Urdu Deccan

Saturday, May 14, 2022

نور قریشی

 یوم پیدائش 05 مئی 1939


جہانِ شوق میں سرمایۂ خوشی کیا ہے

جو تیرے ساتھ نہ گزرے تو زندگی کیا ہے


سرِ نیاز جھکانے سے کچھ نہیں ہوتا

خلوصِ دل نہ ہو شامل تو بندگی کیا ہے


نہ چھیڑ قیصر و کسریٰ کے تذکرے مجھ سے

فقیرِ مست کے آگے شہنشہی کیا ہے


بنا لیا انھیں سالارِ قافلہ ہم نے

جنھیں یہ علم نہیں ہے کہ رہبری کیا ہے


لقب ہے نورؔ ہمارا ، یہ فخر ہے ہم کو

ہمارے سامنے اوقاتِ تیرگی کیا ہے


نور قریشی



ثروت زہرا

 یوم پیدائش 05 مئی 1972


ثواب کی دعاؤں نے گناہ کر دیا مجھے 

بڑی ادا سے وقت نے تباہ کر دیا مجھے 


منافقت کے شہر میں سزائیں حرف کو ملیں 

قلم کی روشنائی نے سیاہ کر دیا مجھے 


مرے لیے ہر اک نظر ملامتوں میں ڈھل گئی 

نہ کچھ کیا تو حیرت نگاہ کر دیا مجھے 


خوشی جو غم سے مل گئی تو پھول آگ ہو گئے 

جنون بندگی نے خود نگاہ کر دیا مجھے 


تمام عکس توڑ کے مرا سوال بانٹ کے 

اک آئنے کے شہر کی سپاہ کر دیا مجھے 


بڑا کرم حضور کا سنا گیا نہ حال بھی 

سماعتوں میں دفن ایک آہ کر دیا مجھے


ثروت زہرا



عمیر منظر

 یوم پیدائش 05 مئی 1974


کبھی اقرار ہونا تھا کبھی انکار ہونا تھا 

اسے کس کس طرح سے در پئے آزار ہونا تھا 


سنا یہ تھا بہت آسودہ ہیں ساحل کے باشندے 

مگر ٹوٹی ہوئی کشتی میں دریا پار ہونا تھا 


صدائے الاماں دیوار گریہ سے پلٹ آئی 

مقدر کوفہ و کابل کا جو مسمار ہونا تھا 


مقدر کے نوشتے میں جو لکھا ہے وہی ہوگا 

یہ مت سوچو کہ کس پر کس طرح سے وار ہونا تھا 


یہاں ہم نے کسی سے دل لگایا ہی نہیں منظرؔ 

کہ اس دنیا سے آخر ایک دن بے زار ہونا تھا 


عمیر منظر



پرویز مظفر

 یوم پیدائش 05 مئی 1965


جو میرے گناہوں پہ نظر رکھتے ہیں 

البم میں وہی تتلی کے پر رکھتے ہیں 


ظلمت کی سماعت میں کھل پڑتا ہے 

مظلوم کے الفاظ اثر رکھتے ہیں

 

کس وقت کہاں کون جلاتا ہے چراغ 

اتنی تو پتنگے بھی خبر رکھتے ہیں 


ہیں آبلے کانٹوں کے لیے پیروی میں 

تاروں کے لیے دیدۂ تر رکھتے ہیں 


باتیں وہ بھلا کیسے کریں گے کھل کر 

پرویزؔ میاں دل میں جو ڈر رکھتے ہیں


پرویز مظفر



سمیع اللہ عرفی

 یوم پیدائش 05 مئی 1958


بچھڑ کے تجھ سے مرے لیئے ہیں عذاب نیندیں

کہ رتجگوں کی زمیں پہ لگتی ہیں خواب نیندیں


کبھی کبھی اب بھی میری آنکھیں وہ ڈھونڈتی ہیں

ملاپ موسم کی خوبصورت گلاب نیندیں


میں رتجگوں کا سوال لیکر گیا ہوں جب بھی

توان کی جانب سے مل سکیں نہ جواب نیندیں


سمجھ سے بالا عجیب فطرت کا فلسفہ ہے

حقیقتوں کےبدن کو بخشیں سراب نیندیں


وہ جن میں تیرا رخ_مقدس ہی جھانکتا تھا

کہاں گئیں آنکھ سے وہ عزت مآب نیندیں


اسی لیئے تو میں ایک مدت سے جاگتا ہوں

کہ گزری راتوں کا مانگ لیں ناحساب نیندیں


سمیع اللہ عرفی



Friday, May 13, 2022

محمد شبیر انصاری راج

 یوم پیدائش 05 مئی 1976


میں کیا چھپاؤں درد ہے سارے جہان کا

بھائی کے درمیان میں جھگڑا مکان کا


دیکھا ہے دور زندگی نے امتحان کا

روشن کیا ہے نام مرے خاندان کا


میں جانتا ہوں تیری حقیقت اے جان من

گھر کو جلا گیا ہے دھواں آسمان کا


جو مر رہا ہے بھوک سے مرنے کو چھوڑ دو

میں جانتا ہوں حکم یہی حکمران کا


ان کے خلاف بول دوں ہمت نہیں مری

چھوٹا سا آدمی ہوں میں ہندوستان کا


حیران زندگی ہے پریشان زندگی

برسا ہے جیسے راج ستم آسمان کا


محمد شبیر انصاری راج



شیخ علیم اسرار

 یوم پیدائش 05 مئی 1976


زندگی ہے کہیں کہکشاں ہے کہیں 

جستجو ہے کہیں آسماں ہے کہیں 


کیا کہوں راہبر ہم سفر ہم قدم 

ہم نوا ہے کہیں رازداں ہے کہیں 


ہے صدا وقت کی مختلف منفرد 

بے نوا ہے کہیں مہرباں ہے کہیں


چاند تارے کہیں ہیں کہیں  عکس ہے 

گل کھلے ہیں کہیں گلستاں ہے کہیں 


اپنی گردش کا حاصل ہےگردِ سفر 

دل کی منزل کہیں کارواں ہے کہیں 


ہوسکے تو کبھی ڈھونڈ کر دیکھیے  

دوسرا اک سرا درمیاں ہے کہیں


پوچھتا ہے کوئی مجھ سے یہ بار ہا 

خواب سا خوبصورت جہاں ہے کہیں 


کچھ تعلق نہیں تم سے اس کا مگر 

ہم کہیں ہیں کہ نام و نشاں ہے کہیں 


راز ظاہر نہاں مجھ میں اسرار ہیں 

دو جہاں کی حقیقت عیاں ہے کہیں 


شیخ علیم اسرار


اطہر مرشدآبادی

 یوم پیدائش 04 مئی 1969


احسان کبھی کر کے جتایا نہیں کرتے

دریا میں بہا دیتے ہیں چرچا نہیں کرتے


ہم وسعتِ دامن پہ نظر رکھتے ہیں اپنی

اوروں کی عنایات پہ تکیہ نہیں کرتے


رکھتے ہیں قدم میرے، مرے عزم کی توقیر

اک بار بڑھیں آگے تو پلٹا نہیں کرتے


رکھتے ہیں بلندی پہ پہنچنے کی امیدیں

ہم سوئے فلک یوں ہی تو دیکھا نہیں کرتے


وہ ظلم کے سامان کی کرتے ہیں تجارت

الفت کے خریدار سے سودا نہیں کرتے


راحت کے ہر اک پل میں ترا شکر ہے یارب!

ایذا بھی ملے ہم کو تو شکوہ نہیں کرتے


اک روز ہمیں زیر زمیں جانا ہے اطہرؔ

اک پل بھی تکبر میں گزارا نہیں کرتے


اطہر مرشدآبادی



سجاد اختر خان

 یوم پیدائش 04 مئی 1965


بے حس کو احساس دلا کر چھوڑیں گے

آدم کو انسان بنا کر چھوڑیں گے

گیت جو نفرت کے گاتے ہیں سُن لیں وہ

سب کو پیار کا راگ سِکھا کر چھوڑیں گے


دیکھو جھوٹ کی شب کتنی اندھیاری ہے

اس میں سچ کے دیپ جلا کر چھوڑیں گے

دُوریاں ہم میں ڈال دی ہیں خُودغرضی نے

سب کو اک دُوجے سے ملا کر چھوڑیں گے 


بولی ہر اک شے کی یاں پر لگتی ہے 

اس لعنت سے نجات دلا کر چھوڑیں گے 

کھنڈر بخشے ان جنگوں نے دھرتی کو

ان کھنڈرات میں پھول اگا کر چھوڑیں گے


پتھر دل احساس سے جو بھی عاری ہیں 

ان کے دل میں درد بساکر چھوڑیں گے 

اب تو وہ اوہام کادور تمام ہوا

فہم میں سوچ کی شمع جلا کر چھوڑیں گے 


  سجاد اختر خان 



ثمر فرید ثمر

 یوم پیدائش 03 مئی 1998


حسرتیں دل کی جلا کے دیکھنا

روز اک پیکر بنا کے دیکھنا 


ثمر فرید ثمر



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...