہوا

دیکھیے اس شمعِ روشن کو بجھا ئے کب ہوا


پیار ، ہمدردی ، وفاسب اچھے دن کےتھےرفیق

جب برے دن آ گئے تو ہو گئے ہیں سب ہوا


ان مشینو ں کی ہواؤں سے خدارا اب بچا

کھول دے سارے دریچے تازہ آئے تب ہوا 


کارخانہ زیست کا چلتا بھی اس کے دم سے ہے 

گھر کا گھر ویران کر دے قہر ڈھا ئے جب ہوا


آج کا انساں تو سورج چاند پر بھی جا بسے!

ہاں ، میسّر کاش کردے اُن پہ میرا رب ہوا


لگ گئی تھی آگ بستی میں کہیں پانی نہ تھا

اور ایسے میں بھیانک کر گئی کر تب ہوا 


اب کہاں ہے فکراس کو دل کے رشتوں کی ذرا !

کیا امارت کی اسے بھی لگ گئی مطلب ہوا؟


گا ئوں میں اب جاکےسرور دیکھیےکیسی ہےیہ

شہرکی تو ہوگئی ہے اب بڑی بے ڈھب ہوا


م سرور پنڈولوی


مبین مرزا

 یوم پیدائش:05 جنوری 1965


جلا دیا ہے کہ اس نے بجھا دیا ہے مجھے 

پہ دل کی آگ نے کندن بنا دیا ہے مجھے 


تری طلب کی عطا ہے کہ جس نے مثل چراغ 

ہوائے دہر میں جلنا سکھا دیا ہے مجھے

 

میں سب سے دور فقط اپنے آپ میں گم تھا 

کسی کے قرب نے سب سے ملا دیا ہے مجھے 


میں ایک ذرۂ ناچیز کائنات میں تھا 

یہ کائنات سا کس نے بنا دیا ہے مجھے 


سو اب میں عہدۂ دنیا سے کیا غرض رکھوں 

کسی نے منصب دل پر بٹھا دیا ہے مجھے 


تمام عمر جو رکھے گا زیست کو روشن 

تری نظر نے وہ منظر دکھا دیا ہے مجھے 


میں ایک دشت تھا خود اپنے ہی سراب میں گم 

بس ایک موج نے دریا بنا دیا ہے مجھے


مبین مرزا


شہناز رحمت

 یوم پیدائش 06 جنوری


اترا ہے جب سے آنکھ سے اس کم نظر کا رنگ

چڑھتا نہیں ہے مجھ پہ کسی بھی بشر کا رنگ


کیسے بتاؤں تنہا گزرتے ہیں کیسے دن

کتنا اداس ہے میری شام و سَحَر کا رنگ


تھے سنگ دل ہی لوگ مرے ساتھ عمر بھر

گھلتا رہا حیات میں خونِ جگر کا رنگ


گمنام راستوں پہ میں چلتی رہی سدا

چادر پہ میری دیکھیے گر دِ سفر کا رنگ


میری سبھی خطاؤں کی بخشش ہو اے خدا

اے کاش! دیکھ پاؤں دعا کے اثر کا رنگ


تسلیم یہ زمانہ کرے نہ کرے مجھے

میرا سخن دکھائےگا میرے ہنر کا رنگ


شہناز زندگی مجھے بے نور کر گئی

جب سے بدل گیا ہے کسی کی نظر کا رنگ


شہناز رحمت


یوسف روش

 یوم پیدائش:06 جنوری 1943ء


گل میں نہیں ہے خوشبو غزل کہہ کے کیا کروں

غم ہے کوئی نہ آنسو غزل کہہ کے کیا کروں


دل پر نہیں ہے قابو غزل کہہ کے کیا کروں

آباد کب ہے پہلو غزل کہہ کے کیا کروں


بھرتا رہا اڑان سخن کی فضاؤں میں

شل ہو گئے ہیں بازو غزل کہہ کے کیا کروں


ویران ہو گئی ہیں سبھی محفلیں یہاں

اب رقص ہے نہ گھنگرو غزل کہہ کے کیا کروں


راتیں اندھیری چاند بھی نکلا نہیں روشؔ

گم ہوگئے ہیں جگنو غزل کہہ کے کیا کروں


یوسف روشؔ


ندیم اختر ندیم

 یوم پیدائش 01 جنوری 1970


ہر وار اُن کا سہتا رہوں اور چپ رہوں

وہ چاہتے ہیں اف نہ کروں اور چپ رہوں


ظالم یہ چاہتے ہیں کہ سی لوں میں اپنے ہونٹ

زخموں سے چور چور رہوں اور چپ رہوں


مکر و فریب قتل غبن ظلم بے حسی

ان سب کے درمیان رہوں اور چپ رہوں


سوچا ہے بس دکھاؤں زمانے کو آئینہ

اپنے مشاہدات لکھوں اور چپ رہوں


اک وہ کہ لمحہ لمحہ مجھے دے رہے ہیں زہر

اک میں کہ گھونٹ گھونٹ پیوں اور چپ رہوں


کھل ہی گیا بھرم جو تری پارسائی کا

کیسے اب آنکھ بند رکھوں اور چپ رہوں


ندیم اختر ندیم


مسرور انور

 یوم پیدائش 05 جنوری 1941


ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی

کس نے توڑا دل ہمارا یہ کہانی پھر سہی


دل کے لٹنے کا سبب پوچھو نہ سب کے سامنے

نام آئے گا تمہارا یہ کہانی پھر سہی


نفرتوں کے تیر کھا کر دوستوں کے شہر میں

ہم نے کس کس کو پکارا یہ کہانی پھر سہی


کیا بتائیں پیار کی بازی وفا کی راہ میں

کون جیتا کون ہارا یہ کہانی پھر سہی


مسرور انور


فرحت قادری

 یوم پیدائش 06 جنوری 1928


جتنے لوگ نظر آتے ہیں سب کے سب بیگانے ہیں

اور وہی ہیں دور نظر سے جو جانے پہچانے ہیں


زنجیروں کا بوجھ لئے ہیں بے دیوار کے زنداں میں

پھر بھی کچھ آواز نہیں ہے کیسے یہ دیوانے ہیں


بچ بچ کر چلتے ہیں ہر دم شیشے کی دیواروں سے

کون کہے دیوانہ ان کو یہ تو سب فرزانے ہیں


خود ہی بجھا دیتے ہیں شمعیں روشنیوں سے گھبرا کر

اس محفل میں اے لوگو کچھ ایسے بھی پروانے ہیں


صیادوں نے گل چینوں نے گلشن کو تاراج کیا

لیکن ہم دیوانوں سے آباد ابھی ویرانے ہیں


ان کا غم ہے اپنا غم ہے اپنے پرائے سب کا غم

شہر وفا میں پھر بھی فرحتؔ اور کئی غم خانے ہیں


فرحت قادری


مرزا شوقؔ لکھنوی

 یوم پیدائش 06 جنوری 1773


کہنے میں نہیں ہیں وہ ہمارے کئی دن سے

پھرتے ہیں انہیں غیر ابھارے کئی دن سے


جلوے نہیں دیکھے جو تمہارے کئی دن سے

اندھیرے ہیں نزدیک ہمارے کئی دن سے


بے صبح نکلتا نہیں وو رات کو گھر سے

خورشید کے انداز ہیں سارے کئی دن سے


ہم جان گئے آنکھ ملاؤ نہ ملاؤ

بگڑے ہوئے تیور ہیں تمہارے کئی دن سے


کس چاک گریباں کا کیا آپ نے ماتم

کپڑے بھی نہیں تم نے اتارے کئی دن سے


دیوانہ ہے سودائی ہے فرماتے ہیں اکثر

ان ناموں سے جاتے ہیں پکارے کئی دن سے


دل پھنس گیا ہے آپ کی زلفوں میں ہمارا

ہیں بندۂ بے دام تمہارے کئی دن سے


منہ گال پے رکھ دیتے ہیں سوتے میں چمٹ کر

کچھ کچھ تو حیا کم ہوئی بارے کئی دن سے


مہندی بھی ہے مسی بھی ہے لاکھا بھی ہے لب پر

کچھ رنگ ہیں بے رنگ تمہارے کئی دن سے


ڈر سے ترے کاکل کے نہیں چلتے ہیں رستہ

دم بند ہیں اس سانپ کے مارے کئی دن سے


آخر مری آہوں نے اثر اپنا دکھایا

گھبرائے ہوئے پھرتے ہو پیارے کئی دن سے


کس کشتۂ کاکل کا رکھا سوگ مری جاں

گیسو نہیں کیوں تم نے سنوارے کئی دن سے


پامال کرو گے کسی وارفتہ کو اپنے

اٹکھیلیاں ہیں چال میں پیارے کئی دن سے


اک شب مرے گھر آن کے مہمان رہے تھے

آئے نہیں اس شرم کے مارے کئی دن سے


پھر شوقؔ سے کیا اس بت عیار سے بگڑی

ہوتے نہیں باہم جو اشارے کئی دن سے


مرزا شوقؔ لکھنوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...