Urdu Deccan

Monday, May 30, 2022

منشی امیر اللہ تسلیم

یوم پیدائش 28 مئی 1911

پارسائی ان کی جب یاد آئے گی 
مجھ سے میری آرزو شرمائے گی 

گر یہی ہے پاس آداب سکوت 
کس طرح فریاد لب تک آئے گی 

یہ تو مانا دیکھ آئیں کوئے یار 
پھر تمنا اور کچھ فرمائے گی 

جانے دے صبر و قرار و ہوش کو 
تو کہاں اے بے قراری جائے گی 

ہجر کی شب گر یہی ہے اضطراب 
نیند اے تسلیمؔ کیوں کر آئے گی

منشی امیر اللہ تسلیم


 

Sunday, May 29, 2022

عالم مظفر نگری

یوم وفات 20 مئی 1969

جو ہیں رند ازل گلشن کو مے خانہ سمجھتے ہیں 
کلی کو شیشۂ مے گل کو پیمانہ سمجھتے ہیں
 
حقیقت آشنائے گلستاں فصل بہاراں میں 
ہجوم رنگ و بو کو برق کاشانہ سمجھتے ہیں
 
کسی دن جس کے شعلے خرمن ہستی کو پھونکیں گے 
اسی بجلی کو ہم شمع طرب خانہ سمجھتے ہیں 

نگاہیں ڈالتے ہیں مرکز وحدت سے کثرت پر 
حرم میں رہ کے ہم راز صنم خانہ سمجھتے ہیں 

چھپا لیتے ہیں ہر زخم جگر کو فصل گل میں بھی 
چمن میں پھول منشائے غم پنہاں سمجھتے ہیں 

علمؔ ربط دل و پیکاں اب اس عالم کو پہنچا ہے 
کہ ہم پیکاں کو دل دل کو کبھی پیکاں سمجھتے ہیں 

عالم مظفر نگری


 

اسماء ہادیہ

یوم پیدائش 28 مئی 1994

چوکھٹ پہ تیری لطف صدا کا خرید کر
صدیاں خرید لی ہیں یہ لمحہ خرید کر

اس بے وفا سے پیار کی قیمت نہ لگ سکی
لاے گا میرے واسطے دنیا خرید کر

شہرِ ہنر سے خود ہی بڑی شدتوں سے ہم
لے آے آنسووں کا یہ دریا خرید کر

جب دل ہی بجھ گیا ہو یہ ہجراں کے درد سے
میں کیا کروں گی رونقِ چہرہ خرید کر

یوسف سے آفتاب کو انجامِ عشق میں
زنداں میں ڈال دے گی زلیخا خرید کر

خوش تھے جو روشنی کے تماشے کو دیکھ دیکھ
شرمندہ کس قدر ہیں اندھیرا خرید کر

سب کچھ ھی بیچ ڈالا ہے اس کارِ زیست میں
اور شادماں ہوں شہرِ تمنا خرید کر

اسماء ہادیہ


 

سید نظر علی عدیل

یوم پیدائش 28 مئی 1928

آج رندوں کو ہے غم کس کے بچھڑ جانے کا
منہ پھرالیتے ہیں منہ دیکھ کے پیمانے کا

دعویٰ خوں ہے غلط شمع پہ پروانے کا
خود اسے شوق ہے جلتے ہوئے مرجانے کا

داخلہ ٹھیک نہیں بزم میں دیوانے کا
کہیں اس پر کوئی سایہ نہ ہو ویرانے کا

مصر نے پائی ہے اک اندھے کنویں سے شہرت
ہائے اک شہر پہ احسان ہے ویرانے کا

شہر میں ہر کوئی بیگانہ نظر آتا ہے
گاؤں میں وہم وگماں تک نہیں بیگانے کا

کچھ تو موسی کو بھی حسرت بھی نظربازی کی
اور کچھ شوق تھا اس کو بھی نظر آنے کا

زلف و رخسار کہاں اور شب و روز کہاں
کچھ محل ہی نہ تھا قرآں میں قسم کھانے کا

گل نے کیوں پائی سزا چاک گریبانی کی
کیا اڑایا تھا مذاق آپ کے دیوانے کا

شیخ آئے نہ کہیں بھیس بدل کر رندو
راستہ پوچھ رہا تھا کوئی میخانے کا

کہیے دشمن سے ذرا وار سلیقے سے کرے
کہیں ٹوٹے نہ بھرم آپ کے یارانے کا

پہلے وہ مشق کریں چہرہ بدلنے کی عدیل
ورنہ اندیشہ ہے پہچان لئے جانے کا

سید نظر علی عدیل


 

انورشمیم

یوم پیدائش 28 مئی 1952

مگر کون ہوں میں ____ !!
                                                                     
کبھی بخت سے یہ سعادت ہو حاصل
کہ آنکھیں جڑائیں
دل و دیدہ قسمت جگائیں
سماعت میں چڑیوں کی چہکار اترے
فضاؤں سے رنگوں کی بارات اترے
دھنک رنگ بارش کی سوغات اترے

کسی شامیانے میں بیٹھوں
نہایا ہوا نور کرنوں سے لوٹوں
بدن قصر ویراں کی خلوت سرا میں
جہاں سارے اجزاۓ ترکیبی بکھرے پڑے ہیں
کسی کیمیا سے
کسی لمسِ قُم سے سمٹنے کی ترکیب نکلے
مگر
پتلیاں زرد چادر ڈھکی ہیں
کوئ سبز پانی کو ہانکے لیے جا رہا ہے
کسی تیرہ تاریک روزن
کسی رود اسود کی جانب
کوئ معجزہ ہو
حریری ردا پوش جنگل کے فرش جناں پر
کبھی رقص طاؤس صورت
مجسّم ہو تصویر جاناں
کبھی ہو زیارت
کہ میں ہوں ___ !
مگر کون ہوں میں ___ !!
                                                                     
 انورشمیم



Thursday, May 26, 2022

نوید مرزا

یوم پیدائش 26 مئی 1968

جب کبھی اپنا گھر بناؤں گا
میں تجھے ہم سفر بناؤں گا

اے خدا بخش دے اڑان مجھے
میں کہاں بال و پر بناؤں گا

پنچھیوں سے مکالمہ کر کے
اپنے گھر میں شجر بناؤں گا

اپنے پیکر سے تنگ رہتا ہوں
میں اسے توڑ کر بناؤں گا

ایک تصویر ہوں مصور کی
نقش ہی عمر بھر بناؤں گا

سائباں کی تلاش کرتے ہوئے
دھوپ کی رہگزر بناؤں گا

ایک درویش مجھ سے کہتا ہے
میں تجھے معتبر بناؤں گا

تشنگی نے مجھے پکارا ہے
میں بھی اب چشم تر بناؤں گا

ایک میدان میں ہوں مدت سے
اب میں دیوار و در بناؤں گا

ایک تصویر ہے خیالوں میں
اب اسے سوچ کر بناؤں گا

پیڑ تو سوکھ ہی چکا ہے نوید
میں کہاں اب ثمر بناؤں گا

ایک تازہ غزل کہی ہے نوید
میں اسے پر اثر بناؤں گا

نوید مرزا


 

گھائل اعظمی

یوم پیدائش 25 مئی 1947

شعلوں نے بھیس بدلا ہے اب کے بہار میں
ممکن اگر ہو پھول سے دامن بچایئے

گھائل اعظمی 


 

وکیل احمد چاپدانوی

یوم پیدائش 25 مئی 1949

میری کیا دیکھو گے پہلے اپنی حالت دیکھ لو
آئینے کی کس کو پہلے ہے ضرورت دیکھ لو

تم نظر سے چھپ بھی جاؤ دل سے چھپ سکتے نہیں
گر یقیں آتا نہیں تو کر کے جرأت دیکھ لو

بے سبب بھٹکا کیے میرے لیے صحراؤں میں
تم مرے ہمزاد ہو اپنی ہی صورت دیکھ لو

زندگی سے اتنی الفت دوستو! اچھی نہیں
ایک دن کر جائے گی تم سے بغاوت دیکھ لو

کر بھلا تو ہو بھلا اور کر برا تو ہو برا
ہے اسی دنیا میں دوزخ اور جنت دیکھ لو

ہے کہیں سیلابی صورت ، خشک سالی ہے کہیں
کیسے کیسے کھیل دکھلاتی ہے قدرت دیکھ لو

زیست کا لمبا سفر لے لو دعائیں اپنے ساتھ
کب کہاں انورؔ پڑے ان کی ضرورت دیکھ لو

وکیل احمد چاپدانوی


 

تنہاؔ فریحہ

یوم پیدائش 23 مئی

پاس آتے ہو ، جان لیتے ہو
چھوڑ جاتے ہو ، جان لیتے ہو 

بے رخی مجھ سے بارہا کرکے
دل جلاتے ہو ، جان لیتے ہو

بن تمہارے نہیں لگے جی مرا
کیوں ستاتے ہو ؟ جان لیتے ہو؟

جب مرے ان گنت سوالوں پہ تم 
چب ہوجاتے ہو ، جان لیتے ہو

اس قدر میٹھا اس قدر پیارا
مسکراتے ہو ، جان لیتے ہو

چھوٹی سی باتوں پر خفا ہو کر
منہ بناتے ہو ، جان لیتے ہو

تم محبت سے میری اپنی نظر
جب چراتے ہو ، جان لیتے ہو

میرے اشعار ، میری غزلیں جب
گنگناتے ہو ، جان لیتے ہو

باتوں پر میری جی حضور کی جب
رٹ لگاتے ہو ، جان لیتے ہو

جب کبھی ضد کے آگے میری تم‌
سر جھکاتے ہو ، جان لیتے ہو

میری ساری شرارتوں پر جب
کھلکھلاتے ہو ، جان لیتے ہو

تنہاؔ فریحہ



اسحاق ساجد

یوم پیدائش 23 مئی 1966

دیوانوں میں نام ہوا پردیسی کا
چرچا جگ میں عام ہوا پردیسی کا

شاید دل کی بات زبان پر آئی ہے
شعر غزل انعام ہوا پردیسی کا

گھر والوں کو آئی جب خط کی خوشبو
عام وہیں پیغام ہوا پردیسی کا

آخر کو زندہ رہنے کی خواہش میں
جینا بھی الزام ہوا پردیسی کا

ان آنکھوں کی دل کو پھر سے یاد آئی
خالی جب بھی جام ہوا پردیسی کا

بیگانوں کی محفل میں آ کر ساجدؔ
چال چلن بدنام ہوا پردیسی کا

اسحاق ساجد



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...