Urdu Deccan

Saturday, May 14, 2022

مشتاق احمد نوری

 یوم پیدائش 07 مئی 1950


روایتوں کا بہت احترام کرتے ہیں 

کہ ہم بزرگوں کو جھک کر سلام کرتے ہیں 


ہر ایک شخص یہ کہتا ہے اور کچھ کہئے 

ہم اپنی بات کا جب اختتام کرتے ہیں 


کبھی جلاتے نہیں ہم تو برہمی کا چراغ 

وہ دشمنی کی روش روز عام کرتے ہیں 


حریف اپنا اگر سر جھکا کے ملتا ہے 

تو ہم بھی تیغ کو زیب نیام کرتے ہیں 


مجھے خبر بھی نہیں ہے کہ ایک مدت سے 

وہ میرے خانۂ دل میں قیام کرتے ہیں 


حقیقتوں کو جنہیں سن کے وجد آجائے 

کچھ ایسے کام بھی ان کے غلام کرتے ہیں 


شراب کم ہو تو نوریؔ بہ نام تشنہ بھی 

لہو نچوڑ کے لبریز جام کرتے ہیں


مشتاق احمد نوری




نعمت اللہ پیغمبر پوری

 یوم پیدائش 07 مئی 2002


دل کسی سے  لگانے سے کیا فائدہ 

زخم  پر زخم  کھانے سے کیا فائدہ


عشق مجھ سے نہیں تھا تمہیں جب صنم 

پھر یہ وعدہ نبھانے سے کیا فائدہ


گر  خوشی کوئی  پائی ہے تُونے  بتا 

من ہی من مسکرانے سے کیا فائدہ


مشکلیں درمیاں لاکھ آئیں  مگر 

راستہ چھوڑ جانے سے کیا فائدہ


جس سے حاصل ثمر ہو نہ سایہ کوئی 

پیڑ  ایسا  لگانے سے کیا فائدہ


 رب سے "نعمت" جو ہے مانگنا مانگ لے

غیر  کے  در پہ جانے سے کیا فائدہ


نعمت اللہ پیغمبر پوری



سجیت سہگل حاصل

 یوم پیدائش 06 مئی 1970


جہاں سے ہارنے پر دوستو ایسا بھی ہوتا ہے 

حقیقت چھوڑ کر انساں یہاں سپنوں میں کھوتا ہے 


چراغوں کی ہمیشہ قدر ہوتی ہے اندھیروں میں 

زمانہ جوں کسی کے چھوڑ کر جانے پہ روتا ہے 


کبھی رتبہ دیا یاروں کو گلدستے کے پھولوں کا 

سجا کر پھر نئے پھولوں کو تو رشتے ڈبوتا ہے 


غلط کچھ کام انساں زندگی میں کر بھی لے تو کیا 

ہمیں یہ دیکھنا ہے کیا اسے افسوس ہوتا ہے 


کہاں دکھتا ہے ہم کو کیا گزرتی ہے کسانوں پر 

کمی اکثر ثمر کی ڈر ضرر کا لے کے سوتا ہے 


وہ پائل پاؤں میں تیرے وہ بندی تیرے ماتھے پر 

تصور بس یہی اکثر میری آنکھوں میں ہوتا ہے 


سمجھ یہ حال ہے تیرا یہ مستقبل بھی تیرا ہے 

قدم آگے بڑا حاصلؔ تو کیوں ماضی پہ روتا ہے


سجیت سہگل حاصل



لیث قریشی

 یوم پیدائش 06 مئی 1922


ضمیر و ذہن سے کی ہیں بغاوتیں کیا کیا

منافقوں سے نبھائیں رفاقتیں کیا کیا


حیات عرصۂ کرب و بلا میں گزری ہے

تمام عمر ہوئی ہیں شہادتیں کیا کیا


کسی سے پیار کسی سے وفا کسی سے خلوص

بگڑ گئی ہیں ہماری بھی عادتیں کیا کیا


یہ جبر ہے کہ غرض سے غرض بدلتے ہیں

ہمیں عزیز تھیں ورنہ شرافتیں کیا کیا


مزاج وقت نے چھینا ہے مجھ سے میرا مزاج

گزرتی رہتی ہیں دل پر قیامتیں کیا کیا


صبا پہ حرف نہ آئے کرن کا دل نہ دکھے

شگفتہ گل کے لیے ہیں نزاکتیں کیا کیا


یہ اور بات سمجھنے سے ہم ہیں قاصر لیثؔ

جبین وقت پہ دیکھیں عبارتیں کیا کیا


لیث قریشی




حبیب ندیم

 یوم پیدائش 06 مئی 1976


ہر شہر جل رہا ہے کدھر جائے گا دھواں

اپنی گھٹن میں گھٹ کے ہی مر جائے گا دھواں


مذہب کے نام پر جو لگاؤگے آگ تم

سینے میں ہر کسی کے اتر  جائے گا دھواں


مانگو دعائیں تیز ہوا اب کے چل پڑے

ورنہ بھلا یہ کیسے بکھر جائے گا دھواں


کچھ دیر سائے میں تو رہے گا ہمارا شہر

اپنے سروں سے جب بھی گزر جائے گا دھواں


کہہ دے کوئی ہواؤں سے چھیڑے نہ شمع کو

گر بجھ گئی تو لے کے خبر جائے گا دھواں


سانسوں میں ہے گھٹن سی سبھی سوچنے لگے

آیا کدھر سے اور کدھر جائے گا دھواں


لکھو گے کیا حبیب بتاؤ نئی غزل

کاغذ سیاہ کرکے اگر جائے گا دھواں


حبیب ندیم



محور سرسوئی

 یوم پیدائش 06 مئی 1997


شاخ پر طائر نہیں محو فغاں بیٹھا ہوا

ہے کوئی عاشق سر فصل خزاں بیٹھا ہوا


مے کدے میں نصف شب تشنہ دہاں بیٹھا ہوا

مضطرب مصروف یاد رفتگاں بیٹھا ہوا 


علم رکھتا ہوں وہاں کا میں یہاں بیٹھا ہوا

کون ہے عقل و خرد کے درمیاں بیٹھا ہوا


بے سکوں افسردہ دل بے آستاں بیٹھا ہوا

کر رہا ہے وقت اپنا رائیگاں بیٹھا ہوا


صبر کی تلقین پڑھتا ہے خود اپنی لاش پر

دل کے قبرستان میں اک نو جواں بیٹھا ہوا 


اپنا لہجہ اپنی باتیں اپنا انداز سخن

کر رہا ہے داستان غم بیاں بیٹھا ہوا


نقش ہے پانی پہ عکس پیکر شمس و قمر 

"ہم نے دیکھا ہے زمیں پہ آسماں بیٹھا ہوا"


مصلحت کی تیغ سے اپنی زبانیں کاٹ کر

ہر بشر اپنی جگہ ہے بے زباں بیٹھا ہوا


حیف ہے خستہ دلی پہ محور رنج و الم

وائے ہو ہنستا رہا پیر مغاں بیٹھا تھا


محور سرسوئی



 

مسیح الرحمن

 یوم پیدائش 06 مئی 1969


ننھے سے دل پی عشق کا بھاری دباؤ ہے

فکر معاش کا بھی مسلسل تناؤ ہے


سجدہ کہاں کریں؟ کہ ہیں بے ربط نقش پا

آندھی مسافتوں کا جہاں پر پڑاؤ ہے


آسیب چشم یار بسا ہے نفس نفس

آنکھیں لہو لہو ہیں جگر گھاؤ گھاؤ ہے


میرا تھا انتخاب غلط تیری کیا خطا

بحر خلش میں اس لئے الفت کی ناؤ ہے


یوں آتش حسد بھی جلانے لگی مجھے

سینے میں جیسے کوئی دہکتا الاؤ ہے


انساں کے دل میں لغزش آدم ہے مشتعل

بس اس لئے گناہ کی جانب کھچاؤ ہے


 نفرت کو زیر کرتا ہے الفت سے اب مجھے

اس کا تو داؤ چل چکا اب میرا داؤ ہے


اب تو سخنوری کا زمانہ نہیں مسیح

شعر و سخن بھی آج تو مٹی کا بھاؤ ہے


مسیح الرحمن 



ناظم قادری شکوہ آبادی

 یوم پیدائش 05 مئی 1981


کر کے وعدہ مکر گیا ہے وہ

اشک آنکھوں میں بھر گیا ہے وہ


ایک لمحے میں اپنے لہجے سے

سب کے دل سے اتر گیا ہے وہ


ہر قدم پر اسے ملے کانٹے

اب تو پھولوں سے ڈر گیا ہے وہ


آؤ چل کر اسے سنبھالیں اب 

ہر طرف سے بکھر گیا ہے وہ


ساری بستی گلوں سے مہکی ہے

کیا ادھر سے گذر گیا ہے وہ


روز ملتا ہے وہ کتابوں میں

کون کہتا ہے مر گیا ہے وہ


اس کو دیکھے بنا نہ چین آئے

مجھ پہ جادو سا کر گیا ہے وہ


ہر قدم پہ جو ساتھ تھا ناظم

آج جانے کدھر گیا ہے وہ


ناظم قادری شکوہ آبادی



عبد الشکور

 یوم پیدائش 05 مئی 1956


زرا جینے کی رغبت ہے؟ نہیں ہے

تو کیا مرنے کی فرصت ہے؟ نہیں ہے


نصیحت کرنے والے پوچھتے ہیں

مجھے سننے کی عادت ہے؟ نہیں ہے


تمہیں شک ہے مگر میں جانتا ہوں

مجھے تم سے محبت ہے؟ نہیں ہے


تری عادت اسے تو ہو گئی ہے

تجھے بھی اس کی عادت ہے؟ نہیں ہے


یہ کرب آگہی تو جان لے گا

طبیبوں کی ضرورت ہے؟ نہیں ہے


میں اپنا آپ ہی دشمن ہوا تو

مجھے اس پر ندامت ہے؟ نہیں ہے


عبد الشکور


 


نور قریشی

 یوم پیدائش 05 مئی 1939


جہانِ شوق میں سرمایۂ خوشی کیا ہے

جو تیرے ساتھ نہ گزرے تو زندگی کیا ہے


سرِ نیاز جھکانے سے کچھ نہیں ہوتا

خلوصِ دل نہ ہو شامل تو بندگی کیا ہے


نہ چھیڑ قیصر و کسریٰ کے تذکرے مجھ سے

فقیرِ مست کے آگے شہنشہی کیا ہے


بنا لیا انھیں سالارِ قافلہ ہم نے

جنھیں یہ علم نہیں ہے کہ رہبری کیا ہے


لقب ہے نورؔ ہمارا ، یہ فخر ہے ہم کو

ہمارے سامنے اوقاتِ تیرگی کیا ہے


نور قریشی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...