Urdu Deccan

Sunday, March 27, 2022

رافت بہرائچ

 یوم وفات 27 مارچ 1961


بے پردہ تو جو جلوۂ جانانہ ہو گیا

حیراں تھا پہلے اب تو میں دیوانہ ہو گیا


دیرو حرم میں آپ کو دیکھ ا تھا جلوہ گر

کیا جانے کس طرف دل دیوانہ ہو گیا


اب تم ہو اور شمع بھی ہے کر لو فیصلہ

پروانہ کس کو دیکھ کے پروانہ ہو گیا


تیرے سوا کسی کے نہ آگے جھکے گا سر

میرا مزاج عشق میں شاہانہ ہو گیا


بیکار لوگ دیتے ہیں الزام کفر کا 

میں کچھ سمجھ کے ساکن بتخانہ ہو گیا


ہنس ہنس کے پائے یار پہ رافتؔ نے دیدی جان 

لو آج ختم عشق کا افسانہ ہو گیا


رافت بہرائچ



ارمان شام نگری

 یوم پیدائش 27 مارچ 1925


اک شورِ حشر سن مرے دل کی پکار میں

نغمے نہ ڈھونڈ بربطِ ہستی کے تار میں


ارمان شام نگری



فہیم جوگاپوری

 یوم پیدائش 27 مارچ 1956


کیا کوئی تصویر بن سکتی ہے صورت کے بغیر 

پھر کسی سے کیوں ملے کوئی ضرورت کے بغیر 


دشمنی تو چاہنے کی انتہا کا نام ہے 

یہ کہانی بھی ادھوری ہے محبت کے بغیر 


تیری یادیں ہو گئیں جیسے مقدس آیتیں 

چین آتا ہی نہیں دل کو تلاوت کے بغیر 


دھوپ کی ہر سانس گنتے شام تک جو آ گئے 

چھاؤں میں وہ کیا جئیں جینے کی عادت کے بغیر 


بچ گیا دامن اگر میرے لہو کے داغ سے 

وہ مرا قاتل تو مر جائے گا شہرت کے بغیر 


اس کی سرداری سے اب انکار کرنا چاہیے 

روشنی دیتا نہیں سورج سیاست کے بغیر 


حسن کی دوکان ہو کہ عشق کا بازار ہو 

یاں کوئی سودا نہیں ہے دل کی دولت کے بغیر 


شبنمی چہرہ چھپاؤں کیسے بچوں سے فہیمؔ 

شام آتی ہی نہیں گھر میں طہارت کے بغیر


فہیم جوگاپوری


نواب کلب علی خان

 یوم وفات 23 مارچ 1887


افشاں چمک کے زلف دوتا ہی میں رہ گئی

کچھ روشنی سی ہو کے سیاہی میں رہ گئی


سمجھوں گا تجھ سے روز قیامت میں اے جنوں

گر کوئی بات میری تباہی میں رہ گئی


آئیں ہزارہا شب ہجراں میں آفتیں

پر صبح اس کی علم الٰہی میں رہ گئی


آ ہی چکی تھی اس کی ادا سے بلا مگر

کچھ شرم کھا کے شوخ نگاہی میں رہ گئی


نوابؔ اپنے دل کو میں کیوں کر نکالتا

کنگھی الجھ کے زلف رسا ہی میں رہ گئی


نواب کلب علی خان


بشیر مہتاب

 یوم پیدائش 15 مارچ


جب سے مرے رقیب کا رستہ بدل گیا

تب سے مرے نصیب کا نقشہ بدل گیا 


شیریں تھا کتنا آپ کا انداز گفتگو 

دو چار سکے آتے ہی لہجہ بدل گیا 


کس کی زبان سے مجھے دیکھو خبر مجھے 

کیسے مرے حریف کا چہرہ بدل گیا 


ان کے بدلنے کا مجھے افسوس کچھ نہیں 

افسوس یہ ہے اپنا ہی سایہ بدل گیا 


جب سے بڑوں کی گھر سے حکومت چلی گئی 

جنت نما مکان کا نقشہ بدل گیا 


راہوں کی خاک چھانتا پھرتا ہوں آج تک 

رہبر بدل گیا کبھی رستہ بدل گیا 


کہتا ہے اس کے جانے سے کچھ بھی نہیں ہوا 

مہتابؔ جبکہ دل کا وہ ڈھانچہ بدل گیا


بشیر مہتاب


سراج اورنگ آبادی

 یوم پیدائش 11 مارچ 1712


فدا کر جان اگر جانی یہی ہے

ارے دل وقت بے جانی یہی ہے


یہی قبر زلیخا سیں ہے آواز

اگر ہے یوسف ثانی یہی ہے


نہیں بجھتی ہے پیاس آنسو سیں لیکن

کریں کیا اب تو یاں پانی یہی ہے


کسی عاشق کے مرنے کا نہیں ترس

مگر یاں کی مسلمانی یہی ہے


برہ کا جان کندن ہے نپٹ سخت

شتاب آ مشکل آسانی یہی ہے


پرو تار پلک میں دانۂ اشک

کہ تسبیح سلیمانی یہی ہے


مجھے ظالم نے گریاں دیکھ بولا

کہ اس عالم میں طوفانی یہی ہے


زمیں پر یار کا نقش کف پا

ہمارا خط پیشانی یہی ہے


وو زلف پر شکن لگتی نہیں ہات

مجھے ساری پریشانی یہی ہے


نہ پھرنا جان دینا اس گلی میں

دل بے جان کی بانی یہی ہے


کیا روشن چراغ دل کوں میرے

سراجؔ اب فضل رحمانی یہی ہے


سراج اورنگ آبادی


Friday, March 25, 2022

رجب علی بیگ سرور

یوم وفات 25 مارچ 1869

اس طرح آہ کل ہم اس انجمن سے نکلے 
فصل بہار میں جوں بلبل چمن سے نکلے 

آتی لپٹ ہے جیسی اس زلف عنبریں سے 
کیا تاب ہے جو وہ بو مشک ختن سے نکلے 

تم کو نہ ایک پر بھی رحم آہ شب کو آیا 
کیا کیا ہی آہ و نالے اپنے دہن سے نکلے 

اب ہے دعا یہ اپنی ہر شام ہر سحر کو 
یا وہ بدن سے لپٹے یا جان تن سے نکلے 

تو جانیو مقرر اس کو سرورؔ عاشق 
کچھ درد کی سی حالت جس کے سخن سے نکلے 

رجب علی بیگ سرور



راز چاندپوری

 یوم پیدائش 25 مارچ 1892


پچھتانے سے کیا حاصل پچھتانے سے کیا ہوگا

کچھ تو نے کیا ہوگا کچھ تجھ سے ہوا ہوگا


جینے کا مزہ جب ہے جینے کا ہو کچھ حاصل

یوں لاکھ جئے کوئی تو جینے سے کیا ہوگا


پرسش کی نہیں حاجت پرسش کی ضرورت کیا

معلوم ہے سب تجھ کو جو کچھ بھی ہوا ہوگا


جب تک ہے خودی دل میں ہوگی نہ پذیرائی

بیکار ہیں یہ سجدے ان سجدوں سے کیا ہوگا


جیسی بھی گزرتی ہے اے رازؔ گزرتی ہے

آغاز محبت ہے انجام میں کیا ہوگا


راز چاندپوری



شاکر ندیم

 یوم پیدائش 24 مارچ 1952


رو پڑی ہے روشنی کی ایک نازک سی کرن

میری کھڑکی کے شکستہ کانچ سے گزری ہے جب


شاکر ندیم



مختار شمیم

 یوم پیدائش 23 مارچ 1944


خود اپنے آپ کو دھوکا دیا ہے

ہمارے ساتھ یہ اکثر ہوا ہے


یہ مجھ سے زندگی جو مانگتا ہے

نہ جانے کون یہ مجھ میں چھپا ہے


یہی میری شکستوں کا صلا ہے

کوئی میرے بدن میں ٹوٹتا ہے


کتاب گل کا رنگیں ہر ورق ہے

تمہارا نام کس نے لکھ دیا ہے


صلیب وقت پہ تنہا کھڑا ہوں

یہ سارا شہر مجھ پر ہنس رہا ہے


کبھی نیند آ گئی دیوانگی کو

کبھی صحرا بھی تھک کر سو گیا ہے


شمیمؔ اک برگ آوارہ تھا جامیؔ

خلاؤں میں کہیں اب کھو گیا ہے


مختار شمیم


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...