Urdu Deccan

Tuesday, February 8, 2022

عذرا پروین

 یوم پیدائش 06 فروری 1961


مری خود سے محبت بڑھ گئی ہے 

بہت پنجرے سے وحشت بڑھ گئی ہے 


ہیں میرے خواب سارے موم کے بت 

مرے سورج تمازت بڑھ گئی ہے 


ہمارے بیچ بیداری ہی غم تھی 

بس اب نیندوں کی حاجت بڑھ گئی ہے 


یہ کیا بازار کیسے لوگ یوسف 

ادھر کیوں تیری رغبت بڑھ گئی ہے 


سنائی دیتا ہے سب ان کہا بھی 

تری دھن میں سماعت بڑھ گئی ہے 


کبھی نیندوں سے میں وحشت زدہ تھی 

پر اب خوابوں سے راحت بڑھ گئی ہے 


میں بچنا چاہتی ہوں اپنی جاں سے 

مری مجھ سے محبت بڑھ گئی ہے 


نشہ سورج کو ہو جائے تو کیا ہو 

مری حیرت پہ حیرت بڑھ گئی ہے


عذرا پروین


عاصم حماد عاصم

یوم پیدائش 05 فروری 1999


ہر اِک لمحہ ستایا جا رہا ہُوں

تری آنکھوں سے دیکھا جا رہا ہُوں


شرابِ شوق پی کر آستاں میں

زبورِ عشق پڑھتا جا رہا ہُوں


شبِ وحشت میں اِک خونیں قلم سے

کوئی تقدیر لکھتا جا رہا ہُوں


مجھے تھوڑی سماعت دے دے اپنی

مَیں موسیٰ طُورِ سینا جا رہا ہُوں


حقارت سے مجھے مت دیکھ ملّا!

مجھے جانے دے جیسا جا رہا ہوں


ملَک نے صُور پھونکا اور یہاں مَیں

خدا کی سَمت ننگا جا رہا ہُوں


کوئی اپنی ہی کوتاہی ہے عاصمؔ

مَیں اُس کے در سے پیاسا جا رہا ہوں!


عاصم حماد عاصم


شیریں نہاں

 یوم پیدائش:05 فروری 1983


جانے کب ٹوٹ جائے خواب کہاں

زندگی طے ترا نصاب کہاں


دل کو اپنے ٹٹولتی ہوں مگر

میرے اعمال کا حساب کہاں


جب سیاہی کے نقش دل پہ لگے

پھر گناہوں کا احتساب کہاں


گر فراموش کی ہو راہ وفا

تیرے حصّے میں پھر ثواب کہاں


تیری مصروف زندگی سے صنم

خط کو حاصل مرے جواب کہاں


ذکر جب ہو رخِ نبیؐ کا نہاؔں

ماہ انجم و آفتاب کہاں


شیریں نہاں


ضمیر یوسف

 یوم پیدائش 05 فروری 1970


وہی چراغ تو بے موت مرتے رہتے ہیں

جو ساز باز ہواؤں سے کرتے رہتے ہیں


صعوبتوں سے جو ہنس کر گزرتے رہتے ہیں

بلندیوں کو وہی زیر کرتے رہتے ہیں


ہمیشہ جن پہ ہم احسان کرتے رہتے ہیں

انھی کے تیر بھی دل میں اترتے رہتے ہیں


شکن جناب کے ماتھے پہ ہے تو حیرت کیا

ہمارے سچ سے تو آئینے ڈرتے رہتے ہیں


ہیں کامیاب وہی لوگ جو کہ خوابوں میں

نئے نئے سے حسیں رنگ بھرتے رہتے ہیں


وہ جانتے ہی نہیں جذبۂ لطیف ہے کیا

جو تتلیوں کے پروں کو کترتے رہتے ہیں


ہمارا عزم ہے چٹان کی طرح مضبوط

ہزاروں وقت کے طوفاں گزرتے رہتے ہیں


تمام رات کوئی یاد آتا رہتا ہے

ہزاروں اشک کے موتی بکھرتے رہتے ہیں


ہمارے چہرے س شادابیاں نہیں جاتیں

'یہ اور بات کہ ہر پل بکھرتے رہتے ہیں


ضمیرؔ آئینہ خانہ ہے زندگی اپنی

یہاں پہ سینکڑوں آ کر سنورتے رہتے ہیں


ضمیر یوسف


سیما نقوی

 یوم پیدائش 05 دسمبر


سانحے لاکھ سہی ہم پہ گزرنے والے

راستو! ہم تو نہیں ڈر کے ٹھہرنے والے 


کتنی جلدی میں ہوا ختم ملاقات کا وقت 

ورنہ کیا کیا تھے سوالات نہ کرنے والے


خود سے لڑکے بھی تو کچھ دیر سے ہارے ورنہ   

سچ سے اس بار تو ہم بھی تھے مکرنے والے


تم نے لکھا ہے تماشہ جو ہمارے ہی لئے

ہم وہ کردار مسلسل نہیں کرنے والے


مارنے والے کوئی اور سبب ڈھونڈ کہ ہم 

مارے جانے کے تو ڈر سے نہیں مرنے والے


ایک کاغذ کے بھروسے پہ بنا کر کشتی 

گہرے پانی میں اترتے ہیں اترنے والے 


پیاس بھڑکائیں جہاں صرف رویّوں کے سراب

ہم بھی اس دشت میں پاؤں نہیں دھرنے والے 


ہم سے کیوں بات کبھی ہو نہیں پاتی سیما !

 ہم کسی روز یہی بات تھے کرنے والے


سیما نقوی


عطیہ نور

 یوم پیدائش 05 فروری


میں آئینہ ہوں مجھ کو بکھرنے کا ڈر نہیں

دنیا یہ جانتی ہے بس اس کو خبر نہیں


پتّھر کدھر سے آیا تھا معلوم ہے مجھے

مجھ کو کسی سے آج بھی شکوہ مگر نہیں


سائے میں جس کے بیٹھ کے رو لوں میں دو گھڑی

اس رہگزر میں ایک بھی ایسا شجر نہیں


چھو لے گا آسماں ذرا موقع تو دو اسے

پنچھی اسیرِ قید ہے، بے بال و پر نہیں


اے وقت بار بار نہ مسمار کر اسے

شیشہ نماء ہے سنگ کا کوئی جگر نہیں


جس کو بھی دیکھئے ہے زمانے کی فکر میں

خود اپنے خال و خط پے کسی کی نظر نہیں


مجنوں ہو کیا جو چاک گریبان کر لیا

تنقید کا ذرا سا بھی تم پر اثر نہیں


" عطیہ" ہوں خوش میں اس لئے جگنو صفات میں

 تقدیر میں سبھی کی تو شمس و قمر نہیں


عطیہ نور


ضیا الحق قاسمی

یوم پیدائش 05 فروری 1935


دل کے زخموں پہ وہ مرہم جو لگانا چاہے

واجبات اپنے پرانے وہ چکانا چاہے


میری آنکھوں کے سمندر میں اترنے والا

ایسا لگتا ہے مجھے اور رلانا چاہے


دل کے آنگن کی کڑی دھوپ میں اک دوشیزہ

مرمریں بھیگا ہوا جسم سکھانا چاہے


سیکڑوں لوگ تھے موجود سر ساحل شوق

پھر بھی وہ شوخ مرے ساتھ نہانا چاہے


آج تک اس نے نبھایا نہیں وعدہ اپنا

وہ تو ہر طور مرے دل کو ستانا چاہے


میں نے سلجھائے ہیں اس شوخ کے گیسو اکثر

اب اسی جال میں مجھ کو وہ پھنسانا چاہے


میں تو سمجھا تھا فقط ذہن کی تخلیق ہے وہ

وہ تو سچ مچ ہی مرے دل میں سمانا چاہے


اس نے پھیلائی ہے خود اپنی علالت کی خبر

وہ ضیاؔ مجھ کو بہانے سے بلانا چاہے


ضیاء الحق قاسمی


دبیر احمد

 یوم پیدائش 05 فروری 1969


نظم کتاب کی پہلی کاپی


کہہ رہا تھا وہ ایک دانش ور

آپ ہیں معتبر پروفیسر

آپ کا احترام کرتا ہوں

صدق دل سے سلام کرتا ہوں

مجھ پہ قسمت کہ مسکرائی ہے

پھر مری اک کتاب آئی ہے

آپ کے عشق اورمحبت میں

بہ سرو چشم پہنچاخدمت میں

میں بصد شوق آیا ہوں پہلے

مستحق آپ پہلی کاپی کے

گو کہ یہ صرف اک فسانہ تھا

مجھے خوش کرنے کا بہانہ تھا

اور بھی کتنے لوگ ایسے تھے

مستحق اس کی پہلی کاپی کے

زہر غم پیجے پہلی کاپی کا

نام مت لیجے پہلی کاپی کا


دبیر احمد


مشتاق در بھنگوی

 یوم پیدائش 05 فروری 1958


اپنا وعدہ وفا نہیں کرتے

کام یہ رہنما نہیں کرتے


چاہتے ہیں بھلائی لوگ اپنی

دوسروں کا بھلا نہیں کرتے


جھوٹ ان کو ذلیل کرتا ہے

سچ کا جو سامنا نہیں کرتے


غم کا اظہار ہر کسی سے ہم

راہ میں برملا نہیں کرتے


صرف اللہ سے جو ڈرتے ہیں

وہ کسی سے ڈرا نہیں کرتے


راہ منزل سے جو نہیں واقف

ہم اسے رہنما نہیں کرتے


اپنی اولاد کے لئے مشتاق

باپ ماں کب دعا نہیں کرتے


مشتاق در بھنگوی


عاصم قادری

 یوم پیدائش 04 فروری


گرچہ آنکھوں نے سب ہی بول دیا 

پھر بھی بہتر ہے اُن سے پوچھ میں لوں

عاصم قادری


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...