یوم پیدائش 15 جنوری 1966
مینار جو بچا تھا زمیں بوس ہو گیا
اجداد کے سروں کی علامت بھی گر گئی
سہیل ارشد
یوم پیدائش 15 جنوری 1966
مینار جو بچا تھا زمیں بوس ہو گیا
اجداد کے سروں کی علامت بھی گر گئی
سہیل ارشد
یوم پیدائش 15 جنوری 1975
تری رہبری میں اکثر لُٹے کارواں دلوں کے
ارے عشق باز آ جا نہ لے امتحاں دلوں کے
کوئی پوچھتا تو کہتے کہ ہمارا روگ کیا ہے
کہاں کھو گۓ بتاٶ تھے جو رازداں دلوں کے
در و بام پر اُگی ہے کوئی سبز سبز سی شے
نظر آ رہے ہیں مجھ کو یہاں کچھ نشاں دلوں کے
سوئے یار پاٶں اُٹھیں تو ہزار صدمے جاگیں
نکل آٸیں ہر طرف سے کٸ مہرباں دلوں کے
جنھیں زندگی کے بارے ذرا سوجھ بوجھ ٹھہری
وہی رہروانِ دل ہیں وہی قدر داں دلوں کے
ہو مباہلہ کی صورت کہ مناظرہ کا منظر
سدا سرخ رو ہوے ہیں تھے جو ترجماں دلوں کے
ہمیں بس جنوں کی دنیا ہی بھلی لگی ہے آصف
سو ہیں درد کے پجاری تو قصیدہ خواں دلوں کے
آصف جاوید
یوم پیدائش 15 جنوری 1935
بھیجتا ہوں آپ کو اپنی پسندیدہ غزل
تازہ تازہ ناشنیدہ اور نادیدہ غزل
داستان حسن بھی ہے یہ سراپا حسن بھی
سنگ مرمر سے مثال بت تراشیدہ غزل
میرؔ غالبؔ ذوقؔ و مومنؔ پر بھی تھی جاں سے نثار
تھی بہادر شاہ کی ہر چند گرویدہ غزل
شہرۂ آفاق ہے اس کا جمال فکر و فن
ساری اصناف سخن میں ہے جہاں دیدہ غزل
پارہ پارہ ہو نہ جائے ماہ پارہ دیکھیے
ہے ہوس ناکوں کے ہاتھوں آج رنجیدہ غزل
شعر کی آمد نہیں ہوتی ہے کیا ناشادؔ اب
شاعران عصر تو کہتے ہیں پیچیدہ غزل
ناشاد اورنگ آبادی
یوم پیدائش 15 جنوری 1953
دوستی میں اس کے شامل بغض کا عنصر بھی تھا
پھول تھے ہاتھوں میں زیرِ آستیں خنجر بھی تھا
آج مجبوری نے مجھ کو رکھ دیا ہے کاٹ کر
ورنہ ان خود دار شانوں پر مرے اک سر بھی تھا
خوگرِ صحرا نوردی ہوگیا ہوں اس قدر
بھول بیٹھا ہوں کسی بستی میں میرا گھر بھی تھا
کون بڑھتا پھر بھلا میری مدد کے واسطے
میرا دشمن صاحبِ زر اور طاقت ور بھی تھا
پھونک ڈالے جس نے کتنے ہی غریبوں کے چراغ
آگ کے شعلوں کی زد پر آج اس کا گھر بھی تھا
حوصلہ افزائی میں میری رہا جو پیش پیش
راہ کا میری وہی سب سے بڑا پتھر بھی تھا
میں ہی تنہا تو نہیں تھا عشق میں رسوا صباؔ
ایک چھوٹا ہی سہی الزام اس کے سربھی تھا
عتیق احمد خان صبا
پیدائش:15 جنوری 1958
ذرا سی روشنی کے واسطے اے مہرباں میں نے
جلا ڈالا ہے دیکھو خود ہی اپنا آشیاں میں نے
ستم دیکھو اسی نے زہر گھولا زندگانی میں
جسے سمجھا کیا اب تک رفیق و راز داں میں نے
نہ پوچھو کتنے ارمانوں کی لاشیں دفن کیں میں نے
سجائی ہیں تمناؤں کی کتنی ارتھیاں میں نے
قدم راہ محبت میں سنبھل کر دوستو رکھنا
لٹایا ہے اسی رستے میں اپنا کارواں میں نے
شباب آیا ہے اشرفؔ اب شبستان تصور پر
لہو دے دے کے سینچا تھا خیال گلستاں میں نے
اشرف مولانگری
یوم پیدائش 15 جنوری 1927
سنی ہے روشنی کے قتل کی جب سے خبر میں نے
چراغوں کی طرف دیکھا نہیں ہے لوٹ کر میں نے
فراز دار سے اپنوں کے چہرے خود ہی پہچانے
فقیہ شہر کو جانا نہیں ہے معتبر میں نے
بھلا سورج کی طرف کون دیکھے کس میں ہمت ہے
ترے چہرے پہ ڈالی ہی نہیں اب تک نظر میں نے
یقیناً آندھیوں نے آ لیا کونجوں کی ڈاروں کو
کہ خوں آلودہ دیکھے ہیں فضا میں بال و پر میں نے
تمہارے بعد میں نے پھر کسی کو بھی نہیں دیکھا
نہیں ہونے دیا آلودہ دامان نظر میں نے
ہزاروں آرزوئیں رہ گئیں گرد سفر ہو کر
سجا رکھی ہے پلکوں پہ وہی گرد سفر میں نے
دم رخصت مری پلکوں پہ دو قطرے تھے اشکوں کے
کیا ہے زندگانی کے سفر کو مختصر میں نے
میں اپنے گھر میں خود اپنوں سے بازی ہار بیٹھا ہوں
ابھی سیکھا نہیں اپنوں میں رہنے کا ہنر میں نے
سرور انبالویؔ اپنے ہی دل میں اس کو پایا ہے
جسے اک عمر تک آواز دی ہے در بدر میں نے
سرور انبالوی
یوم پیدائش 14 جنوری 1927
قضا سے قرض کس مشکل سے لی عمر بقا ہم نے
متاع زندگی دے کر کیا یہ قرض ادا ہم نے
ہمیں کس خواب سے للچائے گی یہ پر فسوں دنیا
کھرچ ڈالا ہے لوح دل سے حرف مدعا ہم نے
کریں لب کو نہ آلودہ کبھی حرف شکایت سے
شعار اپنا بنایا شیوۂ صبر و رضا ہم نے
ہم اس کے ہیں سراپا ادبدا کر اس سے کیا مانگیں
اٹھایا ہے کبھی اے مدعی دست دعا ہم نے
شہیدان وفا کی منقبت لکھتے رہے لیکن
نہ کی عرضی خداؤں کی کبھی حمد و ثنا ہم نے
پرکھنے والے پرکھیں گے اسی معیار پر ہم کو
جہاں سے کیا لیا ہم نے جہاں کو کیا دیا ہم نے
وہی انساں جہاں جاؤ وہی حرماں جدھر دیکھو
بپائے خفتہ کی سیاحیٔ ملک خدا ہم نے
لٹا ذوق سفر بھی کارواں کا ایسے لگتا ہے
سنا ہر تازہ پیش آہنگ کا شور درا ہم نے
ستم آراؤ سن لو آخری برداشت کی حد تک
سہا ہر ناروا ہم نے سنا ہر ناسزا ہم نے
یہ دزدیدہ نگاہیں ہیں کہ دل لینے کی راہیں ہیں
ہمیشہ دیدہ و دانستہ کھائی ہے خطا ہم نے
کشاکش ہم سے پوچھے کوئی نا آسودہ خواہش کی
حسینوں سے بہت باندھے ہیں پیمان وفا ہم نے
کیا تکمیل نقش نا تمام شوق کی خاطر
جو تم سے ہو سکا تم نے جو ہم سے ہو سکا ہم نے
عراقیؔ کی طرح خالدؔ کو کیوں بدنام کرتے ہیں
نہ دیکھا کوئی ایسا خوش نوائے بے نوا ہم نے
عبد العزیز خالد
یوم پیدائش01 جنوری 1958
خوف سے کھڑکی گرتی ہے در گرتا ہے
قدموں کی آہٹ سے اب گھر گرتا ہے
زخم ہمارا خشک نظر آئے کیسے
سر پر روز نیا اک پتھر گرتا ہے
تم کیا جانو درد بھری آنکھوں کا حال
دل کی ندی میں کیسے سمندر گرتا ہے
میرا گھر اب ہونے لگا جل تھل جل تھل
کس کی آنکھوں سے پانی جھرجھر گرتا ہے
سونے خلا میں ڈھونڈ رہا ہے کوئی پیڑ
اڑتے اڑتے زخمی کبوتر گرتا ہے
اب تو انوکھا ہی ہو گیا منظر آتشؔ
قطرہ شبنم دن میں برابر گرتا ہے
محمد قربان علی آتش
یوم پیدائش01 جنوری 1954
مکان جاں پہ بھلا کب مکیں کا حصہ ہے
یہ آسماں بھی سراسر زمیں کا حصہ ہے
بدن کی ساری رگیں جل گئیں مگر اب تک
جو جل نہ پایا کسی دل نشیں کا حصہ ہے
ٹھہر بھی جاؤ کہ ہے بات کچھ مہینوں کی
گماں کی ناف میں زندہ یقیں کا حصہ ہے
چھپا ہوا نہیں رہتا ہے کچھ فقیروں کا
چمک رہا ہے جو قشقہ جبیں کا حصہ ہے
بقا کے سارے مظاہر تمہارے حصے کے
فنا کا باب شمیمؔ حزیں کا حصہ ہے
شمیم قاسمی
یوم پیدائش01 جنوری 1951
گلوں سے تو کہیں بہتر ہے کوئی خار ہو جاؤ
نظر والوں کی خاطر نکتۂ افکار ہو جاؤ
بلندی آسمانوں کی رہے محفوظ نظروں میں
کہیں ایسا نہ ہو دوشِ زمیں پہ بار ہو جاؤ
بکھر کے موتیوں کی قدر و قیمت کچھ نہیں ہوتی
سمٹ آؤ جو آپس میں انوکھا ہار ہو جاؤ
کمربستہ رہے غارت گری پہ عمر بھر لیکن
مزہ آئے جو ملک و قوم کے معمار ہو جاؤ
یہ ضرب المثل ہے اس میں نہیں کچھ شک کی گنجائش
کرو اپنی کو خود عزت تو عزت دار ہو جاؤ
سفر میں رک کے دم لینا کہیں اچھا نہیں ارماں
طلب منزل کی ہے تو وقت کی رفتار ہو جاؤ
ارمان عالم ارمان حبیبی
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...