Urdu Deccan

Tuesday, January 18, 2022

ایم نصر اللہ نصر

 یوم پیدائش 01 جنو ری 1957

   

آتشِ غم سے گزر گاہِ نفس جلتی ہے 

قہرِ ظالم سے بھی دیوار قفس جلتی ہے 


ایک سی آگ لگی رہتی ہے دل کے اندر 

خود کی تکمیل میں انساں کی ہوس جلتی ہے 


زندگی سب کی گزر جاتی ہے روتے ہنستے 

زیست کی شمع تو ہر حال میں بس جلتی ہے 


آتشِ عشق بھی کیا چیز ہے اے اہل خرد 

جب یہ لگتی ہے تو پھر برسوں برس جلتی ہے


یوں چراغاں نہیں ہوتا ہے درِ ہستی پر 

روشنی ہوتی ہے جب روحِ مگس جلتی ہے 


دل کی دہلیز پہ اے نصرؔ یہ دستک کیسی 

میرے کانوں میں بھی کیا بانگِ جرس جلتی ہے


ایم نصر اللہ نصر


عبد الحلیم شرر


 یوم پیدائش 14 جنوری 1860


معجزہ وہ جو مسیحا کا دکھاتے جاتے

کہہ کے قم قبر سے مردے کو جلاتے جاتے


مرتے دم باغ مدینہ کا نظارا کرتے

دیکھ لیتے چمن خلد کو جاتے جاتے


دیکھ کر نور تجلی کو ترے دیوانے

دھجیاں دامن محشر کی اڑاتے جاتے


بن کے پروانہ مری روح نکلتی تن سے

لو جو اس شمع تجلی سے لگاتے جاتے


اک نظر دیکھتے ہی روئے محمد کی ضیا

غش پہ غش حضرت یوسف کو ہیں آتے جاتے


ہے وہ صحرائے جنوں آپ کے دیوانوں کا

حضرت خضر جہاں ٹھوکریں کھاتے جاتے


ایسا محبوب ہوا کون کہ امت کے لئے

روٹھتے آپ تو اللہ مناتے جاتے


طور پہ حضرت موسیٰ نہ کبھی جل بجھتے

آپ آنکھوں میں جو سرمہ نہ لگاتے جاتے


صف محشر میں الٰہی بہ حضور سرور

نعت پڑھ پڑھ کے یہ شہرت کی مناتے جاتے


عبد الحلیم شرر

رومانہ رومی

 یوم پیدائش 14 جنوری 1971


خزاں نے ستایا نہ خاروں نے لوٹا

گلوں نے دئے دکھ بہاروں نے لوٹا


فلاحی ریاست کا نقشہ دکھا کر

غریبوں کو سرمایہ کاروں نے لوٹا


جو اسلام کے نام پر چل رہے تھے

مزا ان سیاسی اداروں نے لوٹا


کڑے وقت پر کام آنا تھا جن کو

وطن کو انہیں جاں نثاروں نے لوٹا


تجھے قاضئ شہر کیسے بتاؤں

مرا گھر مرے پہرہ داروں نے لوٹا


بظاہر تھے رہبر پس پردہ رہزن

قیادت کو امید واروں نے لوٹا


جو امداد طوفاں کے ماروں کو آئی

اسے خوب تقسیم کاروں نے لوٹا


کبھی سوچتی ہوں کہ قومی خزانہ

وضاحت طلب گوشواروں نے لوٹا


حقیقت تو یہ ہے کہ میرے وطن کو

وطن دوست تخریب کاروں نے لوٹا


تلاطم میں پہلے ہی جو لٹ چکے تھے

اے رومیؔ انہیں پھر کناروں نے لوٹا


رومانہ رومی


نثر دیناج پوری

 پیدائش:01جنوری 1987


نہ تو گوروں پر اورنہ کا لوں پر

کچھ کرم کیجے خستہ حالوں پر


تجھکو مانوں گا وقت کا حاکم

پہرے بیٹھا مرے خیالوں پر


مسکراؤں فقط جواباً میں

الٹے سیدھے ترے سوالوں پر


ساتھ اندھیرے میں چھوڑجاتے ہیں

کیا بھروسہ کریں اجالوں پر


کوئ چھوٹا بڑا نہیں ہوتا

منحصر ہے یہ سب خیالوں پر


میری قسمت میں یہ لکھا ہے نثاؔر

نام میرا ہے کن نوالوں پر


نثاردیناج پوری


مشتاق افضل

 یوم پیدائش 01 جنوری 1971


تجھے اے دل بری لت ہے نہیں تو

تو خوش فہمی کی لعنت ہے، نہیں تو


اترتا ہی نہیں اب شعر دل میں

یہ کیا ہے بھائی جدت ہے، نہیں تو


تو پھر کیوں جانشینی چاہتا ہے

یہ شہرت ما بدولت ہے ، نہیں تو


شریعت سے بغاوت کرکے تجھ کو

ذرا پانے کی چاہت ہے، نہیں تو


بغیر ان کے بہلتا ہی نہیں دل

تو کیا ان سے محبت ہے ،نہیں تو


خرابے میں نہ کام آئی رفاقت

یہ دنیا بے مروت ہے، نہیں تو


تو پھر یہ فاصلے کیوں درمیاں ہیں

تجھے ان سے شکایت ہے ، نہیں تو


تجھے معلوم ہے گوشہ نشینی

اذیت ناک صورت ہے ، نہیں تو


ہم آہنگی کہاں دنیا سے افضل

اکیلے پن کی ذلت ہے، نہیں تو


مشتاق افضل


ظہیر ناصری

 کیا ستم ھے کہ کوئی مونسِ اجداد نہیں

وہ عمارات ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں


صرف چلنا ہی مقدر ھے چلو، چلتے رہو

تا بہ امکان کوئی قریۂ آباد نہیں


دور اک وہ بھی رہا بستۂ پندار تھے ہم

دور اک یہ بھی ھےخوداپنے سے دلشاد نہیں


تیرہ و تار تھے رستے تو خدا یاد آیا

ہم اجالوں میں جب آئے تو خدا یاد نہیں


یاد اتنا تو ھے اک بار ملا ہوں اس سے

کب کہاں کونسے نکڑ پہ ملا یاد نہیں


رہنمائی کا بہت شوق ھے ہم کو لیکن

خود ہمیں اپنی ہی منزل کا پتہ یاد نہیں


ایسی منزل پہ چلے آئے ہیں صد شکر ظہیر

کوئی شکوہ ھی لبوں پر، کوئی فریاد نہیں


ظہیر ناصری


شاہدہ سردار

 یوم پیدائش:01 جنوری 1971


نہیں کہ تم کو سہارے فریب دے کے گئے

ہمیں بھی دوست ہمارے فریب دے کے گئے


پھر اس کے بعد سرابوں کا ایک صحرا تھا

چمکتی رات کے تارے فریب دے کے گئے


جو وقت ہجر میں کاٹا وہ معتبر ٹھہرا

جولمحے ساتھ گزارے فریب دے کے گئے


کوئی ستارا نہ ابھرا وفا کے ساحل پر

سمندروں کے نظارے فریب دے کے گئے


وہیں پہ راکھ تھے پھر خواب میری پلکوں کے

کبھی جو اپنے سہارے فریب دے کے گئے


نگہہ نے شوق سے دیکھا صبا کی آمد کو

ہوا کے سارے اشارے فریب دے کے گئے


پڑی نظر جو کتابوں میں خشک پھولوں پر

وہیں پہ ضبط ہمارے فریب دے کے گئے


شاہدہ سردار


مقبول احمد مقبول

 یوم پیدائش:01 جنوری 1965

   

گزریں پھر ایک حادثۂ خونچکاں سے ہم 

اے دوست ایسا حوصلہ لائیں کہاں سے ہم

 

ہر دن ہیں مشکلات و مسائل نئے نئے 

شاید گزر رہے ہیں کسی امتحاں سے ہم

 

پیدا ہو کیسے جذبۂ تسخیر کائنات 

آزاد ہی نہ ہو سکے وہم و گماں سے ہم

 

اپنے لئے جو باعث صد افتخار تھی 

اب اس گھڑی کو ڈھونڈ کے لائیں کہاں سے ہم

 

رہزن کا خوف چھوڑیئے پہلے یہ سوچیے 

خود کو بچا کے کیسے رکھیں پاسباں سے ہم

 

کیسے الگ کریں گی زمانے کی گردشیں 

ہندوستاں ہے ہم سے تو ہندوستاں سے ہم 


مقبولؔ کیا کریں کہ طبیعت ہے حق پسند 

محظوظ ہونے والے نہیں داستاں سے ہم


مقبول احمد مقبول


مزمل حسین ساقی

 یوم پیدائش 13 جنوری


روح سے ٹوٹا رابطہ دل کا

جانتے ہو یہ مسئلہ دل کا


تری باتیں ہیں رات کا کھانا

تری صورت ہے ناشتہ دل کا


پڑھ کے ان نیلگوں سی آنکھوں کو

کھینچ لیتا ہوں زائچہ دل کا


 پہلے آفت ہے زندہ رہنا بھی

  اور اوپر سے سانحہ دل کا

  

 رہنما بن گیا ہے رہزن اب

   ورنہ لٹتا نہ قافلہ دل کا

   

گھومتا ہے ازل سے چاک کے ہی

ایک نقطے پہ دائرہ دل کا


زندگی تُو بتا کہ کس منہ سے؟

جان لے گا یہ حادثہ دل کا


 مزمل حسین ساقیٓ


Wednesday, January 12, 2022

عاصی کرنالی

 یوم پیدائش 02 جنوری 1927


رموز مصلحت کو ذہن پر طاری نہیں کرتا

ضمیر آدمیت سے میں غداری نہیں کرتا


قلم شاخ صداقت ہے زباں برگ امانت ہے

جو دل میں ہے وہ کہتا ہوں اداکاری نہیں کرتا


میں آخر آدمی ہوں کوئی لغزش ہو ہی جاتی ہے

مگر اک وصف ہے مجھ میں دل آزاری نہیں کرتا


میں دامان نظر میں کس لیے سارا چمن بھر لوں

مرا ذوق تماشا بار برداری نہیں کرتا


مکافات عمل خود راستہ تجویز کرتی ہے

خدا قوموں پہ اپنا فیصلہ جاری نہیں کرتا


مرے بچے تجھے اتنا توکل راس آ جائے

کہ سر پر امتحاں ہے اور تیاری نہیں کرتا


میں آسیؔ حسن کی آئینہ داری خوب کرتا ہوں

مگر میں حسن کی آئینہ برداری نہیں کرتا


عاصی کرنالی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...