Urdu Deccan

Wednesday, January 12, 2022

سید عادل عزیر

 یوم پیدائش 08 جنوری


وفا کا نام لے کر ہم ابھی تم کو بلا لیں گے

یہ جاں بھی وار دیں گے اور پلکوں پر بٹھا لیں گے 


سکوں دل میں میسر ہو، نہیں لگتا کسی کا ڈر 

امیدوں کے دیے ہم ہر اندھیرے میں جلا لیں گے


چلو جب دل تمہارا ہو تم اپنے غم سنا دینا

"کبھی ملنا، تمہارے مسئلے کا حل نکالیں گے"


وہ مجھ سے گفتگو اکثر بڑی الفت سے کرتا ہے

یہ سوچا ہے اسے دل میں محبت سے سجا لیں گے


یگانہ شخصیت اس کی ہے میرا دلربا ایسا

نظر اس کو نہ لگ جائے اسے دل میں چھپا لیں گے


پڑے ہیں شام سے ان کے تصور میں مگر عادل

یہی سوچا ہے اب جا کر انہیں اپنا بنا لیں گے


 سید عادل عزیز


Saturday, January 8, 2022

شاہ رخ عبیر

 یوم پیدائش 08 جنوری


دل کی ویران سی گلیوں میں ستارے نکلے

تجھ میں جھانکا تو کئی رنگ ہمارے نکلے


تجھ کو سوچوں تو یہ دنیا بھی حسیں لگتی ہے

تیرے پہلو سے بہاروں کے شمارے نکلے


صبح کی پہلی کرن ہو یا ہوا کا جھونکا

زلف چہرے سے ہٹائی تو ستارے نکلے


سرمئی شام کی دہلیز پہ آ بیٹھے ہیں

وہ نظارے جو تری دید کے مارے نکلے


موج در موج سمندر میں تلاطم اٹھا

پھر سفینے میں کئی لوگ ہمارے نکلے


پھر جوانی نے کئی خواب دکھائے مجھ کو

پھر مری روح سے الفت کے شرارے نکلے


شاہ رخ عبیر


عنبرین خان

 یوم پیدائش 07 جنوری


استقامت کا یہ صلہ دے دے

جانے والے کوئی دعا دے دے


پھر دکھا راستہ یقیں کا مجھے

اور نیا ایک واہمہ دے دے


خود سے ملنا ضروری ہو گیا ہے

مجھ کو تھوڑا سا راستہ دے دے


غم زدہ کر کہ راحتوں سے ملا

کیفیت کی بس انتہا دے دے


دلربائی نہیں اگر ممکن

خواب تو کوٸی دلربا دے دے


جس کے دھاگے الجھ گئے مجھ سے

سوچ کا دوسرا سرا دے دے


وقت سے عنبرین کیا مانگیں

اور اٹھا کر نجانے کیا دے دے


عنبرین خان


سیماب ظفر

 یوم پیدائش 07 جنوری

 

 کھوٹ کی مالا جھوٹ جٹائیں اپنے اپنے دھیان 

اپنا اپنا مندر منبر اپنے رب بھگوان 


گھر جانے کی کوئی دوجی راہ نکالی جائے 

آن کے رہ میں بیٹھ گیا ہے اک جوگی انجان 


زخمی سورج زہر میں بھیگی لو پیاسے پنچھی 

ٹوٹی بکھری ہجر گلی میں کچھ شاخیں بے جان 


اپنے دکھ کا گھونٹ گلا اور یار کے آنسو اوڑھ 

ان آنکھوں کے درد سے بڑھ کر کیا ہوگا نقصان 


خاموشی کی کٹھنائی میں چپ کی بپتا میں 

اس آواز کا شہد گھلے تو مل جائے نروان 


اونچے نیچے دائیں بائیں مٹی کے ٹیلے 

آشاؤں کے سرد بدن بھیتر کا قبرستان 


آیت آیت نور کا پیکر حرف حرف مہکار 

دو سیمابؔ صفت ہونٹوں پر تھی سورہ رحمان


سیماب ظفر


انعمتا علی

 یوم پیدائش 06 جنوری

 

 گھر میں دراڑ ڈالتے رشتوں کی خیر ہو 

اس آستیں میں آ بسے سانپوں کی خیر ہو 


وہ ٹوٹنے لگیں تو سہولت مجھے بھی ہے 

شب میں قرار بخشتے تاروں کی خیر ہو 


یہ لوگ ہر قدم پہ گرانے لگے مجھے 

لیکن سنبھالتی تری بانہوں کی خیر ہو 


تو جو نہیں تو پھول تو ہیں آس پاس بھی 

اس حبس میں کھلے ہوئے غنچوں کی خیر ہو 


رک سا گیا ندی کا بہاؤ برس سے تھا 

اس میں دھلے ہوئے ترے پیروں کی خیر ہو 


جس سمت ہوں رواں دواں منزل بھی ہے وہیں 

رستوں میں جا بہ جا پڑے کانٹوں کی خیر ہو 


میں کیا کہوں کہ کتنے زمانے گزر گئے 

حصے میں میرے آئیں نہ خوشیوں کی خیر ہو 


موج فنا نے دشت میں لا کر جھٹک دیا 

حیرت سے دیکھتی تری آنکھوں کی خیر ہو 


یہ اضطراب عشق سے تحفہ ملا مجھے 

منہ کو چڑا رہے ترے لفظوں کی خیر ہو 


باغوں میں سیر کرتے ہوئے جگنوؤں میں تم 

تم سے ضیا پکڑتے چراغوں کی خیر ہو 


ان کے سبب سے ہی ہوئی میں در سے بے اماں 

انعمؔ تمہارے حال پہ ہنستوں کی خیر ہو


انعمتا علی


مسرت جبیں زیبا

 یوم پیدائش: 07 جنوری 1951


زخم بھر جائیں گے لیکن اک نشاں رہ جائے گا 

کچھ بھی ہو پہلے کی طرح دل کہاں رہ جائے گا 


تم چلے جاؤ گے لیکن میرے سینے میں سدا 

راکھ میں لپٹا ہوا آتش فشاں رہ جائے گا 


آنکھ سے میگھا برس کر آپ ہی تھم جائے گی 

گھٹ کے سینے میں کچھ آہوں کا دھواں رہ جائے گا


آبلہ پائی کا حاصل نا مرادی گر رہا

آرزوؤں کا بھٹک کر کارواں رہ جائے گا

 

بجلیوں کی نذر ہو جائے گا دل کا آشیاں 

سوچتا ہوں کیا وہ پھر بے خانماں رہ جائے گا


لوٹ کر گل کا تبسم گر ہوئی رخصت خزاں 

زیباؔ عبرت کے لئے پھر گلستاں رہ جائے گا 


مسرت جبیں زیبا


عباس دانا

 پیدائش:07جنوری 1942


اپنے ہی خون سے اس طرح عداوت مت کر 

زندہ رہنا ہے تو سانسوں سے بغاوت مت کر


سیکھ لے پہلے اجالوں کی حفاظت کرنا 

شمع بجھ جائے تو آندھی سے شکایت مت کر

 

سر کی بازارِ سیاست میں نہیں ہے قیمت 

سر پہ جب تاج نہیں ہے تو حکومت مت کر


خواب ہو جام ہو تارہ ہو کہ محبوب کا دل 

ٹوٹنے والی کسی شے سے محبت مت کر

 

دیکھ پھر دست ضرورت میں نہ بک جائے ضمیر 

زر کے بدلے میں اصولوں کی تجارت مت کر

 

پرسش حال سے ہو جائیں گے پھر زخم ہرے 

اس سے بہتر ہے یہی میری عیادت مت کر

 

سر جھکانے کو ہی سجدہ نہیں کہتے داناؔ 

جس میں دل بھی نہ جھکے ایسی عبادت مت کر 


عباس دانا


اقبال سہیل

 یوم پیدائش 07 جنوری 1884


انجام وفا بھی دیکھ لیا اب کس لیے سر خم ہوتا ہے

نازک ہے مزاج حسن بہت سجدے سے بھی برہم ہوتا ہے


مل جل کے بہ رنگ شیر و شکر دونوں کے نکھرتے ہیں جوہر

دریاؤں کے سنگم سے بڑھ کر تہذیب کا سنگم ہوتا ہے


کچھ ما و شما میں فرق نہیں کچھ شاہ و گدا میں بھید نہیں

ہم بادہ کشوں کی محفل میں ہر جام بکف جم ہوتا ہے


دیوانوں کے جبہ و دامن کا اڑتا ہے فضا میں جو ٹکڑا

مستقبل ملت کے حق میں اقبال کا پرچم ہوتا ہے


منصور جو ہوتا اہل نظر تو دعویٔ باطل کیوں کرتا

اس کی تو زباں کھلتی ہی نہیں جو راز کا محرم ہوتا ہے


تا چند سہیلؔ افسردۂ غم کیا یاد نہیں تاریخ حرم

ایماں کے جہاں پڑتے ہیں قدم پیدا وہیں زمزم ہوتا ہے


اقبال سہیل


سجاد لاکھا

 یوم پیدائش 07 جنوری 1959


حقیقت تک رسائی مانگتے ہو 

بتوں سے کبریائی مانگتے ہو


یہاں تو رہبری اک داشتہ ہے

تم اس سے پارسائی مانگتے ہو


گراتے کیوں نہیں دیوار زنداں ؟

اسیرو ! کیوں رہائی مانگتے ہو


زمانے بھر کا وہ اک بے مروت

تم اس سے دل ربائی مانگتے ہو


ستم یہ ہے تم اپنی اجرتیں بھی

اسے دے کر دہائی ، مانگتے ہو


سجاد لاکھا


زبیر الحسن غافل

 یوم پیدائش 07 جنوری 1944


بے نام آدمی جو سر شام مرگیا

سورج کے شہر میں وہ اندھیرا ہی کر گیا


انسان جب حدود مکاں سے گزر گیا

حیران ہو کے وقت جہاں تھا ٹھہر گیا


کچلا ہے اس کو وقت کے پہیوں نے اس طرح

 آئینہ دیکھتے ہی اچانک وہ ڈر گیا


اپنی انا کے ریزے ہی لایا سمیٹ کر

پتھر کے دیش میں جو کبھی شیشہ گر گیا


کل تک جو چل رہا تھا لیے ہاتھ میں چراغ

جانے کہاں وہ آج مرا ہمسفر گیا


کل تک زمیں پہ تھا جو خداوند کی طرح

 آج اس کو دیکھئے کہ خلا میں بکھر گیا


غافل کو ڈھونڈھئے بھی تو پائیں گے اب کہاں 

دیوانہ آدمی تھا نہ جانے کدھر گیا


زبیر الحسن غافل


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...