Urdu Deccan

Wednesday, March 23, 2022

صابر آفاقی

 یوم پیدائش 09 مارچ 1923


کسی ظالم کی جیتے جی ثنا خوانی نہیں ہوگی

کہ دانا ہو کے مجھ سے ایسی نادانی نہیں ہوگی


عدو سے کیا گلہ کرنا کہ وہ معذور لگتا ہے

ہماری قدر و قیمت اس نے پہچانی نہیں ہوگی


نجومی میں نہیں لیکن یہ اندازے سے کہتا ہوں

محبت تو رہے گی پر یہ ارزانی نہیں ہوگی


علاج اصل ہے اک آزمودہ نسخہ دنیا میں

پریشاں تم رہو گے تو پریشانی نہیں ہوگی


کھلا دروازہ رکھ چھوڑا ہے جب جی چاہے آ جانا

اجی اب ہم سے اپنے گھر کی دربانی نہیں ہوگی


نہ تم آئے تو صابرؔ کیا مزہ آئے گا محفل میں

غزل خوانی تو ہوگی پر گل افشانی نہیں ہوگی


صابر آفاقی


نسیم شاہانہ سیمیں

 یوم پیدائش 08 مارچ


کسی کے خوف سے بتلاؤ کب رستہ بدلتی ہیں

گھٹائیں ہر کسی کے واسطے کھل کر برستی ہیں


ہوائیں سرحدوں کی قید سے آزاد ہوتی ہیں

یہی اِس پار چلتی ہیں یہی اُس پار چلتی ہیں


سبھی کے خون کا رنگ ایک ہے اس بات کو سمجھو

مٹا دو نفرتیں جو بھی تمھارے دل میں پلتی ہیں


خوشی میں سب لبوں پر ایک سی مسکان ہوتی ہے

دکھوں کے دور میں آنکھیں سبھی اشکوں سے بھرتی ہیں


مرے مولا کبھی ان کو قبولیت عطا کردے

دعائیں جو مرے ہونٹوں پہ ہر لمحہ مچلتی ہیں


نسیم شاہانہ سیمیں


منصور ذکی

 یوم پیدائش 08 مارچ 1982


دل کی ہلچل نے ہمیں چین سے سونے نہ دیا

غم سے غافل کسی ساعت کو بھی ہونے نہ دیا


اس نے اسباب رلانے کے جٹائے تو، مگر

ہائے! دنیا نے مجھے چھپ کے بھی رونے نہ دیا


غم کے اظہار سے اس بوجھ کو ہلکا نہ کیا

دکھ کا یہ بوجھ کسی اور کو ڈھونے نہ دیا


سبز باغ اس نے دکھائے تو بہت ہم کو، مگر

دل کو کیکر کوئی خوش فہمی کا بونے نہ دیا


غم الفت وہ عنایت ہے جو ہے جاں سے عزیز

یہ وہ تحفہ ہے کہ پاکر جسے کھونے نہ دیا


نیند سے آنکھ یوں بوجھل ہوئی منصور کی اب

یہ بھرم چور ہوا، غم نے تو سونے نہ دیا


منصور ذکی


نشتر خانقاہی

 یوم وفات 07 مارچ 2006


تعمیر ہم نے کی تھی ہمیں نے گرا دیے 

شب کو محل بنائے سویرے گرا دیے 


کمزور جو ہوئے ہوں وہ رشتے کسے عزیز 

پیلے پڑے تو شاخ نے پتے گرا دیے 


اب تک ہماری عمر کا بچپن نہیں گیا 

گھر سے چلے تھے جیب کے پیسے گرا دیے 


پتھر سے دل کی آگ سنبھالی نہیں گئی 

پہنچی ذرا سی چوٹ پتنگے گرا دیے 


برسوں ہوئے تھے جن کی تہیں کھولتے ہوئے 

اپنی نظر سے ہم نے وہ چہرے گرا دیے 


شہر طرب میں رات ہوا تیز تھی بہت 

کاندھوں سے مہ وشوں کے دوپٹے گرا دیے 


تاب نظر کو حوصلہ ملنا ہی تھا کبھی 

کیوں تم نے احتیاط میں پردے گرا دیے


نشتر خانقاہی


ضیاء زیدی

 یوم پیدائش 08 مارچ


سازشوں کے زاویئے میں آگئے

نام پھر کچھ سانحے میں آگئے 


خوش گمانی حیرتوں میں ڈھل گئی

عکسِ تازہ آئنے میں آ گئے 


اک تعلق کو نبھانے کے لیئے

بے بسی کے دائرے میں آ گئے 


خود سے ہی ہونے لگا ہے اختلاف

ہم ذرا کچھ ضابطے میں آ گئے 


یہ ہوا ہے آستیں کو جھاڑ کر

دشمنوں سے رابطے میں آ گئے


ہجر سے خوابوں کا رشتہ جوڑ کر

ہم مسلسل رتجگے میں آگئے 


اتنی امیدوں نے دفنایا ہمیں

خواہشوں کے مقبرے میں آگئے 


جل اٹھیں گے منزلوں کے سب چراغ 

جب ضیاء ہم راستے میں آگئے


ضیاء زیدی 


محسن کشمیری

 یوم پیدائش 08 مارچ


بس ایک مسافر کو ستاروں کا گماں ہے

اس کو ہے خبر کیا! یہ پتنگوں کا جہاں ہے


ہے چاک گریبان مرا یہ تو بتاؤ

اس شہرِ خراباں میں رفوگر کی دکاں ہے؟


آ دیکھ مری آنکھ سے آئے گا نظر سب

دنیا کی حقیقت تو محض ایک دھواں ہے


پر کیف نظاروں سے جہاں اس نے سجایا

پھر یہ بھی کہا ساتھ کہ عبرت کا مکاں ہے!


افسردہ چمن میں ہوں بھلا کیسی بہاریں

ہر پھول پہ گلشن کے مسلط جو خزاں ہے


میں درد پہ چیخوں یہ ضروری تو نہیں ہے

نادان! خموشی بھی تو اندازِ فغاں ہے


یونہی تو چراغوں پہ نہیں خوف ہے طاری

پیچیده ہوائیں کسی خطرے کا نشاں ہے


محسن کشمیری


امین جس پوری

 یوم وفات 07 مارچ 2022

انا الیہ وانا الیہ راجعون


بالیدگئِ جاں کو بھی موجِ صبا نہ مانگ

بیمار سارے شہر ہیں، تازہ ہوا نہ مانگ


ہر شخص ڈھل چکا ہے اب اعداد میں یہاں

اجداد کا اب ہم سے زمانے پتہ نہ مانگ


رفتار سے اب بھیڑ کی رستوں پہ بہنا سیکھ

اب سست ہم سفر سے کہیں راستا نہ مانگ


بیگانہ ہو چکی ہیں جو زیور سے شرم کے

ان شوخ تتلیوں کے پروں سے حیا نہ مانگ


ہر گز نہیں بدلتے مشیّت کے فیصلے

اللہ کی رضا کے سوا بھی دعا نہ مانگ


اس عکسِ آئینہ سے نہ کوئی امید رکھ

یہ ہے سرائے فانی یہاں آسرا نہ مانگ


اِس طنزیہ نمک کو دوائی سمجھ امینؔ

زخموں کے واسطے کوئی برگِ حنا نہ مانگ


امین جس پوری


محسن شکیل

 یوم پیدائش 07 مارچ


آگہی کب یہاں پلکوں پہ سہی جاتی ہے

بات یہ شدت گریہ سے کہی جاتی ہے


ہم اسے انفس و آفاق سے رکھتے ہیں پرے

شام کوئی جو ترے غم سے تہی جاتی ہے


اک ذرا ٹھہر ابھی مہلت بے نام و نشاں

درمیاں بات کوئی ہم سے رہی جاتی ہے


گرمیٔ شوق سے پگھلی ترے دیدار کی لو

تیز ہو کر مری آنکھوں سے بہی جاتی ہے


شاخ نازک سے دم تیز ہوائے فرقت

ناتوانی کہاں پتوں کی سہی جاتی ہے


حرف انکار لکھا جس پہ ہوا نے کل تک

رہ گزر دل کی طرف آج وہی جاتی ہے


جائے جاتی نہیں ظلمت مگر اکثر محسنؔ

اک دیا اس کی طرف ہو تو یہی جاتی ہے


محسن شکیل


سلطان احمد

 یوم پیدائش 06 مارچ 1947


ظالم وبا کے ظلم کے آثار دیکھیے

سونے پڑے ہیں شہر کے بازار دیکھیے


آفت کی اس گھڑی میں الٰہی یہ کیا ہوا

اچھے بھلے بھی لگتے ہیں بیمار دیکھیے


اس عالمِ وبا میں ہیں مجبور کس قدر

لگتے ہیں اجنبی سے ہمیں یار دیکھیے


محفوظ اب مکان میں رہنا نہیں نصیب

گرنے لگی ہیں ٹوٹ کے دیوار دیکھیے


اخلاق اور خلوص کی صورت بدل گئی

ملتا نہیں ہے کوئی مددگار دیکھیے


جب سے پڑے ہیں خوف کے تالے دماغ پر

آتے نہیں ہیں ڈھنگ کے اشعار دیکھیے


بیچارگی کی کیسی سناتی ہیں داستاں

گنگا میں بہتی لاشوں کے انبار دیکھیے


ساجد کسی کے مرنے کی ان کو خبر نہیں

کس شان سے یہ کہتی ہے سرکار دیکھیے


سلطان احمد خان


منزہ سحر

 یوم پیدائش 06 مارچ 1980


جب کوئی راستے بدلتا ہے

سوچ کے زاوئیے بدلتا ہے


درد پہلو میں چیختا ہے مگر

ہر گھڑی سلسلے بدلتا ہے


رتجگے ٹانکتا ہے آنکھوں میں

جب کوئی آئینے بدلتا ہے


میں ہوں موقوف ایک یاد پہ اور

چارہ گر حافظے بدلتا ہے


منزہ سحر


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...