Urdu Deccan

Tuesday, February 8, 2022

بشرا رحمن

 إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعون

یوم وفات 07 فروری 2022


 سلگتی چاندنی راتیں ہمیں واپس عطا کر دو

ادھوری وہ ملاقاتیں ہمیں واپس عطا کر دو


خیال و خواب میں پہروں خیالِ یار کی مستی

وفورِ شوق کی باتیں ہمیں واپس عطا کر دو


خفا ہونا، بگڑنا، روٹھنا پھر بھی تڑپ اٹھنا

محبتوں کی وہ سوغاتیں ہمیں واپس عطا کر دو


ہر اک موسم کی چوکھٹ پر تمہاری آہٹیں سننا

وہ جلتے دن وہ نم راتیں ہمیں واپس عطا کر دو


ہمارے شہر کے ہر موڑ پر اک یاد بیٹھی ہے

نظاروں کی یہ برساتیں ہمیں واپس عطا کر دو


اگر کچھ دے نہیں سکتے تہی دامن تہی دل ہو

تو پھر وعدوں کی باراتیں ہمیں واپس عطا کر دو


مِرے سجدوں کی رعنائی محبت میں نہ کام آئی

معطر با وضو راتیں ہمیں واپس عطا کر دو


جنہیں انجام کار افسردہ و بے چین رہتا تھا

وہ وقتِ آرزو راتیں ہمیں واپس عطا کر دو


بشرا رحمن


فیض خلیل آبادی

 یوم پیدائش 08 فروری 1985


سلگتی دھوپ میں ہر سائبان دے چکا ہوں

میں اس زمیں کو کئی آسمان دے چکا ہوں


وه عشق کا ہو ترے یا تری جدائی کا

اسی حیات میں سب امتحان دے چکا ہوں


تو دلنشیں ہے وفادار ہے ذہین بھی ہے

مگر میں اور کسی کو زبان دے چکا ہوں


مری زبان پہ تالا لگانے والے سنیں

میں اپنی آنکھوں سے اپنا بیان دے چکا ہوں


وہ آدمی مجھے بے چینیاں پلا رہا ہے

جسے سکھوں کا میں سارا جہان دے چکا ہوں


مجھے وجود میں لایا جہاں کی مٹی نے

یہ مٹی میں اس مٹی کو دان دے چکا ہوں


مجھے وہ فیض بلائیں گے کس طرح آخر

وہ جن لبوں کو میں اپنے نشان دے چکا ہوں


فیض خلیل آبادی


سبین علی

 یوم پیدائش 08 فروری 1975

خواب کی شیلف پر دھری نظم


اگر سمندر مجھے راستہ دیتا 

تو سفر کرتی اس قندیل کے ساتھ 


جو شام کا ملگجا پھیلتے ہی 

ساحل پر روشن ہو جاتی ہے 

اڑتی ققنس کے ہم رکاب 

افق کی مسافتوں میں 

تیرتی مچھلیوں کے سنگ 

کھوجتی ریگ زاروں میں 

نیلگوں پانیوں کو 

سرمئی پہاڑوں میں 

جادوئی سرنگوں کو 

لیکن میرے سرہانے

آدھے پونے خواب پڑے ہیں 

اور میری شیلف پر دھرے ہیں 

کانچ کے نازک برتن 

سبزی کے چھلکے 

گھر کی دیواروں پر 

میرے بیٹے کی کھنچی لکیروں میں 

ان سنی کہانیاں ہیں 

جو مسکراتی کھلکھلاتی ہیں 

اور باتیں کرتی ہیں آنکھوں ہی آنکھوں میں 

وہ کہانیاں سنتی میں دفعتاً چونک جاتی ہوں 

ادھورے خواب بھی میرے 

کتنے شرمندۂ تعبیر ہوئے 

مگر پھر بھی ڈرتی ہوں 

کہ میری بیٹی 

آدھے خواب دیکھ کر 

انہیں ادھورا چھوڑ نہ دے 

بوند بوند دعا اترتی ہے 

دل کی زمیں پہ 

پہلی بارش کی مانند

اور سیلی مٹی سے شاخ در شاخ 

تمنائیں پھوٹ پڑتی ہیں 

سبین علی

شاد عارفی

 یوم وفات 08 فروری 1964


جذبۂ محبت کو تیر بے خطا پایا

میں نے جب اسے دیکھا دیکھتا ہوا پایا


جانتے ہو کیا پایا پوچھتے ہو کیا پایا

صبح دم دریچے میں ایک خط پڑا پایا


دیر میں پہنچنے پر بحث تو ہوئی لیکن

اس کی بے قراری کو حسب مدعا پایا


صبح تک مرے ہمراہ آنکھ بھی نہ جھپکائی

میں نے ہر ستارے کو درد آشنا پایا


گریۂ جدائی کو سہل جاننے والو

دل سے آنکھ کی جانب خون دوڑتا پایا


اہتمام پردہ نے کھول دیں نئی راہیں

وہ جہاں چھپا جا کر میرا سامنا پایا


دل کو موہ لیتی ہے دل کشیٔ نظارہ

آنکھ کی خطاؤں میں دل کو مبتلا پایا


رنگ لائی نا آخر ترک ناز برداری

ہاتھ جوڑ کر اس کو محو التجا پایا


شادؔ غیرممکن ہے شکوۂ بتاں مجھ سے

میں نے جس سے الفت کی اس کو باوفا پایا


شاد عارفی


اختر رومانی

 یوم وفات 07 فروری 2002


دیارِ غیر میں بہتر کی خواہشوں میں رہا

میں گھر سے دور رہا بس نمائشوں میں رہا


وہ شخص شام کو لوٹا تو ہاتھ خالی تھے

تلاشِ رزق کی دن بھر جو کوششوں میں رہا


بدل گیا نہ ہو دنیا کی طرح وہ بھی کہیں

میں ایک عمر سے گُم جس کی خواہشوں میں رہا


وہ وقت ہو کہ تِرا غم کہ زندگی اپنی

جو میرے ساتھ رہا آزمائشوں میں رہا


یہ میں نہیں مری تاریخ مجھ سے کہتی ہے

میرے خلاف مرا خون سازشوں میں رہا


لباس خود ہی بنا بے لباسیوں کا جواز

کبھی جو یار طرح دار بارشوں میں رہا


میں اپنا کھوج لگاتا تو کس طرح اختر

میں ماہ و سال کی ان دیکھی بندیشوں میں رہا


اختر رومانی


رضا جونپوری

 یوم وفات 07 فروری 2007


جینے کے طلب گار کو مرنے نہیں دیتا 

آئینہ اگر ان کو سنورنے نہیں دیتا

 

کیا دبدبہ حسن ہے کیا رعب جوانی 

چہرے پہ نگاہوں کو ٹھہرنے نہیں دیتا


یہ خوف کہ دنیا تجھے بدنام نہ کر دے

مجھ کو تری بستی سے گزرنے نہیں دیتا


کیا جانے کسے اپنا بنانے کا ارادہ 

پل بھر تری زلفوں کو بکھرنے نہیں دیتا


کابل بھی گیا ہاتھ سے بغداد بھی لیکن 

یہ وقت ہمیں آہ بھی بھرنے نہیں دیتا


گھر بیٹھے رضا خواب کسی تاج محل کا

انسان کو پستی سے ابھرنے نہیں دیتا


رضا جونپوری


احمد علی برقی اعظمی

 یاد رفتگاں: بیاد شہرہ آفاق فیلمی گلوکارہ و بلبل ہند لتا منگیشکر

تاریخ وفات06 فروری 2022


ہوگئیں رخصت لتا منگیشکر

ہے نہایت روح فرسا یہ خبر


لحن میں تھا اُن کے جو سوز و گداز

اُس سے کر لیتی تھیں سب کے دل میں گھر


اُن کی رحلت سے سبھی ہیں سوگوار

جن کے تھیں ٹوٹے دلوں کی چارہ گر


اپنی فلموں میں مَدُھر آواز سے

تھیں جہاں میں سب کی منظورِ نظر


تھیں وہ بھارت رتن سے بھی سرفراز

اِس حقیقت سے سبھی ہیں باخبر


دوسری ہوگی نہ اب کوئی لتا

کہہ رہے ہیں یہ سبھی با چشمِ تَر


جاری و ساری تھا جو تازندگی

ختم اُن کا ہو گیا علمی سفر


تھیں وہ برقی ؔ بلبلِ ہندوستاں 

فلمی دنیا میں سبھی ہیں نوحہ


گر


احمد علی برقیؔ اعظمی

عرفانہ امر

 یوم پیدائش 07 فروری 1959

منتخب اشعار


جیت لے جو بھی تجھے اس کا خسارا کیسا

کوئی دل ہار کے ہارا تو وہ ہارا کیسا


کچھ لوگ ہیں، مدت ہوئی دیکھے نہ ملے ہیں

کیا بات ہے، وہ دل سے نکالے نہیں جاتے


بہت دیا ہے خدا نے تری کمی ہے بہت

میں ہنس رہی ہوں مری آنکھ میں نمی ہے بہت


یہ اتفاق عجب ہے کہ نام تیرا ہے

وہ شخص اور ہے جس سے ہمیں محبت ہے


یہ کیا ہوا ہر اک نگاہ بے ثبات ہوگئی

کوئی تو چیز چھن گئی کوئی تو بات ہو گئی


اُس کی بے لوث محبت کا یقیں کیسے ہو

وہ ہے سادہ سا مگر پورا اداکار بھی ہے


جانتا کون ہے اس شخص کے اسرار خودی

جاں بھی پیاری ہے اسے، مرنے پہ تیار بھی ہے

عرفانہ امر


ابرار احمد

 یوم پیدائش 06 فروری 1954


اور کیا رہ گیا ہے ہونے کو

ایک آنسو نہیں ہے رونے کو


خواب اچھے رہیں گے ان دیکھے

خاک اچھی رہے گی سونے کو


تو کہیں بیٹھ اور حکم چلا

ہم جو ہیں تیرا بوجھ ڈھونے کو


چشم نم چار اشک اور ادھر

داغ اک رہ گیا ہے دھونے کو


بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی

کیا کریں اوڑھنے بچھونے کو


یہ مہ و سال چند باقی ہیں

اور کچھ بھی نہیں ہے کھونے کو


نارسائی کا رنج لائے ہیں

تیرے دل میں کہیں سمونے کو


آج کی رات جاگ لو یارو

وقت پھر حشر تک ہے سونے کو


یاد بھی تیری مٹ گئی دل سے

اور کیا رہ گیا ہے ہونے کو


ابرار احمد


تنہا تماپوری

 یوم پیدائش 06 فروری 1937


اسے جینے کا لالچ ہے نہ وہ مرنے سے ڈرتا ہے

تو کیا یہ شخص بھی گم نامیوں کی موت مرتا ہے


عجب ویرانیٔ دل ہے سسکتا ہے وہاں کوئی

اب ایسے بحر تنہائی سے وہ کس پار اترتا ہے


وہاں کس کی نظر جاتی ہے اک دو چار کانٹوں پر

جہاں اک پیڑ جو پھولوں کے گہنوں سے سنورتا ہے


حصار لمس کی لذت میں کھویا ہے بدن اس کا

یہ قیدی کیا کبھی اس جال سے بچ کر گزرتا ہے


عجب ہے ایک سنگ بے نوا سی دوستی اس کی

نہ یہ اس سے مکرتا ہے نہ وہ اس کو اکھرتا ہے


وہ برگ بے شجر اپنے قبیلے سے جدا ہو کر

ہواؤں کے تھپیڑوں سے لرزتا اور بکھرتا ہے


ابھی تک تو سگ اظہار وہ مجھ پر نہیں چھوڑا

مری آرائش گفتار کے نشتر سے ڈرتا ہے


یہ مشکل بات بھی لیکن بڑا آسان نسخہ بھی

نہیں نفرت کسی سے بھی سبھی سے پیار کرتا ہے


تنہا تماپوری


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...