Urdu Deccan

Friday, May 13, 2022

شاہد فروغی

 یوم پیدائش 03 مئی 1962


ملا وہ راہ میں کل مجھ سے اجنبی کی طرح

جو میرے دل میں تھا ہر لمحہ زندگی کی طرح


صلہ تو پیار کا ہم نے کسی سے چاہا نہیں

خلوص اپنا لٹایا ہے چاندنی کی طرح


امیر تم ہو تو بندہ بھی ایک شاعر ہے

ادب سے بات کرو مجھ سے آدمی کی طرح


بیان کیسے ہو خوبی اب اس کے پیکر کی

جو انجمن میں ہماری تھا روشنی کی طرح


پرکھ ہی لیتے ہیں عیب و ہنر کو چہرے سے

نگاہ رکھتے ہیں کچھ ہم بھی جوہری کی طرح


وہ یاد رکھیں گے ہر بات عمر بھر دل سے

ہے دوستی کہاں شاہد کی دوستی کی طرح


شاہد فروغی



خواہ مخواہ حیدرآبادی

 یوم وفات 02 مئی 2017


لمحوں میں زندگی کا سفر یوں گزر گیا 

سائے میں جیسے کوئی مسافر ٹھہر گیا 


مخمور تھا نشے میں غم روزگار کے 

ہوش آ گیا تو عمر کا پیمانہ بھر گیا 


دولت بھی اس کے ہاتھ نہ آئی تمام عمر 

کچھ نام ہی نہ اپنا زمانے میں کر گیا 


سب اس کے خیر خواہ بلندی پہ رہ گئے 

شہرت کی سیڑھیوں سے وہ نیچے اتر گیا 


موقعہ پرست آب و ہوا میں نہ جی سکا 

اپنی انا کی قید میں جاں سے گزر گیا 


موت اس کی ساری مشکلیں آسان کر گئی 

اک بوجھ زندگی کا تھا سر سے اتر گیا 


خواہ مخواہ حیدرآبادی 



بدر الحسن بدر

 یوم پیدائش 02 مئی 1956


کہوں کیا غیر کو ، اپنا بھی جب اپنا نہیں ہوتا

یہ دنیا ہے یہاں کس موڑ پر دھوکا نہیں ہوتا


تمنا ، خواب ، آنکھیں ، عزت و عصمت ، وفاداری

یہاں پر بولیے کس چیز کا سودا نہیں ہوتا


ہمارے شہر میں منہہ دیکھ کر خیرات بٹتی ہے

یہاں روٹی اسے ملتی ہے جو بھوکا نہیں ہوتا


سمٹتی ہے خدائی تیرے دیوانوں کے ہاتھوں میں

یہ کس نے کہہ دیا قطرہ کبھی دریا نہیں ہوتا


کسی کے دل میں یادیں اور کسی کی آنکھ میں آنسو

سفر میں آدمی اے زندگی تنہا نہیں ہوتا


بدر الحسن بدر



فیاض وردک

 یوم پیدائش 02 مئی 1966


دیکھو مچلے تو نہ پھر روک سکوگے ہرگز

یوں نہ محفل میں کرو ہم کو اشارے جاناں


ہلکی ہلکی سی ہنسی ملتفت اندازِ نظر

کیوں دکھاتی ہو ہمیں دن میں ستارے جاناں


الجھنیں جیسے زمانے کی سلجھتی سی گئیں

جب تصور میں ترے بال سنوارے جاناں


جب بھی پوچھا گیا مفہومِ محبت کیا ہے

ہم تو ایمان سے یکلخت پکارے جاناں


تم بھی فیاض کی مانند پکارو تو اسے

خود ہی بن جائیں گے گرداب کنارے جاناں


فیاض وردک



نشتر شہودی

 یوم پیدائش 02 مئی 1973


جہد کرتا رہے زندگی کے لیے

ہے مناسب یہی آدمی کے لیے


جب چراغوں کی لو سرد ہونے لگے

دلا جلایا کرو روشنی کے لیے


حق کے رستے میں مرنا بھی ہے زندگی

ہاتھ پھیلائیں کیوں زندگی کے لیے


خوش جو ہوتا رہا ہے خوشی بانٹ کر

وہ ترسنے لگا ہے خوشی کے لیے


لوگ فٹ پاتھ پر آکے رہنے لگے

شہر میں گھر نہیں آدمی کے لیے


قافلہ لوٹ لیتا ہے جو راہ میں

چن لیا پھر اسے رہ بری کے لیے


یہ تو کہنے کی باتیں ہیں نشترؔ میاں

کوئی مرتا نہیں ہے کسی کے لیے


نشتر شہودی



امان ذخیروی

 یوم پیدائش 02 مئی 1975


گھر آنگن کا منظر بدلا بدلا ہے

ہر گلشن کا منظر بدلا بدلا ہے


مسخ ہوئی ہے مشترکہ تہذیب یہاں

گنگ و جمن کا منظر بدلا بدلا ہے


آج یہاں کچھ شرم و حیا کی دیوی کے

پیراہن کا منظر بدلا بدلا ہے


کورونا نے ایسے دن دکھلائے ہیں

بزم سخن کا منظر بدلا بدلا ہے


گلے ملیں کیا ، ہاتھ ملانا ہے مشکل

عید ملن کا منظر بدلا بدلا ہے



سچ کو سچ کہنے سے وہ بھی ہے قاصر

ہر درپن کا منظر بدلا بدلا ہے


امان  ذخیروی

بسمل یوسفی


 یوم پیدائش 02 مئی 1936


میں ریت ریت سمندر ہوں اک سراب زدہ

مرے وجود کا صحرا مگر ہے آب زدہ


بسمل یوسفی


شمیم اختر

 یوم پیدائش 02 مئی 1971


وہ پھر سے دل دکھانا چاہتا ہے

"مگر کوئی بہانا چاہتا ہے"


نقابوں پر وہ باتیں کر کے تیکھی

کسی کو ورغلانا چاہتا ہے


کمی تو تجربہ کی ہے یقیناً

حکومت پر چلانا چاہتا ہے


اسے لگتا ہے جنتا ہے یہ بھولی

تبھی تو وہ ستانا چاہتا ہے


جنہیں ہم مانتے تھے سچا رہبر

وہ قد ان کا گھٹا نا چاہتا ہے


چمکتا ہے جو بھارت جگ میں اختر 

اسے وہ کیا بنانا چاہتا ہے 


شمیم اختر



روشین علی روشی

 یوم پیدائش 02 مئی 1983


لب سلے لمحوں کا کہرام بھلا رکھا ہے

اہل ِ دنیا  کا ہر  الزام  بھلا  رکھا  ہے


بھول بیٹھے ہیں کہ یہ وقت نہیں رکتا ہے

جانتے   بوجھتے انجام  بھلا   رکھا  ہے


ابد آثار نہ ہو جاٸے اماوس کی یہ رات

چاند کو میں نے سر ِ شام بھلا رکھا ہے


پیار میں کوٸی خسارا تو نہیں ہے لیکن

جو ضروری تھا وہی کام بھلا رکھا ہے


دانہ ڈالا ہے کسے یاد رکھا ہے روشی

کون  آٸے   گا   تہ ِ دام   بھلا  رکھا  ہے


روشین علی روشی



نظام الدین نظام

 یوم پیدائش 01 مئی 1929


سفر پہ یوں مصر ہوں میں کہ حوصلوں میں جان ہے 

جو لٹ چکا یقین تھا جو بچ گیا گمان ہے 


زمین کی کشش کا جال توڑ کر نکل گئیں 

مگر یہ طے ہے چیونٹیوں کی آخری اڑان ہے 


لہو کے نام لکھ دیے ہیں تیر ابر و باد کے 

زمیں ہدف بنی ہوئی ہے آسماں کمان ہے 


وہی جو آدھی رات کو چراغ بن کے جل اٹھا 

کسی کی یاد کا نہیں وہ زخم کا نشان ہے 


مفاہمت کے دیو کا اسیر ہو گیا نظامؔ 

میری انا کا وہ پرند جس میں میری جان ہے


نظام الدین نظام



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...