یوم پیدائش 31 جولائی 1984
تیری آہٹ جب سنائی دے مجھے
تجھ سوا پھر کیا دکھائی دے مجھے
ذائقہ چکھ لوں ذرا سا ہجر کا
یار سے اک پل جدائی دے مجھے
میں لکھوں افلاک کے قصے تمام
خاک کے اندر رسائی دے مجھے
پھنس گیا عشق و خرد کے درمیاں
کیسے رستہ پھر سجھائی دے مجھے
تو نظر سے گر گیا ہے دوستا
چل پرے ہٹ مت صفائی دے مجھے
میں گنہ کے لفظ سے نفرت کروں
پارسائی پارسائی دے مجھے
اس نہج پر اب ریاضت ہے مری
بولے گونگا اور سنائی دے مجھے
کر رہی ہے اب تقاضہ شاعری
فکرِ دنیا سے رہائی دے مجھے
وا کر اب ماجد پہ اپنی رحمتیں
حرفِ تازہ کی کمائی دے مجھے