Urdu Deccan

Tuesday, February 1, 2022

شاذ تمکنت

 یوم پیدائش 31 جنوری 1933


مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے

تو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لیے 


وہ کشتیاں مری پتوار جن کے ٹوٹ گئے

وہ بادباں جو ترستے رہے ہوا کے لیے 


بس ایک ہوک سی دل سے اٹھے گھٹا کی طرح

کہ حرف و صوت ضروری نہیں دعا کے لیے 


جہاں میں رہ کے جہاں سے برابری کی یہ چوٹ

اک امتحان مسلسل مری انا کے لیے 


نمیدہ خو ہے یہ مٹی ہر ایک موسم میں

زمین دل ہے ترستی نہیں گھٹا کے لیے


میں تیرا دوست ہوں تو مجھ سے اس طرح تو نہ مل

برت یہ رسم کسی صورت آشنا کے لیے 


ملوں گا خاک میں اک روز بیج کے مانند

فنا پکار رہی ہے مجھے بقا کے لیے 


مہ و ستارہ و خورشید و چرخ ہفت اقلیم

یہ اہتمام مرے دست نارسا کے لیے 


جفا جفا ہی اگر ہے تو رنج کیا ہو شاذؔ

وفا کی پشت پناہی بھی ہو جفا کے لیے


شاذ تمکنت


Monday, January 31, 2022

شارق اجمیری

 یوم پیدائش 31 جنوری 1941


زندگی کے تغیرات ہی کیا

صرف اتنی سی بات ، بات ہی کیا

زندگی کچھ تھی ،کچھ ہے ،کچھ ہوگی

 بزمِ نیرنگیء حیات ہی کیا


شارق اجمیری


Sunday, January 30, 2022

فردوسی عظیم آبادی

 یوم پیدائش31 جنوری 1941

 

 پھر یاد کوئی آیا پھر درد سوا ہوگا

 اب اے غم تنہائی اس رات کا کیا ہوگا


 کچھ اور بڑھی ہوگی سرخی ترے چہرے کی

تنہائی میں جب تونے کچھ یاد کیا ہوگا

   

 ماتھے پہ شکن کیسی شرمائے ہوئے کیو ں ہو

 لوگوں نے مجھے شاید دیوانہ کہا ہوگا

     

 میخانہ چھٹا مجھ سے پی آ تو ہی اب واعظ

 اب بھی مرے حصہ کا پیمانہ بھرا ہوگا

       

   فردوسی عظیم آبادی


ظہور ظہیرآبادی

 یوم پیدائش 31 جنوری 


جو ہیں سوغاتیں اپنوں کی وہ سینے میں چھپاتے ہیں

ملے جو زخم اپنوں سے کہاں سب کو بتاتے ہیں


پڑا جب وقت تو غیروں نے ہی ہم کو سنبھالا ہے

جنہیں اپنا سمجھتے ہیں وہی دامن بچاتے ہیں


دلوں سے کھیلنا فطرت رہی جن کی محبت میں

کھلونوں کی طرح اکثر وہ دل کو توڑ جاتے ہیں


لگے گی آگ ان کے بھی کبھی تو آشیانہ میں

گھروں میں آگ نفرت کی جو اوروں کے لگاتے ہیں


وہ آہی جائیں گے اک دن زمانے کی نگاہوں میں

جو اپنے اصل چہرے پر بھی اک چہرہ لگاتے ہیں


مٹادیں جن کی خاطر خواہشیں ہم نے ظہور اپنی

زمانے میں وہی تو آج کل ہم کو رلاتے ہیں


ظہور ظہیرآبادی


عبدالسلام عاصم

 یوم پیدائش 30 جنوری 1960


جس جگہ جو خوش نشیں آیا نظر رہنے دیا

ہم نے روشن دان میں چڑیوں کا گھر رہنے دیا


مل کے جو بچھڑے انہیں جانے سے روکا بھی نہیں

اور جو ساتھ آئے ان کو ہم سفر رہنے دیا


جس کے ڈر کی کرتے پھرتے ہیں تجارت اہل دیں

ہم نے اس کے خوف سے لرزیدہ شر رہنے دیا


درد دل کو بھی دواؤں سے ہی بہلاتے رہے

بد دعاؤں کو ہمیشہ بے اثر رہنے دیا


ہر سحر تجھ کو بھلانے کے لئے دفتر گیا

اور تری یادوں کو مہماں رات بھر رہنے دیا


جس میں ہاتھوں کو مرے تھامے نظر آتے ہو تم

بس اسی تصویر کو دیوار پر رہنے دیا


سب بدل کر رکھ دیا ہم نے ان آنکھوں کے لئے

ہاں مگر منظر بہ منظر چشم تر رہنے دیا


عبدالسلام عاصم


اجمل سلطان پوری

 یوم وفات 29 جنوری 2020


گیت

کہاں ہے میرا ہندوستان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسلماں اور ہندو کی جان 

کہاں ہے میرا ہندوستان 

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں 


مرے بچپن کا ہندوستان 

نہ بنگلہ دیش نہ پاکستان 

مری آشا مرا ارمان 

وہ پورا پورا ہندوستان 

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں 


وہ میرا بچپن وہ اسکول 

وہ کچی سڑکیں اڑتی دھول 

لہکتے باغ مہکتے پھول 

وہ میرے کھیت مرے کھلیان 

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں 


وہ اردو غزلیں ہندی گیت 

کہیں وہ پیار کہیں وہ پریت 

پہاڑی جھرنوں کے سنگیت 

دیہاتی لہرا پربی تان 

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں 


جہاں کے کرشن جہاں کے رام 

جہاں کی شام سلونی شام 

جہاں کی صبح بنارس دھام 

جہاں بھگوان کریں اشنان 

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں 


جہاں تھے تلسیؔ اور کبیرؔ 

جائسیؔ جیسے پیر فقیر 

جہاں تھے مومنؔ غالبؔ میرؔ 

جہاں تھے رحمنؔ اور رسخانؔ 

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں 


وہ میرے پرکھوں کی جاگیر 

کراچی لاہور و کشمیر 

وہ بالکل شیر کی سی تصویر 

وہ پورا پورا ہندوستان 

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں 


جہاں کی پاک پوتر زمین 

جہاں کی مٹی خلد نشین 

جہاں مہراج معینؔ الدین 

غریب نواز ہند سلطان 

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں 


مجھے ہے وہ لیڈر تسلیم 

جو دے یکجہتی کی تعلیم 

مٹا کر کنبوں کی تقسیم 

جو کر دے ہر قالب اک جان 

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں 


یہ بھوکا شاعر پیاسا کوی 

سسکتا چاند سلگتا روی 

ہو جس مدرا میں ایسی چھوی 

کرا دے اجملؔ کو جلپان 

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں

 

مسلماں اور ہندو کی جان 

کہاں ہے میرا ہندوستان 

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں


اجمل سلطان پور


Saturday, January 29, 2022

بیدل جونپوری

 یوم وفات 28 جنوری 2015


بہت زوروں پہ وی سی آر تھا کل شب جہاں میں تھا

ہر اک ناظر بڑا بیدار تھا کل شب جہاں میں تھا


سیہ زلف پریشاں کے عوض شانے پہ چوٹی تھی

ستارہ تھا مگر دم دار تھا کل شب جہاں میں تھا


اندھیرا ہی اندھیرا چھا گیا ہے لوڈ شیڈنگ سے

نہ جانے کس طرف کو یار تھا کل شب جہاں میں تھا


بڑے ارمان سے نکلا تھا شاپنگ کے لیے گھر سے

کلوزنگ پہ ہر اک بازار تھا کل شب جہاں میں تھا


زبردستی کا میں قائل نہ تھا واپس چلا آیا

کہ اس کے ہونٹ پر انکار تھا کل شب جہاں میں تھا


اڑن چھو تھا سگ معشوق بیدلؔ اپنی ڈیوٹی سے

نہ پہرہ تھا نہ پہرے دار تھا کل شب جہاں میں تھا


بیدل جونپوری


راز عظیم آبادی

 یوم وفات 29 جنوری 1963


مرے ساتھ آئے رنگِ بزم جاناں کون دیکھے گا

دل و جاں نذر دے کر خونِ ارماں کون دیکھے گا


نہ گھراؤ کرے گا کون دعویٰ خونِ ناحق کا

سرِ محشر تمہیں سردر گریباں کون دیکھے گا 


دلِ بیتاب ہوگا جاکے رُسوا ان کی محفل میں

ارے ناداں سوئے ناخواندہ مہماں کون دیکھے گا


خدارا درد کا میرے اثر تم بھی نہ لے لینا

پہ ہنس ہنس کے مرا حالِ پریشاں کون دیکھے گا


بہت نکلیں گے یوں تو رقصِ بسمل دیکھنے والے

دل ِمہجور تیرا دردِ پنہاں کون دیکھے گا


نظر والو سرِ راهِ تصور عام دعوت ہے

مریِ آنکھوں میں ہے تصویرِ جاں کون دیکھے گا


جو ہم اہلِ جنوں کی بھی چمن ہی پر نظر ہوگی

تو پھر حُسن رُخِ دشت و بیاباں کون دیکھے گا


غنیمت ہے شبِ غم نیند اُڑ جاتی ہے آنکھوں سے

سحر تک سیکڑوں خوابِ پریشاں کون دیکھے گا


بکھر جائیں گے جلوے تم نقابِ رُخ نہ سرکاؤ

نگاہِ شوق کی تنگیء داماں کون دیکھے گا


ٹھہر جا تو پسِ میخانہ واعظ، میں ابھی آیا

بس اک دوگھونٹ، اطمینان رکھ، یاں کون دیکھے گا ؟


گرفتِ پنجۂ شہباز تحسین ِنظر لے گی

ترے جذبوں کو اے صیدِ پَر افشاں کون دیکھے گا


ضرور آئی کہیں سے دل میں چنگاری محبت کی

لگا کر آگ خود گھر میں چراغاں کون دیکھے گا


 کسی نے جیتے جی تجھ پر نہ جب راز اک نظر ڈالی

  تو پھر مڑ کر سوئے گورِ غریباں کون دیکھے گا

  

راز عظیم آبادی


تبسم کاشمیری

 یوم پیدائش 29 جنوری 1940


نظم اس عہد کی بے حس ساعتوں کے نام


یہاں اب ایک تارہ 

زرد تارہ بھی نہیں باقی 

یہاں اب آسماں کے 

چیتھڑوں کی پھڑپھڑاہٹ بھی نہیں باقی 

یہاں پر سارے سورج 

تارے سورج 

تیرتے افلاک سے گر کر 

کسی پاتال میں گم ہیں 

یہاں اب سارے سیاروں کی گردش 

رک گئی ہے 

یہاں اب روشنی ہے 

اور نہ آوازوں کی لرزش ہے 

نہ جسموں میں ہی حرکت ہے 

یہاں پر اب فقط 

اک خامشی کی پھڑپھڑاہٹ ہے 


تبسم کاشمیری


حامدی کاشمیری

 یوم پیدائش 29 جنوری 1932


بس اسی کا سفر شب میں طلب گار ہے کیا

تو ہی اے ماہ مرا ہم دم و غم خوار ہے کیا


تیشہ در دست امنڈ آئی ہے آبادی تمام

سب یہی کہتے ہیں دیکھیں پس دیوار ہے کیا


ہاں اسی لمحے میں ہوتا ہے ستاروں کا نزول

شہر خوابیدہ میں کوئی دل بیدار ہے کیا


جسم تو جسم ہے مجروح ہوئی ہے جاں بھی

اپنوں کے ہوتے ہوئے شکوۂ اغیار ہے کیا


تھرتھری پتوں پہ ہے درد بجاں ہیں کلیاں

تو بھی اے باد سحر درپئے آزار ہے کیا


لب ہلانے کی سکت ہے نہ قدم اٹھتے ہیں

سامنے جو بھی ہے دلدل میں گرفتار ہے کیا


حامدی کاشمیری


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...