Urdu Deccan

Tuesday, February 8, 2022

ارشد فرات

 یوم پیدائش 04 فروری


کوئی میرے قریں نہیں ہوتا

عشق مجھ سے کہیں نہیں ہوتا


کچھ میں خلوت مقیم ہوتی ہے

ہر مکاں کا مکیں نہیں ہوتا


میں گماں سے نکل نہیں پایا

آپ آئے یقیں نہیں ہوتا 


فصل غم بھی کمال ہوتی ہے

وقت بنجر زمیں نہیں ہوتا


دشت کی پیاس خوں بجھاتا ہے

مجھ سا صحرا نشیں نہیں ہوتا


ہم ہی ایجاد کرتے ہیں دکھ درد

کوئی بھی دل حزیں نہیں ہوتا


ہم ہی آفاق تک پہنچتے ہیں

آسماں یہ زمیں نہیں ہوتا 


حسن ظن رکھنا ہوتا ہے ارشد

کوئی منظر حسیں نہیں ہوتا


ارشد فرات


زاہدہ خاتون شروانیہ

 یوم وفات 04 فروری 1922


رنگ فطرت ہے وجہ حیرانی

عقل ہے اور حیائے نادانی


رازداں مدعا کو کہتے ہیں

حسن الفت کا داغ پیشانی


حسن باقی نے دل کو کھینچ لیا

رخصت اے حسن ہستئ فانی


دل ہے وقف رجائے رحم و کرم

جاں ہے نذر رضائے ربانی


اب میں سمجھی کہ ہے فنائے خودی

انبساط بہشت لافانی


غم نہ کر ہے نقیب ابر بہار

خشکیٔ موسم زمستانی


دل صد پارہ کے الم گن لوں

دیکھی جائے گی سبحہ گردانی


کر سکے طے نہ ملک عرفاں کو

رومی و مغربی و کرمانی


دورئ بزم دوست کے غم میں

محو افغاں ہے اک افغانی


عرش کے کنگرے پہ طائر قدس

رات کرتا تھا یوں خوش الحانی


کہ ہے انساں طلسم شان خدا

قدر اپنی نہ اس نے پہچانی


بند کیں اس نے جب ذرا آنکھیں

کھل گیا راز بزم امکانی


چارۂ روح فلسفی ہے نہ شیخ

ایک وہمی ہے ایک خفقانی


کثرت این و آں میں وحدت دوست

کنج نایاب کی فراوانی


شیخ رنج بیاں کا ڈر نہ کرے

لا بیاں ہے یہ کیف وجدانی


متشکک ہے اور شکایت ہجر

نزہت اور شکر لطف پنہانی


زاہدہ خاتون شروانیہ


نسیم احمد نسیم

 یوم پیدائش 04 فروری 1964


مری اوقات وہ اس طرح بتا دیتا ہے

خاک لے کر کے ہواؤں میں اڑا دیتا ہے


میں بہت دور چلا جاتا ہوں جب بھی خود سے

"میرے اندر سے کوئی مجھ کو صدا دیتا ہے"


لاکھ کرتا رہا میں اس کو بھلانے کی سعی

یاد رہ رہ کے کوئی اس کی دلا دیتا ہے


جب بھی چاہا کہ اسے بڑھ کے میں فوراً چھو لوں

کچی نیندوں سے کوئی مجھ کو جگا دیتا ہے


اس سے وابستہ ہیں کچھ ایسی پرانی یادیں

جب بھی آتا ہے مری نیند اڑا دیتا ہے


نسیم احمد نسیم


باقر نقوی

 یوم پیدائش 04 فروری 1936


شور دریا ہے کہانی میری

پانی اس کا ہے روانی میری


کچھ زیادہ ہی بھلی لگتی ہے

مجھ کو تصویر پرانی میری


جب بھی ابھرا ترا مہتاب خیال

کھل اٹھی رات کی رانی میری


بڑھ کے سینے سے لگا لیتا ہوں

جیسے ہر غم ہو نشانی میری


مہرباں مجھ پہ ہے اک شاخ گلاب

کیسے مہکے نہ جوانی میری


پھر ترے ذکر کی سرسوں پھولی

پھر غزل ہو گئی دھانی میری


کچھ تو اعمال برے تھے اپنے

کچھ ستاروں نے نہ مانی میری


لکھی جائے گی ترے برف کے نام

جو تمنا ہوئی پانی میری


تم نے جو بھی کہا میں نے مانا

تم نے اک بات نہ مانی میری


مختصر بات تھی جلدی بھی تھی کچھ

اس پہ کچھ زود بیانی میری


باقر نقوی


جرم محمد آبادی

 یوم پیدائش 04 فروری 1903


وہی جوش حق شناسی وہی عزم برد باری

نہ بدل سکا زمانہ مری خوئے وضع داری


وہی مے کدہ ہے لیکن نہیں اب وہ کیف باری

گئے ہم مذاق لے کے مرا لطف بادہ خواری


ہو زبان جس کے منہ میں وہ نہ آئے انجمن میں

کہیں رکھ نہ دے ستم گر یہی شرط راز داری


کبھی ہنستے ہنستے رونا کبھی روتے روتے ہنسنا

کوئی کیا سمجھ سکے گا بھلا مصلحت ہماری


میں زمانے بھر کے طعنے نہ خموش ہو کے سنتا

جو جنون عشق ہوتا مرا فعل اختیاری


مئے عاشقی سے توبہ ہے جنون پارسائی

کہیں لے نہ ڈوبے واعظ تجھے زعم ہوشیاری


نہ پہنچ سکا جہاں تک کبھی پائے کبر و دانش

وہیں جرمؔ لے گئی ہے مجھے میری خاکساری


جرم محمد آبادی


نواب بہادر یار جنگ

 یوم پیدائش 03 فروری 1905


اے کہ ترے وجود پر خالقِ دو جہاں کو ناز

اے کہ ترا وجود ہے وجہہ وجودِ کائنات


اے کہ ترا سر نیاز حد کمال بندگی

اے کہ ترا مقامِ عشق قرب تمام عین ذات


اے کہ تری زبان سے ربِ قدیر گلفشاں

وحی خدائے لم یزل تھی تیری ایک ایک بات


اے کہ تو فخر آدمی ، واقف سر عالمیں

لوح و قلم سے بے نیاز تیرے علوم شش جہات


تیرے عمل سے کھل گئیں تیرے بیاں سے حل ہوئیں

منطقیوں کی الجھنیں ، فلسفیوں کی مشکلات


خوگر بندگی جو تھے تیرے طفیل میں ہوئے

مالک مصر و کاشغری ، وارثِ دجلہ و فرات


مجھ سے بیاں ہو کس طرح رفعتِ شانِ احمدیؐ

تنگ مرے تصورات پست مرے تخیلات


نواب بہادر یار جنگ


اختر جاوید

 یوم پیدائش 03 فروری 1939


ہمیشہ تنہا کسی دن نہ قافلے میں رہا

الگ تھلگ جو رہا ہے وہ فائدے میں رہا


کبھی ہَوا، کبھی طوفان برف کی آندھی

ہمیشہ کوئی نہ کوئی مقابلے میں رہا


وہ میرا دل ہو ‘ مرا ذہن میرا سوچ اخی

انہیں کا ذکر ہمیشہ کتابچے میں رہا


مری زمین پہ کیا کیا گذر گئے فتنے

تمہارا دل توہمیشہ مُراقبے میں رہا


ہر ایک پَل مری عمرِ رواں شمار میں ہے

کہ لمحہ لمحہ ہمیشہ محاسبے میں رہا


میں ایک لمحہ بھی غافل کہاں ہُواتجھ سے

تراخیال بیابان ‘ راستے میں رہا


میں تیرے صفحوں پہ آیا نہیں تو غم بھی نہیں

یہ کم کہاںہے مرا ذکر حاشیے میں رہا


جو آئینے سے ہٹا گم ہُوا ‘ ہَوا کی طرح 

تمہارا چہرہ کہاں کوئی آئینے میں رہا


کہ اُس کا ذکر رہا صرف ذائقے کی طرح

یہ اور بات ہے جاویدؔ قافلے میں رہا


اختر جاوید


حارث جمیل

 یوم پیدائش 03 فروری 1991


اِس قدر مانوس ہوں تاریکی اور آسیب سے

آنکھ چُندھیاتی ہے میری اب تو دیدہ زیب سے


مُخلصی میں گامزن ہوں مُفلسی کی راہ پر

صحبتوں کی ریزگاری گر رہی ہے جیب سے


نامہ بر اور شوخ میں سے نامہ بر ہے خوش گُلو

دشمنی ہے چُوڑیوں کی اس لیے پا زیب سے


میرا یارِ خاص بھی ہو گا مطیعِ آئنہ

میں بھی آخر کو سُلایا جاؤں گا اک سیب سے


نوچتی ہیں خواہشیں مجھ کو قطار اندر قطار

جس طرح ہو سامنا میرا کسی کاریب سے


حارث جمیل


امید امیٹھوی

 یوم پیدائش 03 فروری 1878


کیا قصور اے عرض مطلب حسرت پرجوش کا

چشم حیراں کا گلہ ہے یا لب خاموش کا


حیرت آباد تجلی میں نہیں اس دل کا کام

صدمہ پروردہ ہو جو محنت سرائے ہوش کا


تیغ قاتل میں ترے قرباں بڑا احساں کیا

جسم بار اک روح کا تھا سر وبال اک دوش کا


پائے نازک کو ذرا دے رخصت مشق خرام

کب سے تکتی ہے قیامت منہ تری پاپوش کا


ہستیٔ حسن و تغافل پیشگی کا ہے گواہ

جاں بہ لب ہونا تمہارے عاشق مدہوش کا


کم نہ ہوگا شور نوشا نوش صہبا واعظو

دم سلامت چاہیئے امید صہبا نوش کا


امید امیٹھوی


کاوش بدری

 یوم پیدائش 03 فروری 1928


دوست جتنے بھی تھے مزار میں ہیں

غالباً میرے انتظار میں ہیں


وہ نہ ہوتے مرا وجود نہ تھا

میں نہ ہوتا وہ کس شمار میں ہیں


شاخ ادراک میں جو کانٹے ہیں

پھول بننے کے انتظار میں ہیں


کیا سبب ہے کہ ایک موسم میں

کچھ خزاں میں ہیں کچھ بہار میں ہیں


ایک شاعر بنا خدائے سخن

جو رسول سخن تھے غار میں ہیں


خار سمجھو نہ تم انہیں ہرگز

سانپ کے دانت گل کے ہار میں ہیں


شمر و فرعون کب ہوئے مرحوم

ان کے اوصاف رشتے دار میں ہیں


سب کے سب کاوش فرشتہ خصال

عیب جتنے ہیں خاکسار میں ہیں


کاوش بدری


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...