Urdu Deccan

Friday, April 29, 2022

فاطر فریاد

 یوم پیدائش 25 اپریل


تیرا شانہ جو مجھ کو مل جائے

گریہ زاری کا زخم سِل جائے 


سن کے بیٹھا ہوں تجھ سے جو باتیں

آسماں بھی سنے تو ہِل جائے 


ہاتھ جو تم چھڑائے بیٹھے ہو

دل پہ رکھوں نہ گر تو دل جائے 


بند کرواو کوئے جاناں کو

شاد جو آئے مضمحل جائے 


ہاں اگر ہو تمہارے کمرے میں

خشک گملے میں پھول کھل جائے


فاطر فریاد



ممتاز راشد

 یوم وفات 23 اپریل 2022

انا الیہ وانا الیہ راجعون


رنگ الفاظ کا الفاظ سے گہرا چاہوں 

بات کرنے کے لیے اپنا ہی لہجہ چاہوں 


ہے تھکن ایسی مرا پار اترنا ہے محال 

تشنگی وہ ہے کہ بہتا ہوا دریا چاہوں 


کم نظر ہے جو کرے تیری ستائش محدود 

تو وہ شہکار ہے میں جس کو سراپا چاہوں 


تجھ پہ روشن مرے حالات کی زنجیریں ہیں 

روک لینا جو کبھی تجھ سے بچھڑنا چاہوں 


مفلسی لاکھ سہی دولت نایاب ہے یہ 

میں ترے غم کے عوض کیوں غم دنیا چاہوں 


غم ہے سناٹوں میں قدموں کے نشاں تک راشدؔ 

وہ اندھیرا ہے کہ دیواروں سے رستا چاہوں


ممتاز راشد



روبینہ رانیؔ

 یوم پیدائش 23 اپریل


کھلنے لگے اس دل میں گلاب اور زیادہ 

آتے ہیں مجھے تیرے ہی خواب اور زیادہ


میں نے تو محبت سے نوازا ہے سبھی کو 

دنیا نے دئیے مجھ کو عذاب اور زیادہ


امکان ہے جل جائے نہ اب میرا مکاں بھی

گرتے ہیں زمیں پر یہ شہاب اور زیادہ


پھوٹے نہ کہیں دل سے کوئی خون کا دھارا 

بپھرا ہے مرے دل کا چناب اور زیادہ


اک بار جو نفرت کا لیا نام کسی نے 

میں نے پڑھے الفت کے نصاب اور زیادہ


میں نے تو کبھی درد سے شکوہ نہ کیا تھا 

لیتا رہا کیوں درد حساب اور زیادہ


اس پیاس کو کیسے بھلا سمجھاؤں میں رانی 

صحرا نے دکھانے ہیں سراب اور زیادہ


روبینہ رانیؔ



اِمتیاز انجم

 یوم پیدائش 20 اپریل 2000


جو بات جتائی ہے جتانے کی نہیں تھی 

پھر بات ہماری تھی زمانے کی نہیں تھی


ہر بات ہر اک شخص سمجھ ہی نہیں سکتا 

ہر نظم سرِ بزم سنانے کی نہیں تھی


نقشہ بھی تھا رستہ بھی تھا ہمت بھی تھی لیکن

کنجی ہی مرے پاس خزانے کی نہیں تھی


تھا تیرا تبسّم ہی مری جان قیامت

لیکن جو تری مجھ کو ستانے کی "نہیں" تھی 


کیا جانیے کیا بات تھی اس شخص کے دل میں

یہ بات تو کچھ ایسی رلانے کی نہیں تھی 


آج اس کی صدا پر کوئی لبّیک نہ بولا

وہ جس کی نہیں ایک زمانے کی "نہیں" تھی


جو زخم لگایا ہے لگانے کا نہیں تھا 

جو تیغ چلائی ہے چلانے کی نہیں تھی


جو دل میں بسایا ہے بسانے کا نہیں تھا 

جو آگ لگائی ہے لگانے کی نہیں تھی


کرنے سے کوئی کام بھی ہو سکتا ہے لیکن

نیت ہی مری اس کو بھلانے کی نہیں تھی

 

جاتے ہوئے اس نے بھی پلٹ کر نہیں دیکھا 

خو میری بھی آواز لگانے کی نہیں تھی


اِمتیاز انجم



شہناز نبی

 یوم پیدائش 20 اپریل


ہوا سرکش اندھیرا سخت جاں ہے 

چراغوں کو مگر کیا کیا گماں ہے 


یقیں تو جوڑ دیتا ہے دلوں کو 

کوئی شے اور اپنے درمیاں ہے 


ابھی سے کیوں لہو رونے لگی آنکھ 

پس منظر بھی کوئی امتحاں ہے 


وہی بے فیض راتوں کا تسلسل 

وہی میں اور وہی خواب گراں ہے 


مرے اندر ہے اک پیاسا کنارہ 

مرے اطراف اک دریا رواں ہے 


شہناز نبی



عالم تاب تشنہ

 یوم پیدائش 20 اپریل 1935


وہ کہ ہر عہد محبت سے مکرتا جائے 

دل وہ ظالم کہ اسی شخص پہ مرتا جائے 


میرے پہلو میں وہ آیا بھی تو خوشبو کی طرح 

میں اسے جتنا سمیٹوں وہ بکھرتا جائے 


کھلتے جائیں جو ترے بند قبا زلف کے ساتھ 

رنگ پیراہن شب اور نکھرتا جائے 


عشق کی نرم نگاہی سے حنا ہوں رخسار 

حسن وہ حسن جو دیکھے سے نکھرتا جائے 


کیوں نہ ہم اس کو دل و جان سے چاہیں تشنہؔ 

وہ جو اک دشمن جاں پیار بھی کرتا جائے


عالم تاب تشنہ



شمسؔ ذبیحی بنارسی

 یوم پیدائش 15 اپریل 1923

شب قدر


مومنوں آئی ہے قسمت سے مناجات کی رات

ہو مبارک ہے شبِ قدر عبادات کی رات


جس نے بخشی ہے سلام اور تحیات کی رات

بھیجو کثرت سے درود اس پہ ہے صلوۃ کی رات


دیکھو انوارِ الہی کی تجلی ہر سو

لائی ہے نور ہی نور اہلِ سماوات کی رات


لطف معراج کا لے لو بخدا سجدے میں

 کی ہے ﷲ نے مخصوص ملاقات کی رات


قدر والے ہی شبِ قدر کی کرتے ہیں قدر

سونے کا نام نہیں جاگتے ہیں رات کی رات


خوابِ غفلت میں گنواتی ہے دن اپنا اُمّت

آقاﷺ سوئے نہیں اُمّت کے لیے رات کی رات


اے مرے دوستو تم ذکرِ الٰہی کے سوا

اور باتیں نہ کرو آج نہیں بات کی رات


حتی الامکان دل و جان سے تم قدر کرو

قابلِ قدر ہے یہ تحفہ و سوغات کی رات


شمسؔ ہوتی ہے میسّر اسی خوش قسمت کو

جسکی تقدیر میں ہے فضل و کمالات کی رات


 شمسؔ ذبیحی بنارسی



فہیم الدین احمد فہیم

 یوم پیدائش 19 اپریل 1877


یوں کہنے کو خنجر کو بھی خنجر ہی کہیں گے 

پر کیا تیرے ابرو کے برابر ہی کہیں گے

 

زاہد جو مزا مے میں یہاں پوچھ نہ ہم سے 

کہنا ہے جو کچھ وہ لب کوثر ہی کہیں گے

 

مانا نہ کریں وعدہ ہمیں بھی تو کہیں وہ 

گر کچھ نہیں حال دل مضطر ہی کہیں گے

 

سننے کی کوئی حد بھی ہے ہاں پوچھتے کیوں ہو 

ہم حال بھی اپنا سر محشر ہی کہیں گے

 

دو لفظوں میں کیوں کر ہو نہ سننا ہے نہ سنئے 

ہم کہنے کو بیٹھیں گے تو دفتر ہی کہیں گے

 

سننے کو تو کیا جانئے کیا کیا نہ سنیں گے 

کہنے کو تو حال دل مضطر ہی کہیں گے

 

اس میں تری مژگاں ہو کہ ہو گوشہ ابرو 

چبھ جائے جو دل میں اسے نشتر ہی کہیں گے

 

یوں کام کئے اس نے ہزاروں ہمیں کیا کام 

ہم آئنہ سازیٔ سکندر ہی کہیں گے 


تم نے بھی تو دیکھا ہے فہیمؔ اس کو کہو نہ 

ہم اپنی سی کہنے کو برابر ہی کہیں گے


فہیم الدین احمد فہیم



احمد علی برقیؔ اعظمی

 یاد رفتگا ں: بیاد بیدار مغزناول نگار مشرف عالم ذوقی مرحوم   پہلی برسی کی مناسبت سے

تاریخ وفات:  ۱۹ اپریل ۲۰۲۱


ایم اے ذوقی عہد حاضر کے تھے وہ ناول نگار

جن کی تخلیقات ہیں عصری ادب کا شاہکار


ایم اے ذوقی کا تھا معیاری ادیبوں میں شمار

ہر نئی تخلیق کا رہتا تھا سب کو انتظار


ذوقی تھے عصری ادب کی شخصیت اک عبقری

اردودنیا جن کے رحلت سے ہے ہر سو سوگوار


ان کی ادبی شخصیت تھی نازشِ برِصغیر

جتنے دانشور ہیں ان کے غم میں ہیں وہ دلفگار


اُن کی ہر تخلیق ہے آئینۂ نقد و نظر

ابن آدم کا عیاں ہے جس سے ذہنی انتشار


عہد حاضر میں تھے عصری آگہی کے وہ نقیب

درد کا رشتہ ہے اُن کے فکروفن سے آشکار


نبضِ دوراں پر نہایت سخت تھی ان کی گرفت

بحر ذخار ادب کی تھے وہ دُرِ شاہوار


سب کے ہیں ورد زباں اُن کے نقوش جاوداں 

گلشن اردو میں ان کی ذات تھی مثلِ بہار


اجتماعی زندگی کے ترجماں تھے اس لئے

عہد حاضر میں تھے وہ ناول نگاری کا وقار


لے لی کورونا وائرس نے آج برقیؔ ان کی جان

جن کے اقصائے جہاں میں قدرداں تھے بیشمار


احمد علی برقیؔ اعظمی


یاد رفتگاں بیاد ممتاز تخلیق کار مرحومہ تبسم فاطمہ شریک حیات مشرف عالم ذوقی مرحوم جو ان کے انتقال کے  فورا بعد ہی اس جہان فانی سے رخصت ہوگئیں


ایم اے ذوقی کی تبسم فاطمہ تھیں اہلیہ 

دونوں کے تھا درمیاں اک رشتہ مہر و وفا


دونوں تھے عہد رواں کی شخصیت  اک عبقری

ان  میں تھا یک جاان و دو قالب کا باھم رابطہ


دونوں کی تخلیق میں یکساں تھی عصری حسیت

ہوگئے کورونا کے وہ مہلک مرض میں مبتلا


ذوقی کی رحلت کا تھا ان پر اثر اتنا شدید

جان لیوا ہوگیا ان کے لئے یہ سانحہ


اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی محبت کی مثال

ان کے جاتے ہی جہاں سے  ہوگئیں وہ بھی جدا


جاتے ہی ان کے تبسم فاطمہ بھی چل بسیں

اس خبر سے ادبی دنیا میں تھے سب حیرت زدہ


جنت الفردوس میں درجات ہوں ان کے بلند

دونوں پر نازل وہاں ہوں رحمت و فضل خدا


ان کے غم میں ہیں سبھی اہل قلم برقی شریک

صدمہ جانکاہ ہے سب کے لئے یہ حادثہ


احمد علی برقیؔ اعظمی



رؤف رضا

 یوم پیدائش 18 اپریل 1954


قریب بھی تو نہیں ہو کہ آ کے سو جاؤ 

ستاروں جاؤ کہیں اور جا کے سو جاؤ 


تھکن ضروری نہیں رات بھی ضروری نہیں 

کوئی حسین بہانہ بنا کے سو جاؤ 


کہانیاں تھی وہ راتیں کہانیاں تھے وو لوگ 

چراغ گل کرو اور بجھ بجھا کے سو جاؤ 


طریقِ کار بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا 

جو دور ہے اسے نزدیک لا کے سو جاؤ 


خسارے جتنے ہوئے ہیں وہ جاگنے سے ہوئے 

سو ہر طرف سے صدا ہے کے جا کے سو جاؤ 


یہ کار شعر بھی اک کار خیر جیسا ہے 

کے طاق طاق جلو لو بڑھا کے سو جاؤ 


اداس رہنے کی عادت بہت بری ہے تمہیں 

لطیفے یاد کرو ہنس ہنسا کے سو جاؤ


رؤف رضا



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...