یوم وفات 10 اگست 1880
ہاتھ ملواتی ہیں حوروں کو تمہاری چوڑیاں
پیاری پیاری ہے کلائی پیاری پیاری چوڑیاں
بند کر دیتی ہیں سب کو پیاری پیاری چوڑیاں
بولتی ہیں لاکھ میں بڑھ کر تمہاری چوڑیاں
اے بتو سرکش اگر ہو آتش رنگ حنا
شعلۂ جوالہ بن جائیں تمہاری چوڑیاں
برہمی حلقہ بگوشوں کی انہیں منظور ہے
پھوٹ ڈلواتی ہیں لاکھوں میں تمہاری چوڑیاں
حوروں کی آنکھوں کے حلقے اے پری موجود ہیں
ان بتانوں سے چڑھاؤ پیاری پیاری چوڑیاں
دل میں چھید کر خون کی بوندوں سے ہر ریزہ بھرے
ٹوٹ کر بن جائیں بوندے کی کٹاری چوڑیاں
سرو قامت ہیں ہزاروں دام الفت میں اسیر
طوق قمری ہیں تمہاری پیاری پیاری چوڑیاں
صدقے ہوتی ہیں برابر ان کلائی پہنچوں پر
گرد پھرتی ہیں خوشی سے باری باری چوڑیاں
دست نازک نے زمانے کو کیا حلقہ بگوش
کیا کھلے بندوں نظر آئیں تمہاری چوڑیاں
اے فلک ان کو نہیں بھاتا ستاروں کا بھی جوڑ
کہتے ہیں میری بلا پہنے کنواری چوڑیاں
روئے روشن پر جو تم نے ہاتھ رکھا ناز سے
چاند کا ہالہ نظر آئیں تمہاری چوڑیاں
حوریں بھیجیں گی تجھے اے رشک گل فردوس سے
لائے گی مشاطہ فصل بہاری چوڑیاں
کیوں نہ نکلے نوک خوں ریزی کے ہر انداز میں
لوٹ کر بھی دل میں چبھتی ہیں تمہاری چوڑیاں
بل نکالا سیکڑوں بانکوں کا دست ناز سے
بانک کے فن میں ہوئیں یکتا تمہاری چوڑیاں
خون کی بوندیں بنی ہیں چننیاں یاقوت کی
دل میں چبھ کر دے رہی ہیں زخم کاری چوڑیاں
کیوں نہ ہوں حلقہ بگوش آ کر حسینان بہشت
حوروں کے کانوں کی بالی ہیں تمہاری چوڑیاں
میں نے ہاتھا پائی جب کی سرد مہرے سے کہا
گرم جوشی سے ہوئیں ٹھنڈی ہماری چوڑیاں
دیکھ لو اے گل رخو مرغان دل پابند ہیں
بال کے پھندے کی صورت ہیں تمہاری چوڑیاں
کرتے ہیں اپنے زبانوں میں ترے ہاتھوں کا وصف
بولتی ہیں ایک منہ ہو کر ستاری چوڑیاں
ہر ستارے کی چمک نور جہان حسن ہے
رکھتی ہیں حکم جہانگیری تمہاری چوڑیاں
جان پڑ جاتی ہے دست ناز سے ہر چیز میں
رنگ بن کر چڑھتی ہیں ہاتھوں میں ساری چوڑیاں
گو گہر ہو اے پری ناز نگاہ حور کا
عینک رضواں کی حلقہ ہیں تمہاری چوڑیاں
کر کے ہاتھا پائی ڈولی میں کیا ان کو سوار
صاف ٹھنڈی ہو گئیں وقت سواری چوڑیاں
بوندوں کے حلقے نہیں پڑتے ہیں اے گل نہر میں
ڈالتا ہے ہندو ابر بہاری چوڑیاں
خون لاکھوں کا کیا کرتے ہیں ہر جھنکار سے
خوب سچا جوڑ چلتی ہیں تمہاری چوڑیاں
غیر ڈیوڑھی پر کیا کرتے ہیں آرائش کا ذکر
حلقۂ بیرون در ٹھہری تمہاری چوڑیاں
ناز سے فرماتے ہیں لوں کس طرح تیرا سلام
ہاتھ اٹھ سکتے نہیں ایسی ہیں بھاری چوڑیاں
اتری پڑتی ہیں پھسل کر دست نازک سے مدام
کس طرح ٹھہریں کلائی میں تمہاری چوڑیاں
مار ڈالا آتش غم نے جلا کر اے منیرؔ
ٹھنڈی کر دیں سوگ میں اس گل نے ساری چوڑیاں