Urdu Deccan

Friday, April 29, 2022

فہیم الدین احمد فہیم

 یوم پیدائش 19 اپریل 1877


یوں کہنے کو خنجر کو بھی خنجر ہی کہیں گے 

پر کیا تیرے ابرو کے برابر ہی کہیں گے

 

زاہد جو مزا مے میں یہاں پوچھ نہ ہم سے 

کہنا ہے جو کچھ وہ لب کوثر ہی کہیں گے

 

مانا نہ کریں وعدہ ہمیں بھی تو کہیں وہ 

گر کچھ نہیں حال دل مضطر ہی کہیں گے

 

سننے کی کوئی حد بھی ہے ہاں پوچھتے کیوں ہو 

ہم حال بھی اپنا سر محشر ہی کہیں گے

 

دو لفظوں میں کیوں کر ہو نہ سننا ہے نہ سنئے 

ہم کہنے کو بیٹھیں گے تو دفتر ہی کہیں گے

 

سننے کو تو کیا جانئے کیا کیا نہ سنیں گے 

کہنے کو تو حال دل مضطر ہی کہیں گے

 

اس میں تری مژگاں ہو کہ ہو گوشہ ابرو 

چبھ جائے جو دل میں اسے نشتر ہی کہیں گے

 

یوں کام کئے اس نے ہزاروں ہمیں کیا کام 

ہم آئنہ سازیٔ سکندر ہی کہیں گے 


تم نے بھی تو دیکھا ہے فہیمؔ اس کو کہو نہ 

ہم اپنی سی کہنے کو برابر ہی کہیں گے


فہیم الدین احمد فہیم



احمد علی برقیؔ اعظمی

 یاد رفتگا ں: بیاد بیدار مغزناول نگار مشرف عالم ذوقی مرحوم   پہلی برسی کی مناسبت سے

تاریخ وفات:  ۱۹ اپریل ۲۰۲۱


ایم اے ذوقی عہد حاضر کے تھے وہ ناول نگار

جن کی تخلیقات ہیں عصری ادب کا شاہکار


ایم اے ذوقی کا تھا معیاری ادیبوں میں شمار

ہر نئی تخلیق کا رہتا تھا سب کو انتظار


ذوقی تھے عصری ادب کی شخصیت اک عبقری

اردودنیا جن کے رحلت سے ہے ہر سو سوگوار


ان کی ادبی شخصیت تھی نازشِ برِصغیر

جتنے دانشور ہیں ان کے غم میں ہیں وہ دلفگار


اُن کی ہر تخلیق ہے آئینۂ نقد و نظر

ابن آدم کا عیاں ہے جس سے ذہنی انتشار


عہد حاضر میں تھے عصری آگہی کے وہ نقیب

درد کا رشتہ ہے اُن کے فکروفن سے آشکار


نبضِ دوراں پر نہایت سخت تھی ان کی گرفت

بحر ذخار ادب کی تھے وہ دُرِ شاہوار


سب کے ہیں ورد زباں اُن کے نقوش جاوداں 

گلشن اردو میں ان کی ذات تھی مثلِ بہار


اجتماعی زندگی کے ترجماں تھے اس لئے

عہد حاضر میں تھے وہ ناول نگاری کا وقار


لے لی کورونا وائرس نے آج برقیؔ ان کی جان

جن کے اقصائے جہاں میں قدرداں تھے بیشمار


احمد علی برقیؔ اعظمی


یاد رفتگاں بیاد ممتاز تخلیق کار مرحومہ تبسم فاطمہ شریک حیات مشرف عالم ذوقی مرحوم جو ان کے انتقال کے  فورا بعد ہی اس جہان فانی سے رخصت ہوگئیں


ایم اے ذوقی کی تبسم فاطمہ تھیں اہلیہ 

دونوں کے تھا درمیاں اک رشتہ مہر و وفا


دونوں تھے عہد رواں کی شخصیت  اک عبقری

ان  میں تھا یک جاان و دو قالب کا باھم رابطہ


دونوں کی تخلیق میں یکساں تھی عصری حسیت

ہوگئے کورونا کے وہ مہلک مرض میں مبتلا


ذوقی کی رحلت کا تھا ان پر اثر اتنا شدید

جان لیوا ہوگیا ان کے لئے یہ سانحہ


اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی محبت کی مثال

ان کے جاتے ہی جہاں سے  ہوگئیں وہ بھی جدا


جاتے ہی ان کے تبسم فاطمہ بھی چل بسیں

اس خبر سے ادبی دنیا میں تھے سب حیرت زدہ


جنت الفردوس میں درجات ہوں ان کے بلند

دونوں پر نازل وہاں ہوں رحمت و فضل خدا


ان کے غم میں ہیں سبھی اہل قلم برقی شریک

صدمہ جانکاہ ہے سب کے لئے یہ حادثہ


احمد علی برقیؔ اعظمی



رؤف رضا

 یوم پیدائش 18 اپریل 1954


قریب بھی تو نہیں ہو کہ آ کے سو جاؤ 

ستاروں جاؤ کہیں اور جا کے سو جاؤ 


تھکن ضروری نہیں رات بھی ضروری نہیں 

کوئی حسین بہانہ بنا کے سو جاؤ 


کہانیاں تھی وہ راتیں کہانیاں تھے وو لوگ 

چراغ گل کرو اور بجھ بجھا کے سو جاؤ 


طریقِ کار بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا 

جو دور ہے اسے نزدیک لا کے سو جاؤ 


خسارے جتنے ہوئے ہیں وہ جاگنے سے ہوئے 

سو ہر طرف سے صدا ہے کے جا کے سو جاؤ 


یہ کار شعر بھی اک کار خیر جیسا ہے 

کے طاق طاق جلو لو بڑھا کے سو جاؤ 


اداس رہنے کی عادت بہت بری ہے تمہیں 

لطیفے یاد کرو ہنس ہنسا کے سو جاؤ


رؤف رضا



اے ڈی اظہر

 یوم پیدائش 18 اپریل 1900


اب نہ ہم چھوڑ کے جائیں گے تمہیں

اب تو سب دل کی بتائیں گے تمہیں


آج کی رات تو جی بھر کے ملو

پھر تو ہم یاد نہ آئیں گے تمہیں


کیسے گزرے گی تمہیں کیا معلوم؟

پاس جب اپنے نہ پائیں گے تمہیں


چھوڑ جاتے ہو جسے ویرانہ 

پھر اسی دل میں بسائیں گے تمہیں


کبھی فرصت جو ملے ، آجانا

قصہ درد سنائیں گے تمہیں


ہجر میں اور کریں گے ہم کیا؟

دل سے ہر لحظہ بھلائیں گے تمہیں


کاش ! وہ بھی تو کہیں مجھ سے کبھی

روٹھ جاؤ تو منائیں گے تمہیں


اپنے دل میں ہے بہت کچھ اظہر

یاد آ لے ، تو جتائیں گے تمہیں


اے ڈی اظہر


ندا فاضلی

 نزدیکیوں میں دور کا منظر تلاش کر

جو ہاتھ میں نہیں ہے وہ پتھر تلاش کر


سورج کے ارد گرد بھٹکنے سے فائدہ

دریا ہوا ہے گم تو سمندر تلاش کر


تاریخ میں محل بھی ہے حاکم بھی تخت بھی

گمنام جو ہوئے ہیں وہ لشکر تلاش کر


رہتا نہیں ہے کچھ بھی یہاں ایک سا سدا

دروازہ گھر کا کھول کے پھر گھر تلاش کر


کوشش بھی کر امید بھی رکھ راستہ بھی چن

پھر اس کے بعد تھوڑا مقدر تلاش کر


ندا فاضلی



قادر صدیقی

 پیدائش 1923


بیکار بھی اس دور میں بیکار نہیں ہے

دیوانہ ہے وہ کون جو ہشیار نہیں ہے


اس دور ترقی پہ بہت ناز نہ کیجے

اس دور میں سب کچھ ہے مگر پیار نہیں ہے


ہر چیز کی بہتات ہے اس دور میں لیکن

وہ چیز جسے کہتے ہیں کردار نہیں ہے


اس بات پہ ناراض ہیں نا خوش ہیں کھنچے ہیں

وہ بات کہ جس بات کا اظہار نہیں ہے


یہ بات ہے کچھ اور کہ دل زخمی ہے اس کا

صورت سے تو قادرؔ ترا بیمار نہیں ہے


قادر صدیقی



شفقت حیات

 اک مسلسل ہجر ہر پل ساتھ رہتا ہے مرے

جو جدا ہوتا نہیں وہ ہمسفر رکھتی ہوں میں


شفقت حیات


 #اردودکن #urdudeccan

وقاص احمد

 یوم پیدائش 16 اپریل 1996


دکھوں سے بڑھ کہ مجھے آنسوؤں کا رونا ہے

کہ آمدن سے زیادہ تو میرا خرچہ ہے


میں بے ارادہ کہیں اٹھ کے دوڑ پڑتا ہوں 

مرا وجود بھی شاید کسی کا سایہ ہے


ہمارے بیچ ہے پوجا سے تھوڑا کم شاید

ہمارے بیچ محبت سے کچھ زیادہ ہے


ہماری آنکھ میں ٹوٹا ہے بارہا اک خواب

ہماری آنکھ میں آنسو نہیں ہیں ملبہ ہے


یہ جسم خاک سے تعمیر کی گئی اک قبر

جو آئینے میں نظر آ رہا ہے کتبہ ہے


وقاص احمد


توحید زیب

 یوم پیدائش 16 اپریل 1999


زبان بند تھی پر ذہن منخسف نہیں تھا

یہی زمانہ تھا انسان منکشف نہیں تھا


کسی وجود نے توصیف فکر میں ڈالی

وگرنہ اس کا کوئی پختہ معترف نہیں تھا


نئی خزاں نے جگہ لے لی تھی گذشتہ کی

تمہارا غم غمِ دنیا سے مختلف نہیں تھا


یہ کائنات تضادات کا شکار ہوئی

ازل سے دیکھیں تو یہ دہر منخسف نہیں تھا


جو روبرو بھی تھا یکسر نہاں بھی رہتا تھا

خدا کے بعد کوئی ایسا منکشف نہیں تھا


مزاج مذہبی اور سوچ غیر مذہبی تھی

قدیم شخص سمجھدار معتکف نہیں تھا


توحید زیب



Friday, April 15, 2022

فرتاش سید

 یوم پیدائش 15 اپریل 1967


برسرِ کوچہء اغیار اٹھا لائے ہیں

یہ کہاں مجھ کو مرے یار اٹھا لائے ہیں


آپ پر وار ہوئے، میں نےوہ سینے پہ لیے

اور اب آپ بھی تلوار اٹھا لائے ہیں


ان کے اسلوبِ فضیلت سے پتا چلتا ہے

یہ کسی اور کی دستار اٹھا لائے ہیں


جب کھلا نامہء اعمال ، تو ہم پر یہ کھلا

جو اٹھا لائے ہیں بے کار اٹھا لائے ہیں


ریت میں پھول کھلانا ہمیں آتا ہے ، سو ہم

عرصہء دشت میں گھر بار اٹھا لائے 


اک ذرا سا بھی نہیں بارِ ندامت دل پر

زر نہیں ، دولتِ کردار اٹھا لائے ہیں


میں نہ یوسف ہوں، نہ سجاد ہوں فرتاش یہ لوگ

کیوں مجھے برسرِبازار اٹھا لائے ہیں


فرتاش سید



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...