Urdu Deccan

Saturday, January 22, 2022

سہیل ارشد

 یوم پیدائش 15 جنوری 1966


مینار جو بچا تھا زمیں بوس ہو گیا 

اجداد کے سروں کی علامت بھی گر گئی 


سہیل ارشد


آصف جاوید

 یوم پیدائش 15 جنوری 1975


تری رہبری میں اکثر لُٹے کارواں دلوں کے

ارے عشق باز آ جا نہ لے امتحاں دلوں کے


کوئی پوچھتا تو کہتے کہ ہمارا روگ کیا ہے

کہاں کھو گۓ بتاٶ تھے جو رازداں دلوں کے


در و بام پر اُگی ہے کوئی سبز سبز سی شے

نظر آ رہے ہیں مجھ کو یہاں کچھ نشاں دلوں کے


سوئے یار پاٶں اُٹھیں تو ہزار صدمے جاگیں

نکل آٸیں ہر طرف سے کٸ مہرباں دلوں کے


جنھیں زندگی کے بارے ذرا سوجھ بوجھ ٹھہری

وہی رہروانِ دل ہیں وہی قدر داں دلوں کے


ہو مباہلہ کی صورت کہ مناظرہ کا منظر

سدا سرخ رو ہوے ہیں تھے جو ترجماں دلوں کے


ہمیں بس جنوں کی دنیا ہی بھلی لگی ہے آصف

سو ہیں درد کے پجاری تو قصیدہ خواں دلوں کے


آصف جاوید 


ناشاد اورنگ آبادی

 یوم پیدائش 15 جنوری 1935


بھیجتا ہوں آپ کو اپنی پسندیدہ غزل 

تازہ تازہ ناشنیدہ اور نادیدہ غزل 


داستان حسن بھی ہے یہ سراپا حسن بھی 

سنگ مرمر سے مثال بت تراشیدہ غزل 


میرؔ غالبؔ ذوقؔ و مومنؔ پر بھی تھی جاں سے نثار 

تھی بہادر شاہ کی ہر چند گرویدہ غزل 


شہرۂ آفاق ہے اس کا جمال فکر و فن 

ساری اصناف سخن میں ہے جہاں دیدہ غزل 


پارہ پارہ ہو نہ جائے ماہ پارہ دیکھیے 

ہے ہوس ناکوں کے ہاتھوں آج رنجیدہ غزل 


شعر کی آمد نہیں ہوتی ہے کیا ناشادؔ اب 

شاعران‌ عصر تو کہتے ہیں پیچیدہ غزل


ناشاد اورنگ آبادی


عتیق احمد خان صبا

 یوم پیدائش 15 جنوری 1953


دوستی میں اس کے شامل بغض کا عنصر بھی تھا

پھول تھے ہاتھوں میں زیرِ آستیں خنجر بھی تھا


آج مجبوری نے مجھ کو رکھ دیا ہے کاٹ کر

ورنہ ان خود دار شانوں پر مرے اک سر بھی تھا


خوگرِ صحرا نوردی ہوگیا ہوں اس قدر

بھول بیٹھا ہوں کسی بستی میں میرا گھر بھی تھا 


کون بڑھتا پھر بھلا میری مدد کے واسطے

میرا دشمن صاحبِ زر اور طاقت ور بھی تھا


پھونک ڈالے جس نے کتنے ہی غریبوں کے چراغ

آگ کے شعلوں کی زد پر آج اس کا گھر بھی تھا


حوصلہ افزائی میں میری رہا جو پیش پیش

راہ کا میری وہی سب سے بڑا پتھر بھی تھا


میں ہی تنہا تو نہیں تھا عشق میں رسوا صباؔ

ایک چھوٹا ہی سہی الزام اس کے سربھی تھا


عتیق احمد خان صبا


اشرف مولانگری

 پیدائش:15 جنوری 1958


ذرا سی روشنی کے واسطے اے مہرباں میں نے 

جلا ڈالا ہے دیکھو خود ہی اپنا آشیاں میں نے 


ستم دیکھو اسی نے زہر گھولا زندگانی میں 

جسے سمجھا کیا اب تک رفیق و راز داں میں نے 


نہ پوچھو کتنے ارمانوں کی لاشیں دفن کیں میں نے 

سجائی ہیں تمناؤں کی کتنی ارتھیاں میں نے 


قدم راہ محبت میں سنبھل کر دوستو رکھنا 

لٹایا ہے اسی رستے میں اپنا کارواں میں نے 


شباب آیا ہے اشرفؔ اب شبستان تصور پر 

لہو دے دے کے سینچا تھا خیال گلستاں میں نے


اشرف مولانگری


سرور انبالوی

 یوم پیدائش 15 جنوری 1927


سنی ہے روشنی کے قتل کی جب سے خبر میں نے

چراغوں کی طرف دیکھا نہیں ہے لوٹ کر میں نے


فراز دار سے اپنوں کے چہرے خود ہی پہچانے

فقیہ شہر کو جانا نہیں ہے معتبر میں نے


بھلا سورج کی طرف کون دیکھے کس میں ہمت ہے

ترے چہرے پہ ڈالی ہی نہیں اب تک نظر میں نے


یقیناً آندھیوں نے آ لیا کونجوں کی ڈاروں کو

کہ خوں آلودہ دیکھے ہیں فضا میں بال و پر میں نے


تمہارے بعد میں نے پھر کسی کو بھی نہیں دیکھا

نہیں ہونے دیا آلودہ دامان نظر میں نے


ہزاروں آرزوئیں رہ گئیں گرد سفر ہو کر

سجا رکھی ہے پلکوں پہ وہی گرد سفر میں نے


دم رخصت مری پلکوں پہ دو قطرے تھے اشکوں کے

کیا ہے زندگانی کے سفر کو مختصر میں نے


میں اپنے گھر میں خود اپنوں سے بازی ہار بیٹھا ہوں

ابھی سیکھا نہیں اپنوں میں رہنے کا ہنر میں نے


سرور انبالویؔ اپنے ہی دل میں اس کو پایا ہے

جسے اک عمر تک آواز دی ہے در بدر میں نے


سرور انبالوی


عبد العزیز خالد

 یوم پیدائش 14 جنوری 1927


قضا سے قرض کس مشکل سے لی عمر بقا ہم نے

متاع زندگی دے کر کیا یہ قرض ادا ہم نے


ہمیں کس خواب سے للچائے گی یہ پر فسوں دنیا

کھرچ ڈالا ہے لوح دل سے حرف مدعا ہم نے


کریں لب کو نہ آلودہ کبھی حرف شکایت سے

شعار اپنا بنایا شیوۂ صبر و رضا ہم نے


ہم اس کے ہیں سراپا ادبدا کر اس سے کیا مانگیں

اٹھایا ہے کبھی اے مدعی دست دعا ہم نے


شہیدان وفا کی منقبت لکھتے رہے لیکن

نہ کی عرضی خداؤں کی کبھی حمد و ثنا ہم نے


پرکھنے والے پرکھیں گے اسی معیار پر ہم کو

جہاں سے کیا لیا ہم نے جہاں کو کیا دیا ہم نے


وہی انساں جہاں جاؤ وہی حرماں جدھر دیکھو

بپائے خفتہ کی سیاحیٔ ملک خدا ہم نے


لٹا ذوق سفر بھی کارواں کا ایسے لگتا ہے

سنا ہر تازہ پیش آہنگ کا شور درا ہم نے


ستم آراؤ سن لو آخری برداشت کی حد تک

سہا ہر ناروا ہم نے سنا ہر ناسزا ہم نے


یہ دزدیدہ نگاہیں ہیں کہ دل لینے کی راہیں ہیں

ہمیشہ دیدہ و دانستہ کھائی ہے خطا ہم نے


کشاکش ہم سے پوچھے کوئی نا آسودہ خواہش کی

حسینوں سے بہت باندھے ہیں پیمان وفا ہم نے


کیا تکمیل نقش نا تمام شوق کی خاطر

جو تم سے ہو سکا تم نے جو ہم سے ہو سکا ہم نے


عراقیؔ کی طرح خالدؔ کو کیوں بدنام کرتے ہیں

نہ دیکھا کوئی ایسا خوش نوائے بے نوا ہم نے


عبد العزیز خالد


محمد قربان علی آتش

 یوم پیدائش01 جنوری 1958


خوف سے کھڑکی گرتی ہے در گرتا ہے

قدموں کی آہٹ سے اب گھر گرتا ہے


زخم ہمارا خشک نظر آئے کیسے

سر پر روز نیا اک پتھر گرتا ہے


تم کیا جانو درد بھری آنکھوں کا حال

دل کی ندی میں کیسے سمندر گرتا ہے


میرا گھر اب ہونے لگا جل تھل جل تھل

کس کی آنکھوں سے پانی جھرجھر گرتا ہے


سونے خلا میں ڈھونڈ رہا ہے کوئی پیڑ

اڑتے اڑتے زخمی کبوتر گرتا ہے


اب تو انوکھا ہی ہو گیا منظر آتشؔ

قطرہ شبنم دن میں برابر گرتا ہے


محمد قربان علی آتش


Tuesday, January 18, 2022

شمیم قاسمی

 یوم پیدائش01 جنوری 1954


مکان جاں پہ بھلا کب مکیں کا حصہ ہے 

یہ آسماں بھی سراسر زمیں کا حصہ ہے

 

بدن کی ساری رگیں جل گئیں مگر اب تک 

جو جل نہ پایا کسی دل نشیں کا حصہ ہے

 

ٹھہر بھی جاؤ کہ ہے بات کچھ مہینوں کی 

گماں کی ناف میں زندہ یقیں کا حصہ ہے

 

چھپا ہوا نہیں رہتا ہے کچھ فقیروں کا 

چمک رہا ہے جو قشقہ جبیں کا حصہ ہے

 

بقا کے سارے مظاہر تمہارے حصے کے 

فنا کا باب شمیمؔ حزیں کا حصہ ہے


شمیم قاسمی


ارمان عالم ارمان حبیبی

 یوم پیدائش01 جنوری 1951


گلوں سے تو کہیں بہتر ہے کوئی خار ہو جاؤ

نظر والوں کی خاطر نکتۂ افکار ہو جاؤ


بلندی آسمانوں کی رہے محفوظ نظروں میں

کہیں ایسا نہ ہو دوشِ زمیں پہ بار ہو جاؤ


بکھر کے موتیوں کی قدر و قیمت کچھ نہیں ہوتی

سمٹ آؤ جو آپس میں انوکھا ہار ہو جاؤ


کمربستہ رہے غارت گری پہ عمر بھر لیکن

مزہ آئے جو ملک و قوم کے معمار ہو جاؤ


یہ ضرب المثل ہے اس میں نہیں کچھ شک کی گنجائش

کرو اپنی کو خود عزت تو عزت دار ہو جاؤ


سفر میں رک کے دم لینا کہیں اچھا نہیں ارماں

طلب منزل کی ہے تو وقت کی رفتار ہو جاؤ


ارمان عالم ارمان حبیبی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...