Urdu Deccan

Monday, February 28, 2022

زبدہ خان

 یوم پیدائش 27 فروری


لے کے ملنے کی جستجو آ جا

بزمِ ہستی میں میری تُو آ جا


سب سے اپنے پرائے مل کے گئے 

اب مرے واسطے تو تُو آ جا 


اک زمانے سے زیرِ سایہِ ہجر

ہیں پریشان رنگ و بو آ جا


دل کی دنیا مری مقدس کر

میری آنکھوں میں باوضو آ جا


حسنِ جاناں کا آئینہ لے کر

میری صورت میں ہو بہو آجا


تھم نہ جائیں کہیں بہار کے رنگ

رک نہ جائے کہیں نمو آ جا


کتنا اصرار کر رہی ہے صبا

میری سانسیں ہیں مشکبو آ جا


شاعری اور حسنِ دنیا پر

کر لیں تھوڑی سی گفتگو آ جا


مجھ سے دنیا سوال کرتی ہے 

میری رکھنے کو آبرو آ جا 


یاد آتی ہے گفتگو زبدہ 

کب سے خاموش ہے سبو آ جا


زبدہ خان


غم ہی غم کے فقط فسانے ہیں

اب کہاں پیار کے زمانے ہیں


تم تو گھبرا گئے ابھی سے ہی

اور بھی امتحان آنے ہیں


سوچتا کیوں ہے کامیابی کی

سر ابھی کچھ کے اور جانے ہیں


یاد رکھنا تمہیں محبت میں

غم بھی دلدار کے اٹھانے ہیں


تو چلا آندھیاں مگر مجھ کو

دیپ الفت کے ہی جلانے ہیں


مری یادوں میں ایک دنیا ہے 

جس میں سب ہجر کے فسانے ہیں 


میں جہاں ہوں تو آ نہیں سکتا

غم کے اندر مرے ٹھکانے ہیں


وہ تو اب تک نہیں ملا زبدہ

اپنے دکھڑے جسے سنانے ہیں


زبدہ خان


سلیم فوز

 یوم پیدائش 27 فروری 1965


سکوت بڑھنے لگا ہے صدا ضروری ہے

کہ جیسے جسم میں تازہ ہوا ضروری ہے


پھر اس کے بعد ہر اک فیصلہ سر آنکھوں پر

مگر گواہ کا سچ بولنا ضروری ہے


بہت قریب سے کچھ بھی نہ دیکھ پاؤ گے

کہ دیکھنے کے لیے فاصلہ ضروری ہے


تم اپنے بارے میں مجھ سے بھی پوچھ سکتے ہو

یہ تم سے کس نے کہا آئنہ ضروری ہے


گریز پائی کے موسم عجیب ہوتے ہیں

سفر میں کوئی مزاج آشنا ضروری ہے


حوالہ مانگ رہا ہے مری محبت کا

جو فوزؔ مجھ سے یہ کہتا تھا کیا ضروری ہے


سلیم فوز


حیات لکھنوی

 یوم پیدائش 27 فروری 1931


یہ جذبۂ طلب تو مرا مر نہ جائے گا

تم بھی اگر ملوگے تو جی بھر نہ جائے گا


یہ التجا دعا یہ تمنا فضول ہے

سوکھی ندی کے پاس سمندر نہ جائے گا


جس زاویے سے چاہو مری سمت پھینک دو

مجھ سے ملے بغیر یہ پتھر نہ جائے گا


دم بھر کے واسطے ہیں بہاریں سمیٹ لو

ویرانیوں کو چھوڑ کے منظر نہ جائے گا


یوں خوش ہے اپنے گھر کی فضاؤں کو چھوڑ کر

جیسے وہ زندگی میں کبھی گھر نہ جائے گا


اس کو بلندیوں میں مسلسل اچھالیے

لیکن وہ اپنی سطح سے اوپر نہ جائے گا


شہر مراد مل بھی گیا اب تو کیا حیاتؔ

مایوسیوں کا دل سے کبھی ڈر نہ جائے گا


حیات لکھنوی


ظہیر الہ آبادی

 یوم پیدائش 25 فروری 


کئے ہو ہم پہ یقیں یار تم بھی پاگل ہو

ہماری زہرہ جبیں یار تم بھی پاگل ہو


مرے حصول کی اک آس لے کے بیٹھی ہو

مرا بھروسہ نہیں یار تم بھی پاگل ہو 


میں اپنے آپ کو مجنوں صفت سمجھتا تھا

مگر کہیں نہ کہیں یار تم بھی پاگل ہو


یہ گھر پہ آنے کی ضد چھوڑ دو خدا کے لئے

اے میرے قلب نشیں یار تم بھی پاگل ہو 


میں تم سے سچ ہے کہ پاکیزہ عشق کرتا ہوں 

اب آؤ میرے قریں یار تم بھی پاگل ہو 


جو بات تم سے کہی رات کے اندھیرے میں 

کسی سے کہتے نہیں یار تم بھی پاگل ہو


 ظہیر الہ آبادی


Friday, February 25, 2022

محمد دین فوق

 یوم پیدائش 25 فروری 1887


آہ کی جب نارسائی دیکھ لی

ہم نے قسمت کی برائی دیکھ لی


ان بتوں کے چہرۂ پر نور میں

ہم نے شان کبریائی دیکھ لی


آجتک دیکھا نہ اس بت کو جواب

دیکھ لی ساری خدائی دیکھ لی


چشم تر تونے ڈبویا ہے ہمیں

ہم نے تیری آشنائی دیکھ لی


کیا کیا؟ آخر سکندر سے سلوک

خضر تیری رہنمائی دیکھ لی


وعدہ فردہ قیامت ہو گیا

آپ کی وعدہ وفائی دیکھ لی


ہم کو اس نیرنگیء تقدیر نے

شکل جو جو کچھ دکھائی دیکھ لی


ظاہر! صوفی بنا باطن سیاہ

فوق تیری پارسائی دیکھ لی


محمد دین فوق


سلام سندیلوی

 یوم پیدائش 25 فروری 1919


بوئے گل باد صبا لائی بہت دیر کے بعد

میرے گلشن میں بہار آئی بہت دیر کے بعد


چھپ گیا چاند تو جلووں کی تمنا ابھری

آرزوؤں نے لی انگڑائی بہت دیر کے بعد


نرگسی آنکھوں میں یہ اشک ندامت توبہ

موج مے شیشوں میں لہرائی بہت دیر کے بعد


صحن گلشن میں حسیں پھول کھلے تھے کب سے

ہم ہوئے خود ہی تماشائی بہت دیر کے بعد


مہر و شبنم میں ملاقات ہوئی وقت سحر

زندگی موت سے ٹکرائی بہت دیر کے بعد


مئے گل بٹ گئی آسودہ لبوں میں پہلے

تشنہ کاموں میں شراب آئی بہت دیر کے بعد


ذہن بھٹکا کیا دشت غم دوراں میں سلامؔ

شب غم نیند مجھے آئی بہت دیر کے بعد


سلام سندیلوی


دائم بٹ

 یوم پیدائش 25 فروری 1975


جو خزاں میں شاملِ درد تھے انہی خشک پات سے بھی گیا 

مجھے صبحِ نو کی تلاش تھی میں اندھیری رات سے بھی گیا 


تجھے ساحلوں میں جو ڈھالتا جو بھنور سے مجھکو نکالتا 

مجھے وہ خدا بھی نہ مل سکا میں منات و لات سے بھی گیا 


بڑے خواب تھے مری آنکھ میں کہ میں ایک تھا کئی لاکھ میں 

مجھے بے زری یوں نگل گئی کہ میں معجزات سے بھی گیا 


مری عمربھر کا صلہ تھا تو بڑی مشکلوں سے ملا تھا تو 

تجھے ایک پل میں گنوا کے میں بھری کائنات سے بھی گیا 


تری جستجو کے سفر میں تھا میں نہ جانے کیسے نگر میں تھا 

کہیں دوجہان تھے ھم نفس کہیں اپنے ساتھ سے بھی گیا 


مرے دوستوں کی یہ چال ھے کہ مرے عدو کا کمال ھے 

میں سمندروں کا تھا ھم نشیں میں لبِ فرات سے بھی گیا 


 میں عبادتوں کا سرور تھا میں محبتوں کا غرور تھا 

 میں فنا کے دام میں آگیا میں بقائے ذات سے بھی گیا

 

 دائم بٹ


دانیال طریر

 یوم پیدائش 24 فروری 1980


پانی کے شیشوں میں رکھی جاتی ہے 

سندرتا جھیلوں میں رکھی جاتی ہے 


چھونے کو بڑھ جاتی ہے وہ موم بدن 

آگ کہاں پوروں میں رکھی جاتی ہے 


چاند ترے ماتھے سے اگتا ہے چندا 

رات مری آنکھوں میں رکھی جاتی ہے 


ہاتھوں میں ریکھائیں پیلے موسم کی 

سبز پری خوابوں میں رکھی جاتی ہے 


چھو لیتی ہے جو تیرے نازک پاؤں 

وہ مٹی گملوں میں رکھی جاتی ہے 


رنگ جدا کرنے کے لیے چشم و لب کے 

قوس قزح اندھوں میں رکھی جاتی ہے 


ایسے بھی آرائش ہوتی ہے گھر کی 

تنہائی کمروں میں رکھی جاتی ہے


دانیال طریر


حسن رشید

یوم پیدائش 23 فروری


رکھی ہے اک کتاب تخیل کی میز پر

جیسے ہو ماہتاب تخیل کی میز پر


سوچا تھا جوبھی سوچ کی چوکھٹ پہ رہ گیا

بکھرے پڑے ہیں خواب تخیل کی میز پر


کیف و سرور و جام و سبو اور بے خودی

ہر شے ہے دستیاب تخیل کی میز پر


دل میں ہے شوقِ وصل مگر وقت بھی نہیں

آ جا ئیے جناب تخیل کی میز پر


اس نے کیا سوال جہانِ گمان سے

میں نے دیا جواب تخیل کی میز پر


حسن رشید


زین شکیل

 یوم پیدائش 23 فروری


اپنے آنسو رول رہا تھا

وہ آنکھوں سے بول رہا تھا


تیرے بعد مرے کمرے میں

ماتم کا ماحول رہا تھا


ہم ہی چلنے سے عاری تھے

وہ تو رستے کھول رہا تھا


جان! تمہاری نگری اندر

میں کتنا بے مول رہا تھا


وہ بھی کیسے اپنی چُپ سے

میری چُپ کو تول رہا تھا


تم کتنے انمول ہوئے ہو

میں کتنا انمول رہا تھا


رات، مری بے چین آنکھوں میں

چاند اداسی گھول رہا تھا


یاد ہے؟ تیری خاطر میرے

ہاتھوں میں کشکول رہا تھا


زین شکیل


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...