Urdu Deccan

Friday, April 29, 2022

اے ڈی اظہر

 یوم پیدائش 18 اپریل 1900


اب نہ ہم چھوڑ کے جائیں گے تمہیں

اب تو سب دل کی بتائیں گے تمہیں


آج کی رات تو جی بھر کے ملو

پھر تو ہم یاد نہ آئیں گے تمہیں


کیسے گزرے گی تمہیں کیا معلوم؟

پاس جب اپنے نہ پائیں گے تمہیں


چھوڑ جاتے ہو جسے ویرانہ 

پھر اسی دل میں بسائیں گے تمہیں


کبھی فرصت جو ملے ، آجانا

قصہ درد سنائیں گے تمہیں


ہجر میں اور کریں گے ہم کیا؟

دل سے ہر لحظہ بھلائیں گے تمہیں


کاش ! وہ بھی تو کہیں مجھ سے کبھی

روٹھ جاؤ تو منائیں گے تمہیں


اپنے دل میں ہے بہت کچھ اظہر

یاد آ لے ، تو جتائیں گے تمہیں


اے ڈی اظہر


ندا فاضلی

 نزدیکیوں میں دور کا منظر تلاش کر

جو ہاتھ میں نہیں ہے وہ پتھر تلاش کر


سورج کے ارد گرد بھٹکنے سے فائدہ

دریا ہوا ہے گم تو سمندر تلاش کر


تاریخ میں محل بھی ہے حاکم بھی تخت بھی

گمنام جو ہوئے ہیں وہ لشکر تلاش کر


رہتا نہیں ہے کچھ بھی یہاں ایک سا سدا

دروازہ گھر کا کھول کے پھر گھر تلاش کر


کوشش بھی کر امید بھی رکھ راستہ بھی چن

پھر اس کے بعد تھوڑا مقدر تلاش کر


ندا فاضلی



قادر صدیقی

 پیدائش 1923


بیکار بھی اس دور میں بیکار نہیں ہے

دیوانہ ہے وہ کون جو ہشیار نہیں ہے


اس دور ترقی پہ بہت ناز نہ کیجے

اس دور میں سب کچھ ہے مگر پیار نہیں ہے


ہر چیز کی بہتات ہے اس دور میں لیکن

وہ چیز جسے کہتے ہیں کردار نہیں ہے


اس بات پہ ناراض ہیں نا خوش ہیں کھنچے ہیں

وہ بات کہ جس بات کا اظہار نہیں ہے


یہ بات ہے کچھ اور کہ دل زخمی ہے اس کا

صورت سے تو قادرؔ ترا بیمار نہیں ہے


قادر صدیقی



شفقت حیات

 اک مسلسل ہجر ہر پل ساتھ رہتا ہے مرے

جو جدا ہوتا نہیں وہ ہمسفر رکھتی ہوں میں


شفقت حیات


 #اردودکن #urdudeccan

وقاص احمد

 یوم پیدائش 16 اپریل 1996


دکھوں سے بڑھ کہ مجھے آنسوؤں کا رونا ہے

کہ آمدن سے زیادہ تو میرا خرچہ ہے


میں بے ارادہ کہیں اٹھ کے دوڑ پڑتا ہوں 

مرا وجود بھی شاید کسی کا سایہ ہے


ہمارے بیچ ہے پوجا سے تھوڑا کم شاید

ہمارے بیچ محبت سے کچھ زیادہ ہے


ہماری آنکھ میں ٹوٹا ہے بارہا اک خواب

ہماری آنکھ میں آنسو نہیں ہیں ملبہ ہے


یہ جسم خاک سے تعمیر کی گئی اک قبر

جو آئینے میں نظر آ رہا ہے کتبہ ہے


وقاص احمد


توحید زیب

 یوم پیدائش 16 اپریل 1999


زبان بند تھی پر ذہن منخسف نہیں تھا

یہی زمانہ تھا انسان منکشف نہیں تھا


کسی وجود نے توصیف فکر میں ڈالی

وگرنہ اس کا کوئی پختہ معترف نہیں تھا


نئی خزاں نے جگہ لے لی تھی گذشتہ کی

تمہارا غم غمِ دنیا سے مختلف نہیں تھا


یہ کائنات تضادات کا شکار ہوئی

ازل سے دیکھیں تو یہ دہر منخسف نہیں تھا


جو روبرو بھی تھا یکسر نہاں بھی رہتا تھا

خدا کے بعد کوئی ایسا منکشف نہیں تھا


مزاج مذہبی اور سوچ غیر مذہبی تھی

قدیم شخص سمجھدار معتکف نہیں تھا


توحید زیب



Friday, April 15, 2022

فرتاش سید

 یوم پیدائش 15 اپریل 1967


برسرِ کوچہء اغیار اٹھا لائے ہیں

یہ کہاں مجھ کو مرے یار اٹھا لائے ہیں


آپ پر وار ہوئے، میں نےوہ سینے پہ لیے

اور اب آپ بھی تلوار اٹھا لائے ہیں


ان کے اسلوبِ فضیلت سے پتا چلتا ہے

یہ کسی اور کی دستار اٹھا لائے ہیں


جب کھلا نامہء اعمال ، تو ہم پر یہ کھلا

جو اٹھا لائے ہیں بے کار اٹھا لائے ہیں


ریت میں پھول کھلانا ہمیں آتا ہے ، سو ہم

عرصہء دشت میں گھر بار اٹھا لائے 


اک ذرا سا بھی نہیں بارِ ندامت دل پر

زر نہیں ، دولتِ کردار اٹھا لائے ہیں


میں نہ یوسف ہوں، نہ سجاد ہوں فرتاش یہ لوگ

کیوں مجھے برسرِبازار اٹھا لائے ہیں


فرتاش سید



Thursday, April 14, 2022

محمد نعیم اللہ خیالی

 یوم پیدائش 15 اپریل 1920


ستم کی تیغ چلی تیر بھی جفا کے چلے 

جو بات حق تھی سر دار ہم سنا کے چلے 


کچھ ایسی دور نہ تھیں منزلیں محبت کی 

وفور شوق میں ہم فاصلے بڑھا کے چلے 


جو آب و دانہ چمن سے اٹھا چمن والو 

ہر اک شاخ پہ ہم آشیاں بنا کے چلے 


اٹھے تو محفل رنداں سے تشنہ کام مگر 

قدم قدم پہ ہم ایک مے کدہ بنا کے چلے 


سلگ سلگ کے رہے جو دیا بجھا نہ سکے 

گئے تو جاتے ہوئے آگ وہ لگا کے چلے 


خیالیؔ شعر ہے کیا یہ تو اہل فن جانیں 

ہم اپنے دل کی بہ شکل غزل سنا کے چلے


محمد نعیم اللہ خیالی


ریشمہ زیدی

 یوم پیدائش 15 اپریل


حالات کے ماروں سے یوں موجِ بلا الجھے

جیسے کہ چراغوں سے رہ رہ کے ہوا الجھے


کچھ نظمِ چمن بدلے ہنگامہ بھی ہو برپا

گر شعلہ بیانوں سے بے بس کی صدا الجھے


خوشبو ہو فضاؤں میں خوش رنگ نظارے ہوں

دامانِ گلِ تر سے جب بادِ صبا الجھے


ہر شام اٹھاتی ہے سر تیرہ شبی اپنا

ہر رات اندھیرے سے شمعوں کی ضیا الجھے


یوں حرف نہ آجائے گلشن میں بہاروں پر

اب اور نہ پھولوں سے کانٹوں کی ردا الجھے۔


کیا ہوگا ذرا سوچو *ریشم* سرِ محفل جب

خود دار طبیعت سے گیسوۓ انا الجھے


ریشمہ زیدی



زبیر رضوی

 یوم پیدائش 15 اپریل 1935


بچھڑتے دامنوں میں پھول کی کچھ پتیاں رکھ دو

تعلق کی گرانباری میں تھوڑی نرمیاں رکھ دو


بھٹک جاتی ہیں تم سے دور چہروں کے تعاقب میں

جو تم چاہو مری آنکھوں پہ اپنی انگلیاں رکھ دو


برستے بادلوں سے گھر کا آنگن ڈوب تو جائے

ابھی کچھ دیر کاغذ کی بنی یہ کشتیاں رکھ دو


دھواں سگرٹ کا بوتل کا نشہ سب دشمن جاں ہیں

کوئی کہتا ہے اپنے ہاتھ سے یہ تلخیاں رکھ دو


بہت اچھا ہے یارو محفلوں میں ٹوٹ کر ملنا

کوئی بڑھتی ہوئی دوری بھی اپنے درمیاں رکھ دو


نقوش خال و خد میں دل نوازی کی ادا کم ہے

حجاب آمیز آنکھوں میں بھی تھوڑی شوخیاں رکھ دو


ہمیں پر ختم کیوں ہو داستان خانہ ویرانی

جو گھر صحرا نظر آئے تو اس میں بجلیاں رکھ دو


زبیر رضوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...