Urdu Deccan

Saturday, June 25, 2022

یوم پیدائش 10 جون 1956

تیری یادوں کے جگنو چمکنے لگے
 راستوں میں جہاں بھی اندھیرا ہوا
 
شاہد سیانوی



عابد ابدال

یوم پیدائش 09 جون 1986

آدمی ہے جو بھلا دیتا ہے
جو بھی ملتا ہے خدا دیتا ہے

ظلم وحشت کو جلا دیتا ہے
عدل ظلمت کو مٹا دیتا ہے

جب کوئی وقت گنوا دیتا ہے
وقت بھی اس کو بھلا دیتا ہے

ترا ہر وقت پریشاں ہونا
مری بے چینی بڑھا دیتا ہے

 تیرا چلمن سے مسلسل تکنا
 مجھ کو دیوانہ بنا دیتا ہے
 
واں بھی رسوا نہیں ہونے دے گا
جو یہاں عیب چھپا دیتا ہے

گویا اس دنیا کا ذرہ ذرہ
ترے ہونے کا پتا دیتا ہے 

عابد ابدال


 

نشتر امروہوی

یوم پیدائش 09 جون 1957

ایک دن مجھ سے یہ فرمانے لگی بیوی مری 
میری سوتن بن گئی ہے آپ کی یہ شاعری 

وہ یہ کہہ کر مجھ سے کرتی ہے ہمیشہ احتجاج 
شاعری سے آپ کی ہوتا ہے مجھ کو اختلاج 

سوچتی ہوں کس طرح ہوگا ہمارا اب نباہ 
مجھ کو روٹی چاہئے اور آپ کو بس واہ واہ 

مجھ کو رہتی ہے سدا بچوں کے مستقبل کی دھن 
آپ بیٹھے کر رہے ہیں فاعلاتن فاعلن 

رات کافی ہو چکی ہے نیند میں بچے ہیں دھت 
آپ یوں ساکت ہوئے بیٹھے ہیں جیسے کوئی بت 

میں یہ کہتی ہوں چکا دیجے جو پچھلا قرض ہے 
آپ اپنی دھن میں کہتے ہیں کہ مطلع عرض ہے 

میں یہ کہتی ہوں کہ دیکھا کیجئے موقع محل 
چھیڑ دیتے ہیں کہیں بھی غیر مطبوعہ غزل 

مان لیتی ہوں میں چلئے آپ ہیں شاعر گریٹ 
شاعری سے بھر نہیں سکتا مگر بچوں کا پیٹ 

اپنے ہندستان میں مردہ پرستی عام ہے 
جتنے شاعر مر چکے ہیں بس انہیں کا نام ہے 

جب تلک زندہ رہے پیسے نہ تھے کرنے کو خرچ 
مر گئے تو ہو رہی ہے مرزا غالبؔ پر ریسرچ 

میں یہ بولا بند کر اپنا یہ بے ہودہ کلام 
تجھ کو کیا معلوم کیا ہے ایک شاعر کا مقام 

جھوٹ ہے شامل تصنع ہے نہ کچھ اس میں دروغ 
شاعری سے پا رہی ہے آج بھی اردو فروغ 

ہوں ثنا خواں میں فگارؔ و ساغرؔ و شہبازؔ کا 
رخ بدل ڈالا جنہوں نے شعر کے پرواز کا

نشتر امروہوی



Wednesday, June 8, 2022

صفدر حسین

یوم پیدائش 08 جون 1967

زبان رکھتے ہیں لیکن خلاف حق تلفی
سوال یہ ہے کہ چیخ و پکار کون کرے

صفدر حسین


 

کیف عظیم آبادی

یوم پیدائش 08 جون 1937

نفس نفس میں ہوں اک بوئے صد گلاب لیے 
میں جاگتا ہوں نگاہوں میں تیرے خواب لیے 

ہمارے عہد کے لوگوں کو کیا ہوا یارو 
وہ جی رہے ہیں مگر ریت کا سراب لیے 

میں بھول سکتا نہیں حسرت نظر اس کی 
وہ ایک شخص جو گزرا ہے اضطراب لیے 

اداس رات کی تاریکیوں نے چھیڑا ہے 
اب آ بھی جاؤ نگاہوں میں ماہتاب لیے 

یہ چلچلاتی ہوئی دھوپ جل رہا ہے بدن 
گزر رہی ہے یوں ہی حسرت سحاب لیے

کیف عظیم آبادی


 

نسیم بیگم نسیم

یوم پیدائش 08 جون 1961

برسوں وفا کے نام پہ ان سے جڑے رہے 
جھوٹے تھے اعتبار کے جو سلسلے رہے

مجھکو پکارتی ہی رہی میری زندگی 
جب تیرے غم کی دھوپ میں سائے ڈھلے رہے

یادوں کے سارے عکس بکھر کر فنا ہوئے 
ٹوٹے ہوئے خیال کے جب آئینے رہے

ہم وہ ہیں جن کو خوف اندھیروں کا بھی نہیں 
طوفان میں چراغ جلا کر کھڑے رہے

بس تیرے آس پاس ہی دنیا رہی مری 
یوں طائر خیال کے بھی پر کٹے رہے 

  نسیم بیگم نسیم


 

عشرت معین سیما

یوم پیدائش 07 جون 1968

میں نے خود پنجرے کی کھڑکی کھولی ہے 
چڑیا اپنے آپ کہاں کچھ بولی ہے 

سورج نے جنگل میں ڈیرے ڈالے ہیں 
پت جھڑ نے بھی کھیلی آنکھ مچولی ہے 

یوں باہیں پھیلائے ملتی ہے آ کر 
بارش جیسے مٹی کی ہمجولی ہے 

ہائے تشخص کی ماری اس دنیا میں 
سب کی اپنی ریتی اپنی بولی ہے 

دیپ جلائے رستہ تکتی رہتی ہوں 
وہ آئے تو عید دوالی ہولی ہے 

اس کا لہجہ رات کی رانی کے جیسا 
اف اس نے یہ کیسی خوشبو گھولی ہے 

کیسی گرانی ہے عزت کی روٹی میں 
اس سے سستی اک بندوق کی گولی ہے 

پوچھ رہی ہے اپنی ماں سے اک بیٹی 
بیاہ کے معنی زیور لہنگا چولی ہے 

کب سے لے کر آس کرم کی یا اللہ 
تیرے در پہ اپنی پھیلی جھولی ہے 

خود غرضی کے دور میں سیماؔ رشتوں سے 
امیدیں رکھتی ہے کتنی بھولی ہے

عشرت معین سیما



صابر جوھری بھدوہوی

زندگی نغمہ کناں ہو تو غزل ہوتی ہے
ہر جگہ امن و اماں ہو تو غزل ہوتی ہے

درد سینے میں نہاں ہو تو غزل ہوتی ہے 
"عزم شاعر کا جواں ہو تو غزل ہوتی ے" 

زندگی رشک جناں ہو تو غزل ہوتی ہے 
زیر پا کاہکشاں ہو تو غزل ہوتی ہے 

موسم گل کو ذرا بڑھ کے دے آواز کوئی
جب سمن ریز سماں ہو تو غزل ہوتی ہے 

جس گھڑی شاعر الفت کے حریم دل میں 
رنج اور غم کا دھواں ہو تو غزل ہوتی ہے 

کھل اٹھیں پھولوں کے ہونٹوں پہ تبسّم کی کلی 
اس طرح رقص خزاں ہو تو غزل ہوتی ہے 

ان کی یادوں کے اجالے ہیں میرے چاروں طرف 
جب اجالوں کا سماں ہو تو غزل ہوتی ہے  
 
حسن پوشیدہ ہے ہر چیز میں اس دنیا کی 
راز ہستی جو عیاں ہو تو غزل ہوتی ہے 

رنج و آلام سے ملتا ھے نیا عزم ہمیں 
زندگی بار گراں ہو تو غزل ہوتی ہے 

صحن دل میں هو بہر سمت گلوں کی بارش 
چشمہ_ شوق رواں ہو تو غزل ہوتی ہے 

نکہت و رنگ میں ڈوبا ہو جہاں کا منظر 
جب چمن زار جہاں ہو تو غزل ہوتی ہے 

فکر کی لو کو ذرا تیز کرو اے صابر ! 
فکر جب شعلہ فشاں ہو تو غزل ہوتی ہے 

صابر جوھری بھدوہوی


 

نادیہ گیلانی

یوم پیدائش 07 جون 1992

اے دوست اب سہاروں کی عادت نہیں رہی
تیری تو کیا کسی کی ضرورت نہیں رہی

اب کے ہماری جنگ ہے خود اپنے آپ سے
یعنی کہ جیت ہار کی وقعت نہیں رہی 

اک بات پوچھنی ہے خدا سے بروزِ حشر
کیا آپ کو بھی ہم سے محبت نہیں رہی؟ 

آسان تو نہیں ہے نہ عورت پہ شاعری 
عورت بھی وہ جو ٹوٹ کے عورت نہیں رہی 

عادت اکیلے پن کی جو پہلے عذاب تھی 
اب لطف بن گئی ہے اذیت نہیں رہی 

نادیہ گیلانی


 

سیّدہ منوّر جہاں منوّر

لب پہ ہر دم حمدِ باری اور نبی کا نام ہو
اے خدا یہ مشغلہ میرا بھی صبح و شام ہو
اور مجھ سے دُور کوسوں گردشِ ایّام ہو
لب پہ ہر دم حمدِ باری اور نبی کا نام ہو

ہوگا اُن کے فیض سے حاصل شعورِ زند‏گی
اُسوۂ آقا اگر بن جائے نورِ زندگی
رحمتِ کونین کا پھر کیوں نہ چرچا عام ہو
لب پہ ہر دم حمدِ باری اور نبی کا نام ہو

سنّتِ آقا پہ چل کر دیکھ اے غافل کبھی
ہو ہی جائے گی سعادت دید کی حاصل کبھی
سرخرو دونوں جہاں میں اور خوش انجام ہو
لب پہ ہر دم حمدِ باری اور نبی کا نام ہو

بارشِ رحمت ہو روز و شب در و دیوار پر
بخش دے مولا مجھے اِن نعتیہ اشعار پر
دشمنوں کا جھوٹا ثابت ہر خیالِ خام ہو
لب پہ ہر دم حمدِ باری اور نبی کا نام ہو

کل منوّر! ہوگی مشکل میں بھی آسانی بہت
حشر میں ہوگا رخِ مدّاح نورانی بہت
کاش آقا کے غلاموں میں بھی میرا نام ہو
لب پہ ہر دم حمدِ باری اور نبی کا نام ہو

سیّدہ منوّر جہاں منوّر

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...