یوم پیدائش 06 مئی 1970
جہاں سے ہارنے پر دوستو ایسا بھی ہوتا ہے
حقیقت چھوڑ کر انساں یہاں سپنوں میں کھوتا ہے
چراغوں کی ہمیشہ قدر ہوتی ہے اندھیروں میں
زمانہ جوں کسی کے چھوڑ کر جانے پہ روتا ہے
کبھی رتبہ دیا یاروں کو گلدستے کے پھولوں کا
سجا کر پھر نئے پھولوں کو تو رشتے ڈبوتا ہے
غلط کچھ کام انساں زندگی میں کر بھی لے تو کیا
ہمیں یہ دیکھنا ہے کیا اسے افسوس ہوتا ہے
کہاں دکھتا ہے ہم کو کیا گزرتی ہے کسانوں پر
کمی اکثر ثمر کی ڈر ضرر کا لے کے سوتا ہے
وہ پائل پاؤں میں تیرے وہ بندی تیرے ماتھے پر
تصور بس یہی اکثر میری آنکھوں میں ہوتا ہے
سمجھ یہ حال ہے تیرا یہ مستقبل بھی تیرا ہے
قدم آگے بڑا حاصلؔ تو کیوں ماضی پہ روتا ہے
سجیت سہگل حاصل