Urdu Deccan

Sunday, May 15, 2022

مراتب اختر

 یوم پیدائش 09 مئی 1941


آئے تھے جس طرف سے وہ اک دن ادھر گئے 

برگد کا پیڑ کٹ گیا سادھو گزر گئے 


کیا زندگی ملی انہیں طوفاں کی گود میں 

دو جسم ایک جسم ہوئے اور مر گئے 


کرنے لگے قیاس کہیں قتل ہو گیا 

آندھی کا رنگ سرخ تھا سب لوگ ڈر گئے 


اب مجھ کو بھول بھال گئے سب معاشقے 

ساون کی رت گزر گئی دریا اتر گئے 


اک جسم میں اتر گیا اک سال دن بہ دن 

اک ایک کر کے صحن میں پتے بکھر گئے 


چھپ کر ملے بچھڑ گئے اور پھر نہ مل سکے 

اک پل میں داستان کی تکمیل کر گئے


مراتب اختر



یحییٰ امجد

 یوم پیدائش 09 مئی 1943


پھر لب پہ تیرا ذکر ہے پھر تیرا نام ہے 

پھر جاں لٹانے والوں کا اک ازدحام ہے 


سبط رسول ہونا ہی عزت کی بات ہے 

پر اس سے بڑھ کے تیرے عمل کا مقام ہے 


رسم یزید ظلم ہے ہر بار عارضی 

دین حسین جد و جہد ہے مدام ہے 


ہے حرب عشق فتح کی خواہش سے بے نیاز 

یہ بات الگ کہ ہار کے بھی فتح نام ہے 


کیا غم اگر یزید رہا اقتدار میں 

پرچم تو پھر حسین کا میر عوام ہے 


پرچم بنا ہے پھر کئی شہروں میں تیرا نام 

تو کاروان جد و جہد کا امام ہے


یحییٰ امجد



Saturday, May 14, 2022

فرح رضوی

 یوم پیدائش 09 مئی 1973


موسم کا حال آنکھ کی کھڑکی بتائے گی 

دن ڈھل گیا ہے شام کی سرخی بتائے گی 


مرجھا گئے جو شاخ اجل پر کھلے گلاب 

رس اڑ گیا ہے سانس کی تتلی بتائے گی 


آنکھوں پہ اعتبار نہ کر فاصلہ تو دیکھ 

دریا کے پار کیا ہے یہ کشتی بتائے گی 


دیوار پر شبیہ بنائیں گی انگلیاں 

کم روشنی فریب کو پنچھی بتائے گی 


لا حاصلی کی سان پہ ازلوں کے ماجرے 

صدیوں کی داستان بھی چٹکی بتائے گی 


اپنی ہنسی کو حال کا پیمانہ کیجئے 

جتنی خوشی ہے ناپ کے اتنی بتائے گی


فرح رضوی



نشاط پروین

 یوم پیدائش 08 مئی 1973


یہ عشق والے دلوں کو ہی گھر بناتے ہیں

یہ وہ پرندے ہیں جن کو قفس ہی بھاتے ہیں


عجیب ان کی طعبیت عجب ہے خوداری 

یہ دل جھکاتے ہیں سر کو نہیں جھکاتے ہیں


خیالی لوگ خیالی ہیں بستیاں ان کی

اکیلے بیٹھ کے یہ محفلیں سجاتے ہیں


ہوا سے پھول سے خوشبو سے بات کرتے ہیں

یہ ان کی سنتے ہیں اپنی انہیں سناتے ہیں


نہ جانے کس کی کہانی انہیں رلاتی ہے

نہ جانے کس کے فسانے انہیں ہنساتے ہیں


خلا میں پھیرتے رہتے ہیں انگلیاں اپنی

یہ زندگی کے نئے زاویئے بناتے ہیں 


نشاط پروین



دانیال احمد زمان

یوم پیدائش 08 مئی 1996


حرارتوں کے واسطے فشار ِ خون کے لیے

عقیدتوں کے مان سارے ارض ِ سون کے لیے


جو بچ گئے بطور خط بنام یزداں جائیں گے

بس ایک دو ہی شعر چھوڑ کر فنون کے لیے


یقین کب تلک ادھیڑ عمر کے بشر چنے

گمان کی بساط اب الٹ سکون کے لیے


میں چونکتا نہیں ہوں اب کسی بھی اہتمام پر

کوئی بھی رنگ لازمی نہیں ہے فون کے لئے


محل کے چار سو ہیں دشمنوں کی چوکیاں زماں

سپاہی چاہئے ہیں مجھکو اندرون کے لیے


دانیال احمد زمان



عزیز بھارتی

 یوم پیدائش 08 مئی 1939


کسے طلب ہے صدی کی ، صدی کو رہنے دو

وہ ایک لمحہ بہت ہے جو خوشگوار آئے


عزیز بھارتی



محمد رئیس علوی

 یوم پیدائش 07 مئی 1943


جب دل میں غرور آئے تو دانائی بھی کیا ہے 

جب رات اندھیری ہو تو بینائی بھی کیا ہے 


جب ڈوبنا ٹھہرا ہے تو طوفاں کا کسے خوف 

جب اشک سمندر ہوں تو گہرائی بھی کیا ہے 


جب زخم ہوں سینے میں تو پھر درد ہے کیا چیز 

گلشن میں مرے موج ہوا لائی بھی کیا ہے 


پھر غیر کے ہر جھوٹ پہ کرتا ہے یقیں وہ 

پھر شوق کو سکتہ ہے کہ سچائی بھی کیا ہے 


پھر عمر گریزاں نے کہا جاؤ چلے جاؤ 

کیا اس سے کہو گے وہاں سنوائی بھی کیا ہے 


پھر دل نے کہا ہنس کے وہ صحرا ہو قفس ہو 

جب اس سے بچھڑنا ہے تو تنہائی بھی کیا ہے 


پھر ذکر مرا سن کے کہا اس نے رئیسؔ ایک 

بس چاک گریباں ہے وہ سودائی بھی کیا ہے 


محمد رئیس علوی



تنویر الہی

 یوم پیدائش 07 مئی 1980


نہ جانے کیا کہیں افراد سن کر

 بظاہر شاد کو ناشاد سن کر

 

 جو آئے تھے تماشا دیکھنے کو 

 وہی روتے گئے روداد سن کر

 

 اسے کوئی بھلا کیسے منائے

 جو مطلب لیتا ہو متضاد سن کر

  

 مجھے وہ غیر ہیں اپنوں سے بڑھ کر

 جو کرنے آ گئے امداد سن کر

 

 کھٹن اس سے بھی میرے امتحان ہیں

 بڑا حیران ہے فرہاد سن کر

 

 پلٹ کر دیکھنے آیا ستم گر

 لگائے زخموں کی تعداد سن کر

 

 کہی تنویر نے تجھ پر غزل تو 

 عدو بھی کہہ اٹھے ارشاد سن کر


تنویر الہی



مشتاق احمد نوری

 یوم پیدائش 07 مئی 1950


روایتوں کا بہت احترام کرتے ہیں 

کہ ہم بزرگوں کو جھک کر سلام کرتے ہیں 


ہر ایک شخص یہ کہتا ہے اور کچھ کہئے 

ہم اپنی بات کا جب اختتام کرتے ہیں 


کبھی جلاتے نہیں ہم تو برہمی کا چراغ 

وہ دشمنی کی روش روز عام کرتے ہیں 


حریف اپنا اگر سر جھکا کے ملتا ہے 

تو ہم بھی تیغ کو زیب نیام کرتے ہیں 


مجھے خبر بھی نہیں ہے کہ ایک مدت سے 

وہ میرے خانۂ دل میں قیام کرتے ہیں 


حقیقتوں کو جنہیں سن کے وجد آجائے 

کچھ ایسے کام بھی ان کے غلام کرتے ہیں 


شراب کم ہو تو نوریؔ بہ نام تشنہ بھی 

لہو نچوڑ کے لبریز جام کرتے ہیں


مشتاق احمد نوری




نعمت اللہ پیغمبر پوری

 یوم پیدائش 07 مئی 2002


دل کسی سے  لگانے سے کیا فائدہ 

زخم  پر زخم  کھانے سے کیا فائدہ


عشق مجھ سے نہیں تھا تمہیں جب صنم 

پھر یہ وعدہ نبھانے سے کیا فائدہ


گر  خوشی کوئی  پائی ہے تُونے  بتا 

من ہی من مسکرانے سے کیا فائدہ


مشکلیں درمیاں لاکھ آئیں  مگر 

راستہ چھوڑ جانے سے کیا فائدہ


جس سے حاصل ثمر ہو نہ سایہ کوئی 

پیڑ  ایسا  لگانے سے کیا فائدہ


 رب سے "نعمت" جو ہے مانگنا مانگ لے

غیر  کے  در پہ جانے سے کیا فائدہ


نعمت اللہ پیغمبر پوری



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...