یوم پیدائش 29 مئی 1961
اک مسخرہ سا بن کے زمانے میں رہ گئے
تا عمر ہم تو ہنسنے ہنسانے میں رہ گئے
پانی ہمارے سر سے بھی اوپر نکل گیا
ہم ہیں کہ بس قیاس لگانے میں رہ گئے
دشمن ہمارا آگیا دہلیز کے قریب
ہم دوستوں کو شعر سنانے میں رہ گئے
بھائی کے گھر میں چولہا بھی جلنا محال تھا
ہم تھے کہ گھر کو اپنے سجانے میں رہ گئے
مطلب پرست تھا ہمیں دیتا رہا فریب
ہم دوستی کو اپنی نبھانے میں رہ گئے
اک گھر بنا کے ٹوٹ گئے تھے ہم اسقدر
باقی تو عمر قرض چکانے میں رہ گئے
ظلم و ستم کا سلسلہ ہوتا رہا دراز
ہم صرف اپنی جان بچانے میں رہ گئے
آنسو بہا رہے ہیں کہ وہ دور اب نہیں
ہم زلف جان جاں کے سجانے میں رہ گئے
دیدار باپ ماں کا نہیں ہو سکا نصیب
ہم تو عرب میں پیسہ کمانے میں رہ گئے
خستہ ہے سب کا حال ، سبھی حاشیے پہ ہیں
دیوارِ مسلکی ہم اٹھانے میں رہ گئے
اب تخت و تاج اپنی حکومت نہیں رہی
ہم فاختہ حضور اڑانے میں رہ گئے
خود اتنا گرگئے ہمیں اسکا گماں نہ تھا
نیچا ہمیشہ انکو گرانے میں رہ گئے
بڑھتا گیا ہجوم غموں کا اف ! اس قدر
جھوٹی ہنسی لبوں پہ دکھانے میں رہ گئے
رخصت ہوئی جوانی ، ضعیفی کب آگئی
ہم زندگی کا بوجھ اٹھانے میں رہ گئے
اعمال نامے اپنے گناہوں سے پر رہے
ہم دوسروں کے عیب گنانے میں رہ گئے
ناصر ! وہ پست حوصلہ کرتا رہا سدا
ہم خود کو باوفا ہی دکھانے میں رہ گئے