Urdu Deccan

Sunday, June 5, 2022

تیمور بلال

یوم پیدائش 01 جون 1999

جب ترے دل پہ کوئی تخت نشیں ہوتا ہے
زخم ہوتے ہیں کہیں درد کہیں ہوتا ہے

ہم نے آتے ہوئے دروازے کھلے چھوڑ دیے
دیکھئے اب کے وہاں کون مکیں ہوتا ہے

میں نے اس طرح نکالا ہے کہیں سے خود کو
میرے ہونے سے بھی احساس نہیں ہوتا ہے

روز دل سے بھلے سو لوگ اتر جاتے ہیں
پھر بھی ہم میں ترا معیار وہیں ہوتا ہے

سانس چلتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی مجھے
بس ترے پاوں کی ٹھوکر سے یقیں ہوتا ہے

تیمور بلال


 

جاوید قاسم

یوم پیدائش 01 جون 1967

کارِشیطاں ہے شر خدا سوں ڈر
اے مرے نامہ بر خدا سوں ڈر

ملک وملت کی سالمیت کو
ٹکڑے ٹکڑے نہ کر خدا سوں ڈر

حملہ آ ور نہ ہو یہود کی مثل
تختِ جمہور پر خدا سوں ڈر

قریہ قریہ نہ ایسے آ گ لگا
پھونک ایسے نہ گھر خدا سو ں ڈر

اس کو کہتے ہیں جرمِ غداری
جرم ایسا نہ کر خدا سوں ڈر

تجھ کو بھی ایک روز مرنا ہے
نارِدوزخ سوں ڈر خدا سوں ڈر

ساری تمہید ہے یہی قاسم
بات ہے مختصر خدا سوں ڈر

جاوید قاسم



قنبر عارفی

یوم پیدائش 01 جون 1960

کیا مجھے لینا کسی کے نام سے 
کام رکھتا ہوں میں اپنے کام سے 

یعنی نظروں سے تری نظریں ملیں
جام ٹکرایا ہے یعنی جام سے 

تو نے پہلا خط جو لکھا تھا مجھے
باندھ کر میں لے گیا احرام سے 

عشق سچا ہے تو میرے ساتھ چل 
ڈر رہا ہے کس لیئے انجام سے 

آپ محوِگفتگو شاعر سے ہیں 
بیٹھیئے قبلہ زرا آرام سے 

ہجر جب اسکا حقیقت بن گیا 
پھر ازالہ کیا کریں اوہام سے 

اس نے آ کر ایک دم اک دم کیا 
دم نکل پاتا نہیں اس دام سے 

نسبتیں قنبر کو بھی غالب سے ہیں 
شاعری زندہ ہے جس بد نام سے 

قنبر عارفی


 

ماجد صدیقی

یوم پیدائش 01 جون 1938

جذبوں کو زبان دے رہا ہوں
میں وقت کو دان دے رہا ہوں

موسم نے شجر پہ لکھ دیا کیا
ہر حرف پہ جان دے رہا ہوں

یوں ہے نم خاک بن کے جیسے
فصلوں کو اٹھان دے رہا ہوں

جو جو بھی خمیدہ سر ہیں ان کے
ہاتھوں میں کمان دے رہا ہوں

کیسی حد جبر ہے یہ جس پر
بے وقت اذان دے رہا ہوں

اوقات مری یہی ہے ماجدؔ
ہاری ہوئی لگان دے رہا ہوں

ماجد صدیقی



شمشاد شاد

ہماری جان کا دشمن سراسر ہو گیا پانی
خدایا خیر اب تو سر سے اوپر ہو گیا پانی

گرو دوارہ، کلیسا، مندر و مسجد بھی جل تھل ہیں
نہ جانے کس کی شہ پر اتنا خودسر ہو گیا پانی

ہے شامل اس کی فطرت میں جو کم ظرفی کا عنصر بھی 
ہوا کے زور پر آپے سے باہر ہو گیا پانی

زمیں پر بیٹھ کر اس بات کی تحقیق جاری ہے
قمر کی سطح سے ناپید کیونکر ہو گیا پانی

بجھانے تشنگی آئیں نہ جب دریا کی لہریں تو
نچوڑی ریت ساحل کی میسر ہو گیا پانی

شہنشاہِ وفا عباسؓ کے بازو کٹے جس دم
ہوا رو رو کے کہتی تھی ستمگر ہو گیا پانی

پلایا شاؔد یہ کہہ کر دمِ آخر نگاہوں سے
مَرو اب چین سے اب تو میسر ہو گیا پانی


شمشاد شاؔد

تسنیمؔ کوثر

یوم پیدائش 30 مئی 1967

معیار اپنا ہم نے گِرایا نہیں کبھی
جو گِر گیا نظر سے وہ بھایا نہیں کبھی

حِرص و ہوس کو ہم نے بنایا نہیں شِعار
اور اپنا اِعتبار گنوایا نہیں کبھی

ہم آشنا تھے موجوں کے برہم مزاج سے
پانی پہ کوئی نقش بنایا نہیں کبھی

اِک بار اُسکی آنکھوں میں دیکھی تھی بے رخی
پھر اس کے بعد یاد وہ آیا نہیں کبھی

تنہائیوں کا راج ہے دل میں تمہارے بعد
ہم نے کسی کو اس میں بسایا نہیں کبھی

تسنیمؔ جی رہے ہیں بڑے حوصلے کے ساتھ
ناکامیوں پہ شور مچایا نہیں کبھی

تسنیمؔ کوثر



Monday, May 30, 2022

خمار میرزادہ

یوم پیدائش 30 مئی 1984

خاموشی کی وادی ہو اور آبادی کی بیلا ہو
بستی کی تنہائی سے کٹ کر جیسے کوئی اکیلا ہو

اس دل سے ان آنکھوں کے رشتے کو بھی تفہیم ملے
اک صحرا کی پیاس بہم ہو اک دریا کا ریلا ہو

باہر سب ہم وار ہے لیکن اندر سلوٹ سلوٹ ہے
دو لفظوں کی کاٹ کو جیسے روح نے خود پر جھیلا ہو

تسلیمات کے سبز پھریرے دالانوں تک آتے ہوں
افق افق پر رقص کرے دن، دن بھی نیا نویلا ہو

پڑے پڑے ہی سو جائیں ہم رکھے رکھے ہی کھو جائیں
شام منڈیریں چوم رہی ہو خواب نگر میں میلہ ہو

جان! گزرتے دن کی حد تک بارِ اذیت جھیلتا ہے
چاہے سوچ کا جلتا ورق ہو چاہے آنکھ کا ڈھیلا ہو

کون آجر ہو ایسے دل کا ایسی جان کی اجرت کیا
کیا بنتا ہے حصہ اس کا جس نے وقت دھکیلا ہو

دونوں طرف کی بانجھ زمینیں ساختوں سے بھر جائیں گی
اک جھرنا انفاس کا ہو اور اک احساس کا ریلا ہو

اس سنجوگ کی بوندوں کے کچھ رنگ اکہرے تھے جیسے
بے ترتیب سی آسانی میں بے انداز ،جھمیلا ہو

زیست مسلسل رنگ بدلتی اک تکرار کی صورت ہے
وہ امکان بدست آئے گا جس نے کھیل یہ کھیلا ہو

اس بازار میں زرد دوپہریں ڈھل جانے کے بعد خمار
اک سے خواب ہیں سب آنکھوں میں جیب میں جیسا دھیلا ہو

خمار میرزادہ


 

گل بخشالوی

یوم پیدائش 30 مئی 1952

قلم ، صدا و قدم جب بھی تو اٹھائے گا
نظام جبر ترا خون ہی بہائے گا

ہمیں امید تھی آئے گی کوئی تبدیلی
خبر نہیں تھی ہمیں تو بھی گل کھلائے گا

کبھی یہ سوچنا اس دور خود پرستی میں
ترے ضمیر کو آکر کوئی جگائے گا

دبی ہے راکھ میں معصوم سی جو چنگاری
بھڑک اٹھی تو کوئی بھی بجھا نہ پائے گا

مرا وجود ہے سیسہ مرے عقیدے کا
میں دیکھتا ہوں کہاں تک تو آزمائے گا

نہا رہا ہے جن آنکھوں میں دیس کو اپنے
لہو میں دیکھنا اپنے بھی تو نہائے گا

نظام وقت کے کم بخت جابر و ظالم
کھبی نہ سوچنا گل تیرے گیت گائے گا

گل بخشالوی



وکیل اختر

یوم پیدائش 30 مئی 1936

زندگی دست تہہ سنگ رہی ہے برسوں
یہ زمیں ہم پہ بہت تنگ رہی ہے برسوں

تم کو پانے کے لیے تم کو بھلانے کے لیے
دل میں اور عقل میں اک جنگ رہی ہے برسوں

اپنے ہونٹوں کی دہکتی ہوئی سرخی بھر دو
داستاں عشق کی بے رنگ رہی ہے برسوں

دل نے اک چشم زدن میں ہی کیا ہے وہ کام
جس پہ دنیائے خرد دنگ رہی ہے برسوں

کس کو معلوم نہیں وقت کے دل کی دھڑکن
میری ہم راز و ہم آہنگ رہی ہے برسوں

صاف تاریخ یہ کہتی ہے کہ منصوری سے
مضمحل سطوت اورنگ رہی ہے برسوں

میری ہی آبلہ پائی کی بدولت اخترؔ
رہگزر ان کی شفق رنگ رہی ہے برسوں

وکیل اختر



ناصر معین

یوم پیدائش 29 مئی 1961

اک مسخرہ سا بن کے زمانے میں رہ گئے  
تا عمر ہم تو ہنسنے ہنسانے میں رہ گئے

پانی ہمارے سر سے بھی اوپر نکل گیا  
ہم ہیں کہ بس قیاس لگانے میں رہ گئے
 
 دشمن ہمارا آگیا دہلیز کے قریب
ہم دوستوں کو شعر سنانے میں رہ گئے

 بھائی کے گھر میں چولہا بھی جلنا محال تھا
ہم تھے کہ گھر کو اپنے سجانے میں رہ گئے  

مطلب پرست تھا ہمیں دیتا رہا فریب 
ہم دوستی کو اپنی نبھانے میں رہ گئے 

اک گھر بنا کے ٹوٹ گئے تھے ہم اسقدر
 باقی تو عمر قرض چکانے میں رہ گئے  

 ظلم و ستم کا سلسلہ ہوتا رہا دراز
ہم صرف اپنی جان بچانے میں رہ گئے    

آنسو بہا رہے ہیں کہ وہ دور اب نہیں
ہم زلف جان جاں کے سجانے میں رہ گئے  

دیدار باپ ماں کا نہیں ہو سکا نصیب
ہم تو عرب میں پیسہ کمانے میں رہ گئے 

خستہ ہے سب کا حال ، سبھی حاشیے پہ ہیں
  دیوارِ مسلکی ہم اٹھانے میں رہ گئے  

اب تخت و تاج اپنی حکومت نہیں رہی
ہم فاختہ حضور اڑانے میں رہ گئے 

خود اتنا گرگئے ہمیں اسکا گماں نہ تھا
نیچا ہمیشہ انکو گرانے میں رہ گئے 

بڑھتا گیا ہجوم غموں کا اف ! اس قدر
جھوٹی ہنسی لبوں پہ دکھانے میں رہ گئے 

رخصت ہوئی جوانی ، ضعیفی کب آگئی 
ہم زندگی کا بوجھ اٹھانے میں رہ گئے   

اعمال نامے اپنے گناہوں سے پر رہے 
ہم دوسروں کے عیب گنانے میں رہ گئے

ناصر ! وہ پست حوصلہ کرتا رہا سدا
 ہم خود کو باوفا ہی دکھانے میں رہ گئے

ناصر معین



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...