اک اور رہ گزر ہے یہاں رہ گزر کے بعد
ملتی نہیں ہیں منزلیں سب کو سفر کے بعد
احساسِ تشنگی تھا یہاں بعدِ کن فکاں
تکمیلِ کائنات ہوئی ہے بشر کے بعد
امید کی ضیا تھی شبِ انتظار میں
یہ کیسی تیرگی ہے طلوعِ سحر کے بعد
منزل کے واسطے تھا مجھے شوقِ ہم سفر
منزل کی چاہ کس کو ہے اب ہم سفر کے بعد
ابدی حیات ملتی ہے بعدِ مجازی موت
ساحل تمہیں ملے گا یقیناً بھنور کے بعد
رکتی کہاں ہے دیکھیں بشر کی اڑان اب
اک خوب تر کی جستجو ہے خوب تر کے بعد
تاثیر ہے دعا میں بہرحال آج بھی
آئے وہ بے نقاب دعاکے اثر کے بعد
آتش کی جاں کنی پہ ہو مغموم کیوں میاں
آئے گی ایک اور خبر اس خبر کے بعد
احسن آتش