Urdu Deccan

Sunday, July 31, 2022

یوم پیدائش 28 جولائی 1943

تمہاری یاد ہمیں وصل سے بھی پیاری ہے
 دل  خزاں زدہ  میں  باد  نو بہاری ہے

 نہ اتفاق  سے لگ  جائے ہاتھ  غیروں  کے
 یہ میرے دل کی جو جاگیر اب تمہاری ہے 

تری  تو ساتھ  کسی کے گزر  رہی ہوگی
ترے  فراق کی یہ شب جو مجھ پہ بھاری ہے

ہے نظم زیست ہی ابتر ترے غموں کے سبب
 وہ غم جو شب کو میں کھاتا تھا اب نہاری ہے

 نہ رہ پہ لاسکے تقدیر کی سواری کو
 تو روبکاری بھی انساں کی نابکاری ہے

خودی پہ بار نہ ہو جس کی زور دستی  کا 
 بشر پہ رب کا وہ  انعام انکساری  ہے

 لگا رکھا ہے جسے سب نے اپنے تن من سے
  حیات  فانی  تکبر  ہے  شرمساری   ہے

  قسم  زمانے  کی حق پر اگر  رہے تلقین   
  خدائے پاک  کا  منشور  برد باری  ہے

 امین چغتائی 


 

منیر ارمان نسیمی

یوم پیدائش 28 جولائی 1969

جو نبیؐ کا غلام ہو جائے
وہ ہمارا امام ہو جائے

آتا جاتا رہوں مدینہ کو
عمر یو نہی تمام ہو جائے

بند مٹھی میں حکمِ آقاؐ سے
کنکروں سے کلام ہو جائے

مرے پیاسے لبوں کے نام آقاؐ
حوضِ کوثر کا جام ہو جائے

اس کی قسمت کا یارو کیا کہنا
جس کا طیبہ مقام ہو جائے

میرے دل میں ہے بس یہی ارمانؔ
نعت خواں میں بھی نام ہو جائے

منیر ارمان نسیمی



سیدہ شانِ معراج

یوم پیدائش 22 جولائی 1948

ہجر میں تیرے تصور کا سہارا ہے بہت 
رات اندھیری ہی سہی پھر بھی اجالا ہے بہت 

مانگ کر میری انا کو نہیں دریا بھی قبول 
اور بے مانگ میسر ہو تو قطرہ ہے بہت 

یہ تو سچ ہے کہ شب غم کو سنوارا تم نے 
چشم تر نے بھی مرا ساتھ نبھایا ہے بہت 

بات کرنا تو کجا اس سے تعارف بھی نہیں 
عمر بھر جس کو ہر اک حال میں سوچا ہے بہت 

جانے کیوں مجھ سے وہ کترا کے گزر جاتا ہے 
جس نے خود مجھ کو کبھی ٹوٹ کے چاہا ہے بہت 

ہم سے فن کار بھی اس دور میں کم ہی ہوں گے 
ہم نے دنیا سے ترے غم کو چھپایا ہے بہت 

وہ کہیں مجھ سے تغافل کا سبب پوچھ نہ لے 
شان آج اس نے مجھے غور سے دیکھا ہے بہت

سیدہ شانِ معراج



سحاب قزلباش

یوم وفات 27 جولائی 2004

بڑھے چلو کہ تھکن تو نشے کی محفل ہے 
ابھی تو دور بہت دور اپنی منزل ہے 

یہ بے قرار تبسم ترے لبوں کا فسوں 
یہی تو چاک گریباں کی پہلی منزل ہے 

کسی کا راز تو پھر بھی پرائی بات ہوئی 
خود اپنے دل کو سمجھنا بھی سخت مشکل ہے 

کسی نے چاند پہ لہرا دیا ہے پرچم وقت 
کوئی ہماری طرح سہل جس کو مشکل ہے 

اک آبشار پہ مانند برگ آوارہ 
کوئی مقام ہے اپنا نہ کوئی منزل ہے

سحاب قزلباش


 

عارش کاشمیری

یوم پیدائش 27 جولائی 1974

ہر نقش مٹا جانا جانے سے ذرا پہلے
اس گھر میں ذرا جانا جانے سے ذرا پہلے

جینے کا ہنر مجھ کو یہ دنیا سکھا دے گی
مرنے کا بتا جانا جانے سے ذرا پہلے

خط پیار بھرے اپنے اور اپنی یہ تصویریں
لو آپ جلا جانا جانے سے ذرا پہلے

وہ بات بھلا کیا تھی پہنچی جو بچھڑنے تک
وہ بات بتا جانا جانے سے ذرا پہلے

رنج اس کے بھی دل میں تھا عارش سے بچھڑے کا
اشکوں کا وہ آ جانا جانے سے ذرا پہلے

عارش کاشمیری
 

عنایت وصی

یوم پیدائش 27 جولائی 1989

ہوئی بے اثر ہر دعا تم نہ آئے
"چراغِ نظر بجھ گیا تم نہ آئے"

تمہارے لیے دل میں سپنے سجاکر
ہوں رستے میں کب سے کھڑا تم نہ آئے

کہا تھا یہ تم نے میں آؤں گا اک دن
سو میں منتظر ہی رہا تم نہ آئے 

سبھی آئے اپنے پرائے مرے گھر
تمہارا ہی تھا آسرا تم نہ آئے

وصی میری چاہت کا میری وفا کا
تھا برسوں سے تم کو پتا تم نہ آئے

  عنایت وصی



راکیش دلبر سلطانپوری

یوم پیدائش 27 جولائی 1972

دِل خطا کا تِری کیا چارہ کریں 
مذہبِ عشق میں کفارہ کریں

کوزہ گر جو مجھے دوبارہ کریں 
اُس کی مٹّی سے مِرا گارا کریں 
  
سنگ دیوانے کی قسمت ہے مگر 
پھول کو پھول سے ہی مارا کریں 

ہم نے آنکھوں سے نمک جھاڑ دِیا 
آپ بھی جھیل کو مت کھارا کریں 

استعارے تو بہت ہیں لیکن 
نام اب اُس کا غزل پارہ کریں

اِتنا کیوں آگ بگولا ہوئے تم 
ہم بھی کیا اپنے کو انگارا کریں 

زِندگانی ہے جُواری کی طرح 
جیتنے کے لیے کُچھ ہارا کریں 

ایسا کوئی نہیں مِلتا "دلبر"
جس کے حصّے میں سُخن سارا کریں 

راکیش دلبر سلطانپوری


 

فضا جالندھری

یوم پیدائش 27 جولائی 1905

تجھے کس طرح چھڑاؤں خلش غم نہاں سے 
دل بے قرار لاؤں انہیں ڈھونڈ کر کہاں سے 

وہ بہار کاش آئے وہ چلے ہوائے دل کش 
کہ قفس پہ پھول برسیں مری شاخ آشیاں سے 

کبھی قافلے سے آگے کبھی قافلے سے پیچھے 
نہ میں کارواں میں شامل نہ جدا ہوں کارواں سے 

مرے بعد کی بہاریں مری یادگار ہوں گی 
کہ کھلیں گے پھول اکثر مری خاک رائیگاں سے 

ابھی مسکرا رہی تھیں مری آرزو کی کلیاں 
مجھے لے چلا مقدر سوئے دام آشیاں سے 

جو جبیں میں تھا امانت مرا شوق جبہ سائی 
وہ لپٹ کے رہ گیا ہے ترے سنگ آستاں سے 

ملی لمحہ بھر بھی فرصت نہ فضاؔئے غمزدہ کو 
وہ برس رہے ہیں فتنے شب و روز آسماں سے

فضا جالندھری



امین جس پوری

یوم پیدائش 27 جولائی 1953

بالیدگئِ جاں کو بھی موجِ صبا نہ مانگ
بیمار سارے شہر ہیں، تازہ ہوا نہ مانگ

ہر شخص ڈھل چکا ہے اب اعداد میں یہاں
اجداد کا اب ہم سے زمانے پتہ نہ مانگ

رفتار سے اب بھیڑ کی رستوں پہ بہنا سیکھ
اب سست ہم سفر سے کہیں راستا نہ مانگ

بیگانہ ہو چکی ہیں جو زیور سے شرم کے
ان شوخ تتلیوں کے پروں سے حیا نہ مانگ

ہر گز نہیں بدلتے مشیّت کے فیصلے
اللہ کی رضا کے سوا بھی دعا نہ مانگ

اس عکسِ آئینہ سے نہ کوئی امید رکھ
یہ ہے سرائے فانی یہاں آسرا نہ مانگ

اِس طنزیہ نمک کو دوائی سمجھ امینؔ
زخموں کے واسطے کوئی برگِ حنا نہ مانگ

امین جس پوری


کاشف مجید

یوم پیدائش 25 جولائی 1974 

بے دلی زیر و زبر کرتا ہوا 
اک نظارا دل میں گھر کرتا ہوا 

جا رہا ہوں اک محبّت کی طرف 
اپنے سائے سے حزر کرتا ہوا 

میں خدا سے اور خدائی سے پرے 
اپنی تنہائی بسر کرتا ہوا 

آن پہنچا ہوں حقیقت کے قریب 
داستانوں کا سفر کرتا ہوا 

دل میں آنا ہے ترے اور آؤں گا 
ایک دنیا کو خبر کرتا ہوا 

کاشف مجید


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...