Urdu Deccan

Friday, April 29, 2022

عشرت رومانی

 یوم وفات 25 اپریل 2021


طلوع صبح تاباں کی جبیں سے

یہ کس کا خون رستا ہے زمیں سے


تری یادوں کی شبنم ضو فشاں ہے

نظر آتے ہیں جگنو شہ نشیں سے


کوئی سورج مرے دل میں اتارو

بنے جاتے ہیں رستے سرمگیں سے


کوئی مانوس خوشبو بس گئی ہے

چلے آتے ہیں جھونکے عنبریں سے


تری قربت کی گرمی کہہ رہی ہے

بکھرنے کو ہیں لمحے آتشیں سے


مرے سپنے مری آنکھیں بھی لے لو

مگر جاناں مجھے دیکھو کہیں سے


جہاں جلتی ہیں یادوں کی چتائیں

پکارا ہے ہمیں اس نے وہیں سے


عشرت رومانی



محب وفا

 یوم پیدائش 26 اپریل 1984


ہجر ہے یاس ہے وحشت کا سماں ہے میں ہوں 

عمر ٹھہرے ہوئے موسم میں رواں ہے میں ہوں 


میرے دامن میں جو گنجینۂ گل ہے تو ہے 

تیرے دامن میں جو اک برگ خزاں ہے میں ہوں 


از زمیں تا بہ فلک رات کا سناٹا ہے 

ایسے عالم میں جو یہ شور فغاں ہے میں ہوں 


دیکھ ہجراں میں خیالات پریشاں کا فسوں 

جا بجا عکس ترا رقص کناں ہے میں ہوں 


طاق ہر شام پہ جلتی ہوئی امید ہے تو 

یہ جو بجھتی ہوئی حسرت کا دھواں ہے میں ہوں 


چشم صد ناز ہے پیکان ستم ہے تو ہے 

اور اک زخم جگر جان ستاں ہے میں ہوں 


برف جذبات کی پگھلی ہے مری حدت سے 

اندروں تیرے جو اک شعلہ فشاں ہے میں ہوں


محب وفا



رفیق رافع

 یوم پیدائش 25 اپریل


ملنے جب جب بھی ان سے جاتے ہیں

دل وہیں اپنا چھوڑ آتے ہیں


ہم نے سیکھا ہے بارہا ان سے

سانحے کچھ نہ کچھ سکھاتے ہیں


تھام لو دل کہ آپ کو اپنی

دکھ بھری داستاں سناتے ہیں


یار ہم بعد میں ہی سوتے ہیں

پہلے بستر پہ غم بچھاتے ہیں


یہ جو ہنستے دکھائی دیتے ہیں

درحقیقت یہ دکھ چھپاتے ہیں


اک قیامت سی ٹوٹ پڑتی ہے

رخ سے آنچل وہ کیا ہٹاتے ہیں


کیا کہا وہ یہاں پہ آئیں گے

رک زرا ہم سنور کے آتے ہیں


رفیق رافع



فاطر فریاد

 یوم پیدائش 25 اپریل


تیرا شانہ جو مجھ کو مل جائے

گریہ زاری کا زخم سِل جائے 


سن کے بیٹھا ہوں تجھ سے جو باتیں

آسماں بھی سنے تو ہِل جائے 


ہاتھ جو تم چھڑائے بیٹھے ہو

دل پہ رکھوں نہ گر تو دل جائے 


بند کرواو کوئے جاناں کو

شاد جو آئے مضمحل جائے 


ہاں اگر ہو تمہارے کمرے میں

خشک گملے میں پھول کھل جائے


فاطر فریاد



ممتاز راشد

 یوم وفات 23 اپریل 2022

انا الیہ وانا الیہ راجعون


رنگ الفاظ کا الفاظ سے گہرا چاہوں 

بات کرنے کے لیے اپنا ہی لہجہ چاہوں 


ہے تھکن ایسی مرا پار اترنا ہے محال 

تشنگی وہ ہے کہ بہتا ہوا دریا چاہوں 


کم نظر ہے جو کرے تیری ستائش محدود 

تو وہ شہکار ہے میں جس کو سراپا چاہوں 


تجھ پہ روشن مرے حالات کی زنجیریں ہیں 

روک لینا جو کبھی تجھ سے بچھڑنا چاہوں 


مفلسی لاکھ سہی دولت نایاب ہے یہ 

میں ترے غم کے عوض کیوں غم دنیا چاہوں 


غم ہے سناٹوں میں قدموں کے نشاں تک راشدؔ 

وہ اندھیرا ہے کہ دیواروں سے رستا چاہوں


ممتاز راشد



روبینہ رانیؔ

 یوم پیدائش 23 اپریل


کھلنے لگے اس دل میں گلاب اور زیادہ 

آتے ہیں مجھے تیرے ہی خواب اور زیادہ


میں نے تو محبت سے نوازا ہے سبھی کو 

دنیا نے دئیے مجھ کو عذاب اور زیادہ


امکان ہے جل جائے نہ اب میرا مکاں بھی

گرتے ہیں زمیں پر یہ شہاب اور زیادہ


پھوٹے نہ کہیں دل سے کوئی خون کا دھارا 

بپھرا ہے مرے دل کا چناب اور زیادہ


اک بار جو نفرت کا لیا نام کسی نے 

میں نے پڑھے الفت کے نصاب اور زیادہ


میں نے تو کبھی درد سے شکوہ نہ کیا تھا 

لیتا رہا کیوں درد حساب اور زیادہ


اس پیاس کو کیسے بھلا سمجھاؤں میں رانی 

صحرا نے دکھانے ہیں سراب اور زیادہ


روبینہ رانیؔ



اِمتیاز انجم

 یوم پیدائش 20 اپریل 2000


جو بات جتائی ہے جتانے کی نہیں تھی 

پھر بات ہماری تھی زمانے کی نہیں تھی


ہر بات ہر اک شخص سمجھ ہی نہیں سکتا 

ہر نظم سرِ بزم سنانے کی نہیں تھی


نقشہ بھی تھا رستہ بھی تھا ہمت بھی تھی لیکن

کنجی ہی مرے پاس خزانے کی نہیں تھی


تھا تیرا تبسّم ہی مری جان قیامت

لیکن جو تری مجھ کو ستانے کی "نہیں" تھی 


کیا جانیے کیا بات تھی اس شخص کے دل میں

یہ بات تو کچھ ایسی رلانے کی نہیں تھی 


آج اس کی صدا پر کوئی لبّیک نہ بولا

وہ جس کی نہیں ایک زمانے کی "نہیں" تھی


جو زخم لگایا ہے لگانے کا نہیں تھا 

جو تیغ چلائی ہے چلانے کی نہیں تھی


جو دل میں بسایا ہے بسانے کا نہیں تھا 

جو آگ لگائی ہے لگانے کی نہیں تھی


کرنے سے کوئی کام بھی ہو سکتا ہے لیکن

نیت ہی مری اس کو بھلانے کی نہیں تھی

 

جاتے ہوئے اس نے بھی پلٹ کر نہیں دیکھا 

خو میری بھی آواز لگانے کی نہیں تھی


اِمتیاز انجم



شہناز نبی

 یوم پیدائش 20 اپریل


ہوا سرکش اندھیرا سخت جاں ہے 

چراغوں کو مگر کیا کیا گماں ہے 


یقیں تو جوڑ دیتا ہے دلوں کو 

کوئی شے اور اپنے درمیاں ہے 


ابھی سے کیوں لہو رونے لگی آنکھ 

پس منظر بھی کوئی امتحاں ہے 


وہی بے فیض راتوں کا تسلسل 

وہی میں اور وہی خواب گراں ہے 


مرے اندر ہے اک پیاسا کنارہ 

مرے اطراف اک دریا رواں ہے 


شہناز نبی



عالم تاب تشنہ

 یوم پیدائش 20 اپریل 1935


وہ کہ ہر عہد محبت سے مکرتا جائے 

دل وہ ظالم کہ اسی شخص پہ مرتا جائے 


میرے پہلو میں وہ آیا بھی تو خوشبو کی طرح 

میں اسے جتنا سمیٹوں وہ بکھرتا جائے 


کھلتے جائیں جو ترے بند قبا زلف کے ساتھ 

رنگ پیراہن شب اور نکھرتا جائے 


عشق کی نرم نگاہی سے حنا ہوں رخسار 

حسن وہ حسن جو دیکھے سے نکھرتا جائے 


کیوں نہ ہم اس کو دل و جان سے چاہیں تشنہؔ 

وہ جو اک دشمن جاں پیار بھی کرتا جائے


عالم تاب تشنہ



شمسؔ ذبیحی بنارسی

 یوم پیدائش 15 اپریل 1923

شب قدر


مومنوں آئی ہے قسمت سے مناجات کی رات

ہو مبارک ہے شبِ قدر عبادات کی رات


جس نے بخشی ہے سلام اور تحیات کی رات

بھیجو کثرت سے درود اس پہ ہے صلوۃ کی رات


دیکھو انوارِ الہی کی تجلی ہر سو

لائی ہے نور ہی نور اہلِ سماوات کی رات


لطف معراج کا لے لو بخدا سجدے میں

 کی ہے ﷲ نے مخصوص ملاقات کی رات


قدر والے ہی شبِ قدر کی کرتے ہیں قدر

سونے کا نام نہیں جاگتے ہیں رات کی رات


خوابِ غفلت میں گنواتی ہے دن اپنا اُمّت

آقاﷺ سوئے نہیں اُمّت کے لیے رات کی رات


اے مرے دوستو تم ذکرِ الٰہی کے سوا

اور باتیں نہ کرو آج نہیں بات کی رات


حتی الامکان دل و جان سے تم قدر کرو

قابلِ قدر ہے یہ تحفہ و سوغات کی رات


شمسؔ ہوتی ہے میسّر اسی خوش قسمت کو

جسکی تقدیر میں ہے فضل و کمالات کی رات


 شمسؔ ذبیحی بنارسی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...