Urdu Deccan

Wednesday, May 25, 2022

ساجدہ زیدی

یوم پیدائش 18مئی 1927

صبا میں مست خرامی گلوں میں بو نہ رہے
ترا خیال اگر دل کے روبرو نہ رہے
 
ترے بغیر ہر اک آرزو ادھوری ہے 
جو تو ملے تو مجھے کوئی آرزو نہ رہے 

ہے جستجو میں تری اک جہاں کا درد و نشاط 
تو کیا عجب کہ کوئی اور جستجو نہ رہے  

تو ذوق کم طلبی ہے تو آرزو کا شباب 
ہے یوں کہ تو رہے اور کوئی جستجو نہ رہے 

کتاب عمر کا ہر باب بے مزہ ہو جائے 
جو درد میں نہ رہوں اور داغ تو نہ رہے 

خدا کرے نہ وہ افتاد آ پڑے ہم پر 
کہ جان و دل رہیں اور تیری آرزو نہ رہے 

ترے خیال کی مے دل میں یوں اتاری ہے 
کبھی شراب سے خالی مرا سبو نہ رہے 

وہ دشت درد سہی تم سے واسطہ تو رہے 
رہے یہ سایۂ گیسوئے مشک بو نہ رہے 

کرو ہمارے ہی داغوں سے روشنی تم بھی 
بڑا ہے درد کا رشتہ دوئی کی بو نہ رہے 

نہیں قرار کی لذت سے آشنا یہ وجود 
وہ خاک میری نہیں ہے جو کو بہ کو نہ رہے 

اس التہاب میں کیسے غزل سرا ہو کوئی 
کہ ساز دل نہ رہے خوئے نغمہ جو نہ رہے 

سفر طویل ہے اس عمر شعلہ ساماں کا
وہ کیا کرے جسے جینے کی آرزو نہ رہے

ساجدہ زیدی


 

عمر خیام

یوم پیدائش 18 مئی 1048

عمر خیام کی ایک مشہور و معروف رباعی کا منظوم اردو ترجمہ حسب فرمائش فضل احمد ناظم اردو دکن مترجم ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

از منزل کفر تا بہ دین یک نفس است
وز عالم شک تا بہ یقین یک نفس است
این یک نفس عزیز را خوش می دار
کز حاصل عمر ما ہمین یک نفس است

 عمر خیام


کفر کی منزل سے دیں تک بس یہی ہے ایک سانس
عالم شک سے یقیں تک بس یہی ہے ایک سانس
کر بسر تو شاد و خرم رہ کے اپنی زندگی
عمر کا حاصل یہیں تک بس یہی ہے ایک سانس

مترجم احمد علی برقی اعظمی

گنیش بہاری طرز لکھنوی

یوم پیدائش 18مئی 1929

ماحول سازگار کرو میں نشے میں ہوں 
ذکر نگاہ یار کرو میں نشے میں ہوں 

اے گردشو تمہیں ذرا تاخیر ہو گئی 
اب میرا انتظار کرو میں نشے میں ہوں 

میں تم کو چاہتا ہوں تمہیں پر نگاہ ہے 
ایسے میں اعتبار کرو میں نشے میں ہوں 

ایسا نہ ہو کہ سخت کا ہو سخت تر جواب 
یارو سنبھل کے وار کرو میں نشے میں ہوں 

اب میں حدود ہوش و خرد سے گزر گیا 
ٹھکراؤ چاہے پیار کرو میں نشے میں ہوں 

خود طرزؔ جو حجاب میں ہو اس سے کیا حجاب 
مجھ سے نگاہیں چار کرو میں نشے میں ہوں

گنیش بہاری طرز لکھنوی 



پروین طاہر

یوم پیدائش 17 مئی 1958
ایک نادان نظم

حبیب جاں 
تم اگر وبا کے دنوں میں آئے 
تو بصد عقیدت و محبت 
تمہارے ہاتھ چوموں گی
کیونکہ یہ میرے مسیحا کے ہاتھ ہیں 
تمہاری چادر کو اپنے ہاتھوں سے 
تہہ کر کے اپنے سرہانے رکھوں گی 
کہ اس بکل کی حرارت مجھ پر 
کشف کے در کھولتی ہے 
تمہارے جوتوں کو قرینے سے جوڑ 
کر پلنگ کے پاس رکھوں گی 
تمہارے ساتھ ایک پلیٹ میں 
کھانا کھاؤں گی
اور تمہاری ضدی نظروں کا 
بھرم رکھوں گی 
نہ جانے مجھے کیوں لگتا ہے 
کہ وبا کی آنکھ میں 
محبت کرنے والوں کے لیے 
کچھ حیا باقی ہوگی

پروین طاہر



طیب حسین طاہر

یوم پیدائش 17 مئی 1963

تلخی وقت سے ڈر جاتا ہے 
وقت کا کیا ہے گذر جاتا ہے

کیا کوئی غم سے بھی مرجاتا ہے
زخم جیسا بھی ہو بھر جاتا ہے 

زہر آلودہ ہیں الفاظ ان کے
جاتے جاتے ہی اثر جاتا ہے

جان قربان ترے وعدوں پر
روز وعدوں سے مکر جاتا ہے

اک نئے ولولے سے جیتا ہوں
وہ عیادت مری کر جاتا ہے

چند پہروں کی ہے شہرت ورنہ
اک نشہ ہے جو اتر جاتا ہے 

میں بھی چپ چاپ رہا کرتا ہوں
وہ بھی خاموش گذر جاتا ہے 

در و دیوار چمک اٹھتے ہیں
جب کوئی لوٹ کے گھر جاتا ہے

پال کر حسرتیں طاہر دل میں
اب کہاں دیدۂ تر جاتا ہے 

طیب حسین طاہر



پروفیسر شمیم خنفی

یوم پیدائش 17 مئی 1939

کبھی صحرا میں رہتے ہیں کبھی پانی میں رہتے ہیں 
نہ جانے کون ہے جس کی نگہبانی میں رہتے ہیں 

زمیں سے آسماں تک اپنے ہونے کا تماشا ہے 
یہ سارے سلسلے اک لمحۂ فانی میں رہتے ہیں 

سویرا ہوتے ہوتے روز آ جاتے ہیں ساحل پر 
سفینے رات بھر دریا کی طغیانی میں رہتے ہیں 

پتا آنکھوں کو ملتا ہے یہیں سب جانے والوں کا 
سبھی اس آئینہ خانے کی حیرانی میں رہتے ہیں 

ادھر ہم ہیں کہ ہر کار جہاں دشوار ہے ہم کو 
ادھر کچھ لوگ ہر مشکل کی آسانی میں رہتے ہیں 

کسے یہ نیلی پیلی تتلیاں اچھی نہیں لگتیں 
عجب کیا ہے جو ہم بچوں کی نادانی میں رہتے ہیں 

یہی بے چہرہ و بے نام گھر اپنا ٹھکانہ ہے 
ہم اک بھولے ہوئے منظر کی ویرانی میں رہتے ہیں 

   پروفیسر شمیم خنفی


 

حسن عابد

یوم پیدائش 17 مئی 1935

حسن مختار سہی عشق بھی مجبور نہیں 
یہ جفاؤں پہ جفا اب مجھے منظور نہیں 

زلف زنجیر سہی دل بھی گرفتار مگر 
میں ترے حلقۂ آداب کا محصور نہیں 

دل کا سودا ہے جو پٹ جائے تو بہتر ورنہ 
میں بھی مجبور نہیں آپ بھی مجبور نہیں 

دامن دل سے یہ بیگانہ روی اتنا گریز 
تم تو اک پھول ہو کانٹوں کا بھی دستور نہیں 

چند جام اور کہ میخانۂ جاں تک پہنچیں 
ڈھونڈنے والے مجھے مجھ سے بہت دور نہیں 

سب لباسوں میں ہیں پوشیدہ گناہوں کی طرح 
دل بیباک بھی محفل کے تئیں اور نہیں 

ہر سخن ہوش کا ہے مفتی حیران کے ساتھ 
سب پئے بیٹھے ہیں اور کوئی بھی مخمور نہیں
 
سب رسن بستۂ آزادیٔ ایمان ہوئے 
اب کوئی میرے سوا بندۂ مجبور نہیں 

اس سے مل کر بھی اداس اس کی جدائی بھی گراں 
دل بہ ہر حال کسی طور بھی مسرور نہیں 

حسن عابد 



Monday, May 16, 2022

ڈاکٹر احسان اعطمی

یوم پیدائش 16 مئی

بیٹھ کر بس قوت پرواز پر مت ناز کر
قوت پرواز ہے تو جرأت پرواز کر

اٹھ کہ یہ منزل ہے تیری آخری منزل نہیں
اٹھ نئے عزم سفر سے صبح کا آغاز کر

کیوں زمانے سے ہی رکھتا ہے امید انقلاب
خود بھی تو تبدیل اپنا تو ذرا انداز کر

خود اگر لڑنے سے قاصر ہے تو باطل کے خلاف
کم سے کم کچھ حق کے حق میں ہی بلند آواز کر

زندگی کی راہ میں ہیں سوز بھی اور ساز بھی
گامزن رہنا ہے تو پھر سوز کو بھی ساز کر

عین ممکن ہے کہ کل ہو جائے تیرے ہی خلاف
ہر کس و ناکس پہ افشا اس طرح مت راز کر 

ڈاکٹر احسان اعطمی



میر مہدی مجروح

یوم وفات 15 مئی 1909

غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا 
سمجھے بھی تو کیا سمجھے جانا بھی تو کیا جانا 

اک عمر کے دکھ پائے سوتے ہیں فراغت سے 
اے غلغلۂ محشر ہم کو نہ جگا جانا 

مانگوں تو سہی بوسہ پر کیا ہے علاج اس کا 
یاں ہونٹ کا ہل جانا واں بات کا پا جانا 

گو عمر بسر اس کی تحقیق میں کی تو بھی 
ماہیت اصلی کو اپنی نہ ذرا جانا 

کیا یار کی بد خوئی کیا غیر کی بد خواہی 
سرمایۂ صد آفت ہے دل ہی کا آ جانا 

کچھ عرض تمنا میں شکوہ نہ ستم کا تھا 
میں نے تو کہا کیا تھا اور آپ نے کیا جانا 

اک شب نہ اسے لائے کچھ رنگ نہ دکھلائے 
اک شور قیامت ہی نالوں نے اٹھا جانا 

چلمن کا الٹ جانا ظاہر کا بہانہ ہے 
ان کو تو بہر صورت اک جلوہ دکھا جانا 

ہے حق بطرف اس کے چاہے سو ستم کر لے 
اس نے دل عاشق کو مجبور وفا جانا 

انجام ہوا اپنا آغاز محبت میں 
اس شغل کو جاں فرسا ایسا تو نہ تھا جانا 

مجروحؔ ہوئے مائل کس آفت دوراں پر 
اے حضرت من تم نے دل بھی نہ لگا جانا

میر مہدی مجروح


 

مہتاب قدر

یوم پیدائش 15 مئی 1957

ہجرتوں سے نظر ہٹاو میاں 
گھر بلانے لگے ہیں آو میاں 

پہلے گھر کی ذرا خبر لے لو 
پھر کہیں بھی دئیے جلاو میاں 

چگ رہے ہیں نصیب کا اپنے 
ان پرندوں کو مت اڑاو میاں 

آسماں نا زمین پر قدرت 
کس لئے اس قدر ہے بھاومیاں

کل یہ بچے تمھیں بھلا دیں گے
ان کو اپنی زباں سکھاو میاں 

دوسروں کے گھروں میں جھانکتے ہو
اپنے گھر کو ذرا بچاو میاں

چند سکوں پہ اتنا اترانا
اپنی اوقات مت دکھاو میاں

آپ کتنے شریف زادے ہیں !
رہنے دو منہ نہ اب کھلاومیاں

اردو اپنی شناخت ہے مہتاب 
اپنی پہچان مت گنواو میاں 

مہتاب قدر



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...