Urdu Deccan

Sunday, June 5, 2022

احسن آتش

یوم پیدائش 01 جون 1956

اک اور رہ گزر ہے یہاں رہ گزر کے بعد
ملتی نہیں ہیں منزلیں سب کو سفر کے بعد

احساسِ تشنگی تھا یہاں بعدِ کن فکاں
تکمیلِ کائنات ہوئی ہے بشر کے بعد

امید کی ضیا تھی شبِ انتظار میں
یہ کیسی تیرگی ہے طلوعِ سحر کے بعد

منزل کے واسطے تھا مجھے شوقِ ہم سفر
منزل کی چاہ کس کو ہے اب ہم سفر کے بعد

ابدی حیات ملتی ہے بعدِ مجازی موت
ساحل تمہیں ملے گا یقیناً بھنور کے بعد

رکتی کہاں ہے دیکھیں بشر کی اڑان اب
اک خوب تر کی جستجو ہے خوب تر کے بعد

تاثیر ہے دعا میں بہرحال آج بھی
آئے وہ بے نقاب دعاکے اثر کے بعد

آتش کی جاں کنی پہ ہو مغموم کیوں میاں
آئے گی ایک اور خبر اس خبر کے بعد

احسن آتش


 

دعبل شاہدی

یوم پیدائش 01 جون

میری نظر کو یہ پرچھائیاں پسند نہیں
سخن شناس ہوں خاموشیاں پسند نہیں 

حصارِِ عشقِ حقیقی میں رہنا چاہتا ہے
میرے ضمیر کو آزادیاں پسند نہیں

میرے قریب نہ آئیں یہ آندھیوں سے کہو
چراغِِ عشق ہوں تاریکیاں پسند نہیں

قدومِ سدرہ نشیں تک میری رسائی ہے
میں آسماں ہوں مجھے پستیاں پسند نہیں 

کُھلی فضاؤں میں اُڑنے کا شوق ہے مجھکو
میں کیا کروں مجھے تنہائیاں پسند نہیں

نچھوڑ سکتا ہوں دامن میں کہساروں کا 
وہ بے طلب مجھے اُونچائیاں پسند نہیں 

خطیبِِ نوکِ سناں کا میں اک مقلد ہوں 
اسی لئے ستم آرائیاں پسند نہیں 

تیرا مزاج انوکھا مزاج ہے دعبل
وہ اور ہیں جنہیں سچائیاں پسند نہیں 

دعبل شاہدی



محمد عالم چشتی

یوم پیدائش 01 جون 1982

مداحِ شفیعِ اُمم ﷺﷺﷺﷺ

رفیعِ نسب وہ عالی بشر فقیدِ حشم شفیعِ اُمم
حبیبِ خدا وہ ختمِ رسل وہ فخرِ نعم شفیعِ اُمم

رفیق علا حمیدِ صفا مدیحِ ثنا وہ صلے علی
وہ وجہِ سخا وہ مہر وفا معیدِ کرم شفیع اُمم

متیعِ احد جلیسِ صمد مقیتِ ابد ہے تاجِ شرف
بشیرِ عدن نذیرِ زمن قدیرِ حرم شفیعِ اُمم

ہے جنکے نگیں یہ لوحِ مبیں یہ عرشِ بریں یہ فرشِ زمیں 
وہ ماہِ مبیں رسول امیں وہ نورِ ارم شفیعِ اُمم

مثالی طلب نرالی طرب یہ عشق عجب یہ ضرب غضب 
ہے پاس ادب اے شاہِ عرب اے کانِ حلم شفیعِ امم

یہ بزم جہاں یہ کون و مکاں پکارے زباں وہ نورِ فشاں
ہے شانِ نشاں امامِ جہاں وہ شہرِ علم شفیعِ اُمم

عطائے سخی ولائے خفی ہے یاد نبی جو دل میں بسی
وظیفہ یہی ثنائے نبی خدا کی قسم شفیعِ امم

محمد عالم چشتی


 

آصف صمیمؔ

یوم پیدائش 01 جون 1990

ہے آمدِ بدرالدّجیٰ ہے روشنی ہی روشنی
اہلاً و سہلا ً مرحبا ہے روشنی ہی روشنی
 
ہے آمدِ خیرالبشر روشن ہے ہر مومن کا گھر
پر نُور ہیں ارض وسما ہے روشنی ہی روشنی

اک سلسلہ تھا ظلمتوں کا چار سو پھیلا ہوا
ابھرا ہے اب شمس الضّحیٰ ہےروشنی ہی روشنی

جس دن حلیمہ سعدیہ لے آئی گھر سرکار کو
رنگیں ہے اُس گھر کی فضا ہے روشنی ہی روشنی

ہے جشنِ میلادِ نبیﷺ میں نےسجائیں محفلیں
آراستہ ہے گھر مرا ہے روشنی ہی روشنی

لکھتا ہوں جب مدحِ نبیﷺ کھلتے ہیں اسرارِ قلم
نعتِ حبیبِ کبریا ہے روشنی ہی روشنی

لکھ کر یہ نعت آصفؔ ہوا تجھ پرکرم سرکار کا
ہر لفظ ہے روشن دیا ہے روشنی ہی روشنی

آصف صمیمؔ



تیمور بلال

یوم پیدائش 01 جون 1999

جب ترے دل پہ کوئی تخت نشیں ہوتا ہے
زخم ہوتے ہیں کہیں درد کہیں ہوتا ہے

ہم نے آتے ہوئے دروازے کھلے چھوڑ دیے
دیکھئے اب کے وہاں کون مکیں ہوتا ہے

میں نے اس طرح نکالا ہے کہیں سے خود کو
میرے ہونے سے بھی احساس نہیں ہوتا ہے

روز دل سے بھلے سو لوگ اتر جاتے ہیں
پھر بھی ہم میں ترا معیار وہیں ہوتا ہے

سانس چلتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی مجھے
بس ترے پاوں کی ٹھوکر سے یقیں ہوتا ہے

تیمور بلال


 

جاوید قاسم

یوم پیدائش 01 جون 1967

کارِشیطاں ہے شر خدا سوں ڈر
اے مرے نامہ بر خدا سوں ڈر

ملک وملت کی سالمیت کو
ٹکڑے ٹکڑے نہ کر خدا سوں ڈر

حملہ آ ور نہ ہو یہود کی مثل
تختِ جمہور پر خدا سوں ڈر

قریہ قریہ نہ ایسے آ گ لگا
پھونک ایسے نہ گھر خدا سو ں ڈر

اس کو کہتے ہیں جرمِ غداری
جرم ایسا نہ کر خدا سوں ڈر

تجھ کو بھی ایک روز مرنا ہے
نارِدوزخ سوں ڈر خدا سوں ڈر

ساری تمہید ہے یہی قاسم
بات ہے مختصر خدا سوں ڈر

جاوید قاسم



قنبر عارفی

یوم پیدائش 01 جون 1960

کیا مجھے لینا کسی کے نام سے 
کام رکھتا ہوں میں اپنے کام سے 

یعنی نظروں سے تری نظریں ملیں
جام ٹکرایا ہے یعنی جام سے 

تو نے پہلا خط جو لکھا تھا مجھے
باندھ کر میں لے گیا احرام سے 

عشق سچا ہے تو میرے ساتھ چل 
ڈر رہا ہے کس لیئے انجام سے 

آپ محوِگفتگو شاعر سے ہیں 
بیٹھیئے قبلہ زرا آرام سے 

ہجر جب اسکا حقیقت بن گیا 
پھر ازالہ کیا کریں اوہام سے 

اس نے آ کر ایک دم اک دم کیا 
دم نکل پاتا نہیں اس دام سے 

نسبتیں قنبر کو بھی غالب سے ہیں 
شاعری زندہ ہے جس بد نام سے 

قنبر عارفی


 

ماجد صدیقی

یوم پیدائش 01 جون 1938

جذبوں کو زبان دے رہا ہوں
میں وقت کو دان دے رہا ہوں

موسم نے شجر پہ لکھ دیا کیا
ہر حرف پہ جان دے رہا ہوں

یوں ہے نم خاک بن کے جیسے
فصلوں کو اٹھان دے رہا ہوں

جو جو بھی خمیدہ سر ہیں ان کے
ہاتھوں میں کمان دے رہا ہوں

کیسی حد جبر ہے یہ جس پر
بے وقت اذان دے رہا ہوں

اوقات مری یہی ہے ماجدؔ
ہاری ہوئی لگان دے رہا ہوں

ماجد صدیقی



شمشاد شاد

ہماری جان کا دشمن سراسر ہو گیا پانی
خدایا خیر اب تو سر سے اوپر ہو گیا پانی

گرو دوارہ، کلیسا، مندر و مسجد بھی جل تھل ہیں
نہ جانے کس کی شہ پر اتنا خودسر ہو گیا پانی

ہے شامل اس کی فطرت میں جو کم ظرفی کا عنصر بھی 
ہوا کے زور پر آپے سے باہر ہو گیا پانی

زمیں پر بیٹھ کر اس بات کی تحقیق جاری ہے
قمر کی سطح سے ناپید کیونکر ہو گیا پانی

بجھانے تشنگی آئیں نہ جب دریا کی لہریں تو
نچوڑی ریت ساحل کی میسر ہو گیا پانی

شہنشاہِ وفا عباسؓ کے بازو کٹے جس دم
ہوا رو رو کے کہتی تھی ستمگر ہو گیا پانی

پلایا شاؔد یہ کہہ کر دمِ آخر نگاہوں سے
مَرو اب چین سے اب تو میسر ہو گیا پانی


شمشاد شاؔد

تسنیمؔ کوثر

یوم پیدائش 30 مئی 1967

معیار اپنا ہم نے گِرایا نہیں کبھی
جو گِر گیا نظر سے وہ بھایا نہیں کبھی

حِرص و ہوس کو ہم نے بنایا نہیں شِعار
اور اپنا اِعتبار گنوایا نہیں کبھی

ہم آشنا تھے موجوں کے برہم مزاج سے
پانی پہ کوئی نقش بنایا نہیں کبھی

اِک بار اُسکی آنکھوں میں دیکھی تھی بے رخی
پھر اس کے بعد یاد وہ آیا نہیں کبھی

تنہائیوں کا راج ہے دل میں تمہارے بعد
ہم نے کسی کو اس میں بسایا نہیں کبھی

تسنیمؔ جی رہے ہیں بڑے حوصلے کے ساتھ
ناکامیوں پہ شور مچایا نہیں کبھی

تسنیمؔ کوثر



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...