Urdu Deccan

Saturday, May 14, 2022

سجیت سہگل حاصل

 یوم پیدائش 06 مئی 1970


جہاں سے ہارنے پر دوستو ایسا بھی ہوتا ہے 

حقیقت چھوڑ کر انساں یہاں سپنوں میں کھوتا ہے 


چراغوں کی ہمیشہ قدر ہوتی ہے اندھیروں میں 

زمانہ جوں کسی کے چھوڑ کر جانے پہ روتا ہے 


کبھی رتبہ دیا یاروں کو گلدستے کے پھولوں کا 

سجا کر پھر نئے پھولوں کو تو رشتے ڈبوتا ہے 


غلط کچھ کام انساں زندگی میں کر بھی لے تو کیا 

ہمیں یہ دیکھنا ہے کیا اسے افسوس ہوتا ہے 


کہاں دکھتا ہے ہم کو کیا گزرتی ہے کسانوں پر 

کمی اکثر ثمر کی ڈر ضرر کا لے کے سوتا ہے 


وہ پائل پاؤں میں تیرے وہ بندی تیرے ماتھے پر 

تصور بس یہی اکثر میری آنکھوں میں ہوتا ہے 


سمجھ یہ حال ہے تیرا یہ مستقبل بھی تیرا ہے 

قدم آگے بڑا حاصلؔ تو کیوں ماضی پہ روتا ہے


سجیت سہگل حاصل



لیث قریشی

 یوم پیدائش 06 مئی 1922


ضمیر و ذہن سے کی ہیں بغاوتیں کیا کیا

منافقوں سے نبھائیں رفاقتیں کیا کیا


حیات عرصۂ کرب و بلا میں گزری ہے

تمام عمر ہوئی ہیں شہادتیں کیا کیا


کسی سے پیار کسی سے وفا کسی سے خلوص

بگڑ گئی ہیں ہماری بھی عادتیں کیا کیا


یہ جبر ہے کہ غرض سے غرض بدلتے ہیں

ہمیں عزیز تھیں ورنہ شرافتیں کیا کیا


مزاج وقت نے چھینا ہے مجھ سے میرا مزاج

گزرتی رہتی ہیں دل پر قیامتیں کیا کیا


صبا پہ حرف نہ آئے کرن کا دل نہ دکھے

شگفتہ گل کے لیے ہیں نزاکتیں کیا کیا


یہ اور بات سمجھنے سے ہم ہیں قاصر لیثؔ

جبین وقت پہ دیکھیں عبارتیں کیا کیا


لیث قریشی




حبیب ندیم

 یوم پیدائش 06 مئی 1976


ہر شہر جل رہا ہے کدھر جائے گا دھواں

اپنی گھٹن میں گھٹ کے ہی مر جائے گا دھواں


مذہب کے نام پر جو لگاؤگے آگ تم

سینے میں ہر کسی کے اتر  جائے گا دھواں


مانگو دعائیں تیز ہوا اب کے چل پڑے

ورنہ بھلا یہ کیسے بکھر جائے گا دھواں


کچھ دیر سائے میں تو رہے گا ہمارا شہر

اپنے سروں سے جب بھی گزر جائے گا دھواں


کہہ دے کوئی ہواؤں سے چھیڑے نہ شمع کو

گر بجھ گئی تو لے کے خبر جائے گا دھواں


سانسوں میں ہے گھٹن سی سبھی سوچنے لگے

آیا کدھر سے اور کدھر جائے گا دھواں


لکھو گے کیا حبیب بتاؤ نئی غزل

کاغذ سیاہ کرکے اگر جائے گا دھواں


حبیب ندیم



محور سرسوئی

 یوم پیدائش 06 مئی 1997


شاخ پر طائر نہیں محو فغاں بیٹھا ہوا

ہے کوئی عاشق سر فصل خزاں بیٹھا ہوا


مے کدے میں نصف شب تشنہ دہاں بیٹھا ہوا

مضطرب مصروف یاد رفتگاں بیٹھا ہوا 


علم رکھتا ہوں وہاں کا میں یہاں بیٹھا ہوا

کون ہے عقل و خرد کے درمیاں بیٹھا ہوا


بے سکوں افسردہ دل بے آستاں بیٹھا ہوا

کر رہا ہے وقت اپنا رائیگاں بیٹھا ہوا


صبر کی تلقین پڑھتا ہے خود اپنی لاش پر

دل کے قبرستان میں اک نو جواں بیٹھا ہوا 


اپنا لہجہ اپنی باتیں اپنا انداز سخن

کر رہا ہے داستان غم بیاں بیٹھا ہوا


نقش ہے پانی پہ عکس پیکر شمس و قمر 

"ہم نے دیکھا ہے زمیں پہ آسماں بیٹھا ہوا"


مصلحت کی تیغ سے اپنی زبانیں کاٹ کر

ہر بشر اپنی جگہ ہے بے زباں بیٹھا ہوا


حیف ہے خستہ دلی پہ محور رنج و الم

وائے ہو ہنستا رہا پیر مغاں بیٹھا تھا


محور سرسوئی



 

مسیح الرحمن

 یوم پیدائش 06 مئی 1969


ننھے سے دل پی عشق کا بھاری دباؤ ہے

فکر معاش کا بھی مسلسل تناؤ ہے


سجدہ کہاں کریں؟ کہ ہیں بے ربط نقش پا

آندھی مسافتوں کا جہاں پر پڑاؤ ہے


آسیب چشم یار بسا ہے نفس نفس

آنکھیں لہو لہو ہیں جگر گھاؤ گھاؤ ہے


میرا تھا انتخاب غلط تیری کیا خطا

بحر خلش میں اس لئے الفت کی ناؤ ہے


یوں آتش حسد بھی جلانے لگی مجھے

سینے میں جیسے کوئی دہکتا الاؤ ہے


انساں کے دل میں لغزش آدم ہے مشتعل

بس اس لئے گناہ کی جانب کھچاؤ ہے


 نفرت کو زیر کرتا ہے الفت سے اب مجھے

اس کا تو داؤ چل چکا اب میرا داؤ ہے


اب تو سخنوری کا زمانہ نہیں مسیح

شعر و سخن بھی آج تو مٹی کا بھاؤ ہے


مسیح الرحمن 



ناظم قادری شکوہ آبادی

 یوم پیدائش 05 مئی 1981


کر کے وعدہ مکر گیا ہے وہ

اشک آنکھوں میں بھر گیا ہے وہ


ایک لمحے میں اپنے لہجے سے

سب کے دل سے اتر گیا ہے وہ


ہر قدم پر اسے ملے کانٹے

اب تو پھولوں سے ڈر گیا ہے وہ


آؤ چل کر اسے سنبھالیں اب 

ہر طرف سے بکھر گیا ہے وہ


ساری بستی گلوں سے مہکی ہے

کیا ادھر سے گذر گیا ہے وہ


روز ملتا ہے وہ کتابوں میں

کون کہتا ہے مر گیا ہے وہ


اس کو دیکھے بنا نہ چین آئے

مجھ پہ جادو سا کر گیا ہے وہ


ہر قدم پہ جو ساتھ تھا ناظم

آج جانے کدھر گیا ہے وہ


ناظم قادری شکوہ آبادی



عبد الشکور

 یوم پیدائش 05 مئی 1956


زرا جینے کی رغبت ہے؟ نہیں ہے

تو کیا مرنے کی فرصت ہے؟ نہیں ہے


نصیحت کرنے والے پوچھتے ہیں

مجھے سننے کی عادت ہے؟ نہیں ہے


تمہیں شک ہے مگر میں جانتا ہوں

مجھے تم سے محبت ہے؟ نہیں ہے


تری عادت اسے تو ہو گئی ہے

تجھے بھی اس کی عادت ہے؟ نہیں ہے


یہ کرب آگہی تو جان لے گا

طبیبوں کی ضرورت ہے؟ نہیں ہے


میں اپنا آپ ہی دشمن ہوا تو

مجھے اس پر ندامت ہے؟ نہیں ہے


عبد الشکور


 


نور قریشی

 یوم پیدائش 05 مئی 1939


جہانِ شوق میں سرمایۂ خوشی کیا ہے

جو تیرے ساتھ نہ گزرے تو زندگی کیا ہے


سرِ نیاز جھکانے سے کچھ نہیں ہوتا

خلوصِ دل نہ ہو شامل تو بندگی کیا ہے


نہ چھیڑ قیصر و کسریٰ کے تذکرے مجھ سے

فقیرِ مست کے آگے شہنشہی کیا ہے


بنا لیا انھیں سالارِ قافلہ ہم نے

جنھیں یہ علم نہیں ہے کہ رہبری کیا ہے


لقب ہے نورؔ ہمارا ، یہ فخر ہے ہم کو

ہمارے سامنے اوقاتِ تیرگی کیا ہے


نور قریشی



ثروت زہرا

 یوم پیدائش 05 مئی 1972


ثواب کی دعاؤں نے گناہ کر دیا مجھے 

بڑی ادا سے وقت نے تباہ کر دیا مجھے 


منافقت کے شہر میں سزائیں حرف کو ملیں 

قلم کی روشنائی نے سیاہ کر دیا مجھے 


مرے لیے ہر اک نظر ملامتوں میں ڈھل گئی 

نہ کچھ کیا تو حیرت نگاہ کر دیا مجھے 


خوشی جو غم سے مل گئی تو پھول آگ ہو گئے 

جنون بندگی نے خود نگاہ کر دیا مجھے 


تمام عکس توڑ کے مرا سوال بانٹ کے 

اک آئنے کے شہر کی سپاہ کر دیا مجھے 


بڑا کرم حضور کا سنا گیا نہ حال بھی 

سماعتوں میں دفن ایک آہ کر دیا مجھے


ثروت زہرا



عمیر منظر

 یوم پیدائش 05 مئی 1974


کبھی اقرار ہونا تھا کبھی انکار ہونا تھا 

اسے کس کس طرح سے در پئے آزار ہونا تھا 


سنا یہ تھا بہت آسودہ ہیں ساحل کے باشندے 

مگر ٹوٹی ہوئی کشتی میں دریا پار ہونا تھا 


صدائے الاماں دیوار گریہ سے پلٹ آئی 

مقدر کوفہ و کابل کا جو مسمار ہونا تھا 


مقدر کے نوشتے میں جو لکھا ہے وہی ہوگا 

یہ مت سوچو کہ کس پر کس طرح سے وار ہونا تھا 


یہاں ہم نے کسی سے دل لگایا ہی نہیں منظرؔ 

کہ اس دنیا سے آخر ایک دن بے زار ہونا تھا 


عمیر منظر



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...