Urdu Deccan

Thursday, April 14, 2022

محمد نعیم اللہ خیالی

 یوم پیدائش 15 اپریل 1920


ستم کی تیغ چلی تیر بھی جفا کے چلے 

جو بات حق تھی سر دار ہم سنا کے چلے 


کچھ ایسی دور نہ تھیں منزلیں محبت کی 

وفور شوق میں ہم فاصلے بڑھا کے چلے 


جو آب و دانہ چمن سے اٹھا چمن والو 

ہر اک شاخ پہ ہم آشیاں بنا کے چلے 


اٹھے تو محفل رنداں سے تشنہ کام مگر 

قدم قدم پہ ہم ایک مے کدہ بنا کے چلے 


سلگ سلگ کے رہے جو دیا بجھا نہ سکے 

گئے تو جاتے ہوئے آگ وہ لگا کے چلے 


خیالیؔ شعر ہے کیا یہ تو اہل فن جانیں 

ہم اپنے دل کی بہ شکل غزل سنا کے چلے


محمد نعیم اللہ خیالی


ریشمہ زیدی

 یوم پیدائش 15 اپریل


حالات کے ماروں سے یوں موجِ بلا الجھے

جیسے کہ چراغوں سے رہ رہ کے ہوا الجھے


کچھ نظمِ چمن بدلے ہنگامہ بھی ہو برپا

گر شعلہ بیانوں سے بے بس کی صدا الجھے


خوشبو ہو فضاؤں میں خوش رنگ نظارے ہوں

دامانِ گلِ تر سے جب بادِ صبا الجھے


ہر شام اٹھاتی ہے سر تیرہ شبی اپنا

ہر رات اندھیرے سے شمعوں کی ضیا الجھے


یوں حرف نہ آجائے گلشن میں بہاروں پر

اب اور نہ پھولوں سے کانٹوں کی ردا الجھے۔


کیا ہوگا ذرا سوچو *ریشم* سرِ محفل جب

خود دار طبیعت سے گیسوۓ انا الجھے


ریشمہ زیدی



زبیر رضوی

 یوم پیدائش 15 اپریل 1935


بچھڑتے دامنوں میں پھول کی کچھ پتیاں رکھ دو

تعلق کی گرانباری میں تھوڑی نرمیاں رکھ دو


بھٹک جاتی ہیں تم سے دور چہروں کے تعاقب میں

جو تم چاہو مری آنکھوں پہ اپنی انگلیاں رکھ دو


برستے بادلوں سے گھر کا آنگن ڈوب تو جائے

ابھی کچھ دیر کاغذ کی بنی یہ کشتیاں رکھ دو


دھواں سگرٹ کا بوتل کا نشہ سب دشمن جاں ہیں

کوئی کہتا ہے اپنے ہاتھ سے یہ تلخیاں رکھ دو


بہت اچھا ہے یارو محفلوں میں ٹوٹ کر ملنا

کوئی بڑھتی ہوئی دوری بھی اپنے درمیاں رکھ دو


نقوش خال و خد میں دل نوازی کی ادا کم ہے

حجاب آمیز آنکھوں میں بھی تھوڑی شوخیاں رکھ دو


ہمیں پر ختم کیوں ہو داستان خانہ ویرانی

جو گھر صحرا نظر آئے تو اس میں بجلیاں رکھ دو


زبیر رضوی


ساجد امجد

 یوم پیدائش 14 اپریل 1949


شکستہ دل تھے ترا اعتبار کیا کرتے 

جو اعتبار بھی کرتے تو پیار کیا کرتے 


ذرا سی دیر کو بیٹھے تھے پھر اٹھا نہ گیا 

شجر ہی ایسا تھا وہ سایہ دار کیا کرتے 


شب انتظار میں دن یاد یار میں کاٹے 

اب اور عزت لیل و نہار کیا کرتے 


کبھی قدم سفر شوق میں رکے ہی نہیں 

تو سنگ میل بھلا ہم شمار کیا کرتے 


ستم شناس محبت تو جاں پہ کھیل گئے 

نشانۂ ستم روزگار کیا کرتے 


ہماری آنکھ میں آنسو نہ اس کے لب پہ ہنسی 

خیال خاطر ابر بہار کیا کرتے 


وہ ناپسند تھا لیکن اسے بھلایا نہیں 

جو بات بس میں نہ تھی اختیار کیا کرتے 


درون خانۂ دل کیسا شور ہے ساجدؔ 

ہمیں خبر تھی مگر آشکار کیا کرتے


ساجد امجد



شاھین کاظمی

 یوم پیدائش 14 اپریل


جب سے پلٹا تھا تُو من میں رنجش لیے

 دل سلگتا رہا ایک تابش لیے


کھا گئی لفظ لہجے کی تلخی مگر

معنی بیٹھے رہے بس گزارش لیے


آنکھ دامن میں بھر کے مناظر سبھی

 چل پڑی ساتھ صدیوں کی بارش لیے


رات بہتی رہی پھر اُفق تا اُفق

اِک مرادوں بھرے دن کی خواہش لیے


وقت کا دائرہ ٹوٹتا ہی نہیں

لمحہ لمحہ، نئی آزمائش لیے


شاھین کاظمی


میتالی راج تیواری

 یوم پیدائش 11 اپریل 1995


مکمل موت سے پہلے مرا تم خواب ہو جاؤ 

مری آنکھوں کے کوروں پر ٹھہرتا آب ہو جاؤ 


تمہیں بس دیکھنے بھر کو جگر چوکھٹ پہ رکھنا ہو 

اجازت رب سے لینی ہو یوں تم نایاب ہو جاؤ 


کوئی دیکھے نہیں تم کو کوئی چھو بھی نہیں پائے 

مرے سینے میں چھپ جاؤ مرا گرداب ہو جاؤ  


مرا آغاز ہو تم سے تمہیں پر ختم ہوؤں میں 

محبت کے صحیفے میں وفا کا باب ہو جاؤ


میتالی راج تیواری


شبنم عشائی

 یوم پیدائش 12 اپریل 1962


نظم زندگی کی سگریٹ 


تمہارے ساتھ پینے کی خاطر 

میں نے اپنے سوچنے کی صلاحیت 

تمہارے نام کر دی تھی 

اور وہ تمام مکھوٹے 

تمہارے کمرے میں سجا دئے تھے 

جنہیں تم نے عمر بھر 

شکار کیا تھا 

میں اپنی ساری خوشبوئیں 

خرچ کر کے 

تمہارا پورا درد خرید رہی تھی 

لیکن تم نے آنکھوں پر ہی نہیں 

دماغ پر بھی پٹی باندھ رکھی تھی 

سڑک حادثے کے بعد 

میرا پلستر چڑھتے سمے 

جو تم نے ایک لمحے کو 

اپنی آنکھوں کی پٹی کھول دی تھی 

تمہارا سر جھک گیا تھا 

مجھے معلوم تھا میں تمہیں کھو دوں گی 

جو کھو جاتا ہے 

اس کے کھونے کا افسوس گانٹھ بن جاتا ہے 

میں اگرچہ ہل نہیں سکتی تھی 

سوچنے سے محروم نہیں تھی 

اور دنیا سوچنے سے عبارت ہے 

میری آنکھیں سوج گئی تھیں بند نہیں تھیں 

اور کانوں میں وہ سب آوازیں آ رہی تھیں 

جب تم میرے حافظے کے مفلوج ہو جانے کا اعلان کر رہے تھے 

میں دیکھ رہی تھی 

لوگ تمہاری طرف متوجہ ہوئے تھے 

لیکن تمہارے دماغ پہ لگائی ہوئی پٹی 

سب کو نظر آ گئی تھی 

تم جان لو کہ دنیا سوچنے سے عبارت ہے 

اب زندگی کی سگریٹ صرف میں پیوں گی 

اور تم سگریٹ کی راکھ کی طرح 

میری انگلیوں سے جھڑتے رہوگے 


 


شبنم عشائی

ممتاز عزیز نازاں

 یوم پیدائش 11 اپریل 1964


تا عمر سفر کر کے یہ ہم نے کمایا ہے

دو قطرے ہیں شبنم کے اک دھوپ کا ٹکڑا ہے


بخشے ہیں مقدر نے ہم کو جو ستارے دو

اک مہر کا پرتو ہے اک چاند کا سایا ہے


الفت ہو کہ نفرت ہو تصویر کے دو رخ ہیں

دم توڑتی الفت نے نفرت کو جگایا ہے


خوشیاں نہ سہی غم ہی اپنا ہی تھا کہنے کو

اب یہ بھی بھرم ٹوٹا صحرا ہے نہ سایا ہے


ممتاز عزیز نازاں



معین گریڈ یہوی

 یوم پیدائش 12اپریل 1969


بنائےہرطرف ایسی فضا دیکھو

ہونفرت کی محبت ہی دوا دیکھو


اکیلے گھر سے نہ نکلا کرو تم

بہت بگڑی ہے دنیا کی ہوا دیکھو


کسی کو پوچھنے والا نہیں کوئی

زمانہ ہو گیا کتنا برا دیکھو


عدالت سے رہائی پاگیا ظالم

یہاں مظلوم سولی پر چڑھا دیکھو


کبھی پردیس میں بھوکا نہیں سویا

رہی شامل مری ماں کی دعاء دیکھو


یہ میرے عہد کا بیٹا ارے بابا

کہے وہ ماں کو بڑھیا‘ بے حیا دیکھو


وطن کے واسطے میں سر کٹا دوں گا

جہاں والو! یہ میرا حوصلہ دیکھو


کدھر اخلاق ملت ڈھونڈھتے ہو تم

’’ادھر آؤ فریب ارتقاء دیکھو


محبت پیار کی باتیں نہیں چھیڑو

مجھے چھوڑو جی کوئی دوسرا دیکھو


معین گریڈ یہوی




غنی غیور

 یوم پیدائش 12 اپریل 1962


باغی حدود سے بہت آگے نکل گئے 

سورج چھوا نہ تھا کہ مرے ہاتھ جل گئے 


یہ حیرتوں کے بیچ میں حیرت زدہ نقوش 

کیسے تماشبین تھے پتھر میں ڈھل گئے 


جذبات میں کچھ اس طرح اس کا بدن تھا سرخ 

زنجیر آہنی کے کڑے ہی پگھل گئے 


بگلوں سے ان کے روپ بھگت بن کے آئے کچھ 

مکھی کو یار چھوڑ کے ہاتھی نگل گئے 


ٹیلے سے قہقہوں کی پھواروں میں تھے غنیؔ 

تیر ایک آنکھ والے اچانک اچھل گئے


غنی غیور۔ 




محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...