Urdu Deccan

Sunday, July 31, 2022

احمد رئیس

یوم پیدائش 31 جولائی 1942

سینے پر سو وار سہے جب دشمن کی تلوار اٹھی
ہمت اس دن ٹوٹی جس دن آنگن میں دیوار اٹھی

احمد رئیس


ماجد جہانگیر مرزا

یوم پیدائش 31 جولائی 1984

تیری آہٹ جب سنائی دے مجھے
تجھ سوا پھر کیا دکھائی دے مجھے

 ذائقہ چکھ لوں ذرا سا ہجر کا 
یار سے اک پل جدائی دے مجھے

میں لکھوں افلاک کے قصے تمام    
خاک کے اندر رسائی دے مجھے

پھنس گیا عشق و خرد کے درمیاں
کیسے رستہ پھر سجھائی دے مجھے

تو نظر سے گر گیا ہے دوستا
چل پرے ہٹ مت صفائی دے مجھے

میں گنہ کے لفظ سے نفرت کروں
پارسائی پارسائی دے مجھے

اس نہج پر اب ریاضت ہے مری 
بولے گونگا اور سنائی دے مجھے

کر رہی ہے اب تقاضہ شاعری 
فکرِ دنیا سے رہائی دے مجھے

وا کر اب ماجد پہ اپنی رحمتیں
حرفِ تازہ کی کمائی دے مجھے

 ماجد جہانگیر مرزا۔



حماد سرور

یوم پیدائش 31 جولائی 2001

آٹھ سمتوں میں چار کونوں میں 
دل لگایا نہیں کھلونوں میں 

یہ تو میں کچھ عیاں نہیں کرتا 
غم ہے میرے تمام کونوں میں 

میں تو ٹھہرا تمہاری راہ کی خاک 
چاند شامل ہے جب کھلونوں میں 

بادشہ ہوں میں اپنے جیسوں کا 
میرا قد ہے بلند بونوں میں

جن میں آرام ہم نے کرنا تھا 
گھس گئے سانپ اُن بچھونوں میں

پورا ہونے کی بات کیسے کریں 
ہم، جو آدھوں میں ہیں نہ پونوں میں

ایک جیسے ہیں عشق اور دنیا
کچھ بھی اچھا نہیں ہے دونوں میں

حماد سرور



صبیحہ سنبل

یوم پیدائش 31 جولائی 

حسین تاج کی صورت یہ بے صدا پتھر 
دکھا رہے ہیں محبت کا معجزہ پتھر 

ثبوت سنگ دلی اس سے بڑھ کے کیا ہوگا 
جو پھول پھینکا مری سمت بن گیا پتھر
 
تمھارے شہر کو میں کیوں نہ کامروپ کہوں 
کہ اک نگاہ نے مجھ کو بنا دیا پتھر 

سمجھ سکے نہ کبھی مصلحت زمانے کی 
بس اس قصور پہ کھائے ہیں بارہا پتھر 

کریں گے اب نہ گلہ تم سے بے وفائی کا 
لو آج ہم نے کلیجے پہ رکھ لیا پتھر 

سنا رہے ہیں کہانی وفا پرستوں کی 
سجے ہوئے ہیں جو مقتل میں جا بجا پتھر 

صبیحہ سنبل



حمیرا راحتؔ

یوم پیدائش 31 جولائی 1959

فسانہ اب کوئی انجام پانا چاہتا ہے 
تعلق ٹوٹنے کو اک بہانہ چاہتا ہے 

جہاں اک شخص بھی ملتا نہیں ہے چاہنے سے 
وہاں یہ دل ہتھیلی پر زمانہ چاہتا ہے 

مجھے سمجھا رہی ہے آنکھ کی تحریر اس کی 
وہ آدھے راستے سے لوٹ جانا چاہتا ہے 

یہ لازم ہے کہ آنکھیں دان کر دے عشق کو وہ 
جو اپنے خواب کی تعبیر پانا چاہتا ہے 

بہت اکتا گیا ہے بے سکونی سے وہ اپنی 
سمندر جھیل کے نزدیک آنا چاہتا ہے 

وہ مجھ کو آزماتا ہی رہا ہے زندگی بھر 
مگر یہ دل اب اس کو آزمانا چاہتا ہے 

اسے بھی زندگی کرنی پڑے گی میرؔ جیسی 
سخن سے گر کوئی رشتہ نبھانا چاہتا ہے

حمیرا راحتؔ



نجمہ تصدیق

یوم پیدائش 31 جولائی 1917

کرم تیرا کہ سوز جاودانی لے کے آئی ہوں 
مگر یہ کیا کہ میں اک عمر فانی لے کے آئی ہوں 

یہ کس کافر کی محفل ہے کہ جس میں نذر کرنے کو 
میں دل کی دھڑکنیں آنکھوں کا پانی لے کے آئی ہوں 

یہ دنیا یہ خلوص و عشق کے رنگ آفریں نغمے 
بیاباں میں گلستاں کی کہانی لے کے آئی ہوں 

بھڑک کر شعلہ بن جائے کہ بجھ کر راکھ ہو جائے 
ہوا کی زد پہ شمع زندگانی لے کے آئی ہوں 

اگر چاہوں یہ دنیا پھونک ڈالوں اپنے نغموں سے 
کہ میں سانسوں میں شعلوں کی روانی لے کے آئی ہوں 

مرا دل بھی ہے محسوسات کا آتش کدہ آخر 
عجب کیا ہے جو ذوق شعر خوانی لے کے آئی ہوں 

ضیا اندوز ہوں اک آسمانی نور سے نجمہؔ 
زمیں پر چاند تاروں کی جوانی لے کے آئی ہوں

نجمہ تصدیق



شاہد اقبال

یوم پیدائش 30 جولائی 1981

مسلسل چل نہیں سکتا کہیں منزل نظر آئے
یہ دورِ آزمائش ہے کوئی تو راہ بر آئے

نوازش کی توقع تھی کٹا کر اپنا سر آئے
ترے کوچے سے جانِ جاں لہو میں تر بہ تر آئے

محبت کے قواعد کا عجب انداز ہے صاحب
رخِ روشن پہ پردہ ہے، مگر چہرہ نظر آئے

شبِ فرقت یہی ہے آرزو اے خالقِ عالم
اذانِ فجر سے پہلے مرادِ قلب بر آئے

کوئی کہہ دے فقط اتنا مرے دم ساز سے جا کر 
مرے کاشانۂ دل میں کبھی باچشمِ تر آئے

دیارِ ہند میں کس کو بنائیں رہنما یا رب
کسی ساعت کہیں سے تو صدائے معتبر آئے

وہ درِ بے بہا لے کر دیارِ عشق میں شاہدؔ
حدیثِ عشق کہتی ہے بہ اندازِ دِگر آئے

شاہد اقبال



آفاق احمد

یوم پیدائش 30 جولائی 1932

بوجھ میرے ذہن کا اس روز ہلکا ہوگیا
رنگ جب محرومیوں کا اور گہرا ہوگیا

ایک لمحے کے لیے غصے میں دیکھا تھا اسے
سات پردوں میں چھپا وہ شخص ننگا ہوگیا

اس کی جانب پھیکنے کا جب ارادہ ہی کیا
 ہاتھ کا پتھر نہ جانے کیسے شیشہ ہوگیا

ہر طرف رنگینیاں تھیں خواب تھے ، ارمان تھے
دیکھتے ہی دیکھتے، یہ شہر صحرا ہوگیا

بہہ گئیں موجوں میں جس کی شوق کی محرومیاں
خشک آنکھوں سے رواں میری وہ دریا ہو گیا

مندمل سب ہو گئے آفاقی جتنے زخم تھے
گھاؤ لیکن روح کا کچھ اور گہرا ہوگیا

آفاق احمد

حامد امروہوی

یوم وفات 29 جولائی 2022

باغِ جنت سے حسیں کیوں نہ ہو کُوچا انؐ کا
جس کی گلیوں میں مہکتا ہے پسینا انؐ کا

انؐ کے الطاف وکرم کا تو ٹھکانا کیا ہے
بھیک دیتا ہے شہنشاہوں کو منگتا انؐ کا

وہ جو خود اپنے غلاموں کو قبائیں بخشیں
نہیں پیوند سے خالی کوئی کرتا انؐ کا

بے نواؤں کو نوا اؐن کے کرم نے بخشی
بے سہاروں کا سہارا ہے سہارا انؐ کا 

ختم ہوتی ہے جہاں سرحدِ فہم وادراک
اس سے آگے ہے کہیں نقش کف پا انؐ کا

میری دنیا میں تو ہر وقت سحر رہتی ہے
شام ہونے نہیں دیتا ہے اجالا انؐ کا

اس کی راہوں میں پلکوں کو بچاؤں حامد
کہیں مل جائے اگر دیکھنے والا انؐ کا

حامد امروہوی

 


مصطفیٰ علی ہمدانی

یوم پیدائش 29 جولائی 1909

محبت بحرِ طوفانی ہے جو ساحل نہیں رکھتا
محبت دشتِ بے پایاں ہے جو منزل نہیں رکھتا

مصطفیٰ علی ہمدانی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...