یوم پیدائش 06 فروری 1961
مری خود سے محبت بڑھ گئی ہے
بہت پنجرے سے وحشت بڑھ گئی ہے
ہیں میرے خواب سارے موم کے بت
مرے سورج تمازت بڑھ گئی ہے
ہمارے بیچ بیداری ہی غم تھی
بس اب نیندوں کی حاجت بڑھ گئی ہے
یہ کیا بازار کیسے لوگ یوسف
ادھر کیوں تیری رغبت بڑھ گئی ہے
سنائی دیتا ہے سب ان کہا بھی
تری دھن میں سماعت بڑھ گئی ہے
کبھی نیندوں سے میں وحشت زدہ تھی
پر اب خوابوں سے راحت بڑھ گئی ہے
میں بچنا چاہتی ہوں اپنی جاں سے
مری مجھ سے محبت بڑھ گئی ہے
نشہ سورج کو ہو جائے تو کیا ہو
مری حیرت پہ حیرت بڑھ گئی ہے
عذرا پروین