Urdu Deccan

Saturday, August 20, 2022

شوق انصاری

یوم پیدائش 11 اگست 1958

اب غم افلاس بھی کردار تک آگئے
 لوگ خود کو بیچنے بازار تک آگئے
 
سرفروشان وفا کی سرفروشی نہ پوچھ
گردنیں لے کر صلیب و دار تک آگئے

تب کہیں احساس تجھ کو میرے گھر کا ہوا
جب مرے شعلے تری دیوار تک آگئے

سرخرو ہوئے تو پھر حاسد الجھنے لگے
پھل لگا تو سنگ بھی یلغار تک آگئے

یہ وفا ہے شوق یا حسن ریاکار ہے
جو سر انکار تھے اقرار تک آگئے

شوق انصاری



خورشید ربانی

یوم پیدائش 11 اگست 1973

جب سے اس شہر بے مکان میں ہوں 
میں ترے اسم کی امان میں ہوں 

گنبد شعر میں جو گونجتی ہے 
میں اسی درد کی اذان میں ہوں 

میں نے تنہائیوں کو پا لیا ہے 
اس لیے خواب ہی کے دھیان میں ہوں 

تتلیاں رنگ چنتی رہتی ہیں 
اور میں خوشبوؤں کی کان میں ہوں 

وحشتیں عشق اور مجبوری 
کیا کسی خاص امتحان میں ہوں 

خواہشیں سایہ سایہ بکھری ہیں 
اور میں دھوپ کے مکان میں ہوں 

میں ہوں پیکان درد اے خورشیدؔ 
اور اک یاد کی کمان میں ہوں

خورشید ربانی



پوجا بھاٹیا

یوم پیدائش 11 اگست 1977

کس ہنر کے مظاہرے میں ہو 
تم تو خود سے مقابلے میں ہو 

قتل کرنا تو اس کو ٹھیک نہیں 
عشق کی موت حادثے میں ہو 

چاند آئے گا صلح کرنے کو 
جاگ جاؤ مغالطے میں ہو 

نام میں دوسرا محبت کا 
تم ہو پاگل یا پھر نشے میں ہو 

آتے آتے ہنسی یوں پھسلی ہے 
جیسے اشکوں کے راستے میں ہو 

چاند غائب ہے چاند راتوں سے 
کیا پتہ میرے آئنے میں ہو 

تم چلے تھے خلا کو بھرنے کیوں؟ 
لوٹ آئے کہ راستے میں ہو 

کون منصف بنے سوا دریا 
اک جزیرہ جو کٹگھرے میں ہو

پوجا بھاٹیا



عمر احسان ساحلؔ

یوم پیدائش 10 اگست 1989

وہ سوچوں میں ابال بن کر
میری جاں کا وبال بن کر

میں لکھنا چاہتا ہوں جب کچھ 
  آ جاتا ہے خیال بن کر

میرے ذہن و گماں کو گھیرے 
کیوں ہے وہ ایک جال بن کر 

پہلا سلجھا نہیں میں پاتا
پھر آ جائے سوال بن کر

خود کو اوڑھا ہوا ہے مجھ پے 
اس نے اک غم کی شال بن کر

جو ہوتے ہیں ادا زباں سے
ان لفظوں میں کمال بن کر

میرے اشعار کا وہ ساحلؔ
کیوں بیٹھا ہے جمال بن کر

عمر احسان ساحلؔ



سبینہ سحر

یوم پیدائش 10 اگست 

صنم سے زخمِ تازہ کی شکایت بھی نہیں جاتی
اسی بے رحم ظالم سے محبت بھی نہیں جاتی

محبت کا مری کرتا تو ہے دعویٰ بہت لیکن
ہراک کو دیکھنے کی اس کی عادت بھی نہیں جاتی

نہ ملنے کی اسے میں نے قسم کھائی تو ہے لیکن
اسی کو دیکھتے رہنے کی چاہت بھی نہیں جاتی

مداوہ میرے دکھ کا وہ کرے کیسے کہ اب میری
ہنسی میں غم چھپانے کی مہارت بھی نہیں جاتی

جو لفظوں کی چبھن تھی اس کو لہجے ہی نے روکا تھا
مگر لفظوں کی لہجے سے بغاوت بھی نہیں جاتی

نہیں گرنے دیا اشکوں کو پلکوں سے ان آنکھوں نے
مگر اشکوں کے گر جانے کی فطرت بھی نہیں جاتی

دیے کی لو سے راتیں ہو تو جاتیں ہیں جواں لیکن
سحر سے روشنی لینے کی لذت بھی نہیں جاتی

سبینہ سحر



محمد فاروق اعظم

یوم پیدائش 10 اگست 1982

کہا تیرا سچ آج ہونے لگا ہے
مجھے میرا ہونا ڈبونے لگا ہے

یہ چھپنے چھپانے کا ہے کھیل کب تک
کہ تُو خود کو مجھ میں سمونے لگا ہے

جو مرشد ہے میرا وہ رہبر بھی میرا
یہی فلسفہ صدق ہونے لگا ہے

ہوا منکشف راز مجھ پر کہ دشمن
مجھے میرا نشتر چبھونے لگا ہے

یہ فرقت کی شب ہے ، کر اختر شماری
عجب ہے تو فاروق سونے لگا ہے

محمد فاروق اعظم



ملک محی الدین

یوم پیدائش 10 اگست 1969

نیتیں صاف ہوں، برکت ہی الگ ہوتی ہے
گھر غریبوں کے فراغت ہی الگ ہوتی ہے

ہم جو پگھلیں تو نشیبوں کوکریں گے سیراب
کوہساروں کی طبیعت ہی الگ ہوتی ہے

دل کے صفحوں پہ لکھا جاتاہے افسانہء غم
خشک آنکھوں کی عبارت ہی الگ ہوتی ہے

پیش دستار سے کیا کم ہے جبینوں کے نشاں
ہم فقیروں کی عمارت ہی الگ ہوتی ہے

سرپھری موجوں کو واپس کرے ڈھارِس دے کر
بوڑھے ساحل میں مہارت ہی الگ ہوتی ہے

کھینچ لاتی ہے انھیں بوڑھے درختوں کی کشش
یا پرندوں کی محبت ہی الگ ہوتی ہے

ملک محی الدین


 

شہزاد مرزا

یوم پیدائش 10 آگست 

نکل کے خود سے وہ اپنے ساجن میں آ گئی ہے
کسی سپیرے کی روح، ناگن میں آگئی ہے

ہماری آنکھوں کی اس نمی کو کوئی تو دیکھے
کہ اب تو اسکی کشش بھی ساون میں آ گئی ہے

ہمارے لہجے میں دوستی جو چھپی ہوی تھی
وہ رفتہ رفتہ ہمارے دشمن میں آ گئی ہے

کسی کے آگے کسی کے پیچھے گزر رہی ہے
یہ زندگی جو ہمارے راشن میں آ گئی ہے

کئی طرح کے سمندروں نے پکارا لیکن
سنہری مچھلی ہمارے برتن میں آگئی ہے

ہمیں ہماری طرح کے لوگوں میں بیٹھنا ہے
کہ اب طبیعیت ذرا توازن میں آ گئی ہے

ہمیں سمجھنے میں تھوڑی غفلت ہوئی ہے اس سے
اسی لیئے تو وہ دوست ! الجھن میں آ گئی ہے

ہمیں وہ جھٹلا رہی ہے لیکن ہمیں پتا ہے
وہ آج پھر سے کسی کے باشن میں آگئی ہے

ہمارے سینے سے لگ گئی تو یقین آیا
کہ شاہزادی اب اپنے مسکن میں آ گئی ہے

شہزاد مرزا



زاہد مہر

یوم پیدائش 10 گست 1980

میرے اللہ تیرے بے بس بندوں کا
تو جانتا ہے تیرے سوا کوئی نہیں
گرمی میں تڑپنے والوں کا
سردی سے ٹھٹھرنے والوں کا 
آگ میں جلنے والوں کا
تو جانتا ہے تیرے سوا کوئی نہیں
سیلاب میں بہنے والوں کا
ملبے میں دبنے والوں کا
بے گور و کفن مرنے والوں کا 
تو جانتا ہے تیرے سوا کوئی نہیں
بھوک سے مرنے والوں کا 
آہ و زاری کرنے والوں کا 
بے جرم سزا پانے والوں کا 
تو جانتا ہے تیرے سوا کوئی نہیں

زاہد مہر


 

منیرؔ شکوہ آبادی

یوم وفات 10 اگست 1880

ہاتھ ملواتی ہیں حوروں کو تمہاری چوڑیاں 
پیاری پیاری ہے کلائی پیاری پیاری چوڑیاں 

بند کر دیتی ہیں سب کو پیاری پیاری چوڑیاں 
بولتی ہیں لاکھ میں بڑھ کر تمہاری چوڑیاں 

اے بتو سرکش اگر ہو آتش رنگ حنا 
شعلۂ جوالہ بن جائیں تمہاری چوڑیاں 

برہمی حلقہ بگوشوں کی انہیں منظور ہے 
پھوٹ ڈلواتی ہیں لاکھوں میں تمہاری چوڑیاں 

حوروں کی آنکھوں کے حلقے اے پری موجود ہیں 
ان بتانوں سے چڑھاؤ پیاری پیاری چوڑیاں 

دل میں چھید کر خون کی بوندوں سے ہر ریزہ بھرے 
ٹوٹ کر بن جائیں بوندے کی کٹاری چوڑیاں 

سرو قامت ہیں ہزاروں دام الفت میں اسیر 
طوق قمری ہیں تمہاری پیاری پیاری چوڑیاں 

صدقے ہوتی ہیں برابر ان کلائی پہنچوں پر 
گرد پھرتی ہیں خوشی سے باری باری چوڑیاں 

دست نازک نے زمانے کو کیا حلقہ بگوش 
کیا کھلے بندوں نظر آئیں تمہاری چوڑیاں 

اے فلک ان کو نہیں بھاتا ستاروں کا بھی جوڑ 
کہتے ہیں میری بلا پہنے کنواری چوڑیاں 

روئے روشن پر جو تم نے ہاتھ رکھا ناز سے 
چاند کا ہالہ نظر آئیں تمہاری چوڑیاں 

حوریں بھیجیں گی تجھے اے رشک گل فردوس سے 
لائے گی مشاطہ فصل بہاری چوڑیاں 

کیوں نہ نکلے نوک خوں ریزی کے ہر انداز میں 
لوٹ کر بھی دل میں چبھتی ہیں تمہاری چوڑیاں 

بل نکالا سیکڑوں بانکوں کا دست ناز سے 
بانک کے فن میں ہوئیں یکتا تمہاری چوڑیاں 

خون کی بوندیں بنی ہیں چننیاں یاقوت کی 
دل میں چبھ کر دے رہی ہیں زخم کاری چوڑیاں 

کیوں نہ ہوں حلقہ بگوش آ کر حسینان بہشت 
حوروں کے کانوں کی بالی ہیں تمہاری چوڑیاں 

میں نے ہاتھا پائی جب کی سرد مہرے سے کہا 
گرم جوشی سے ہوئیں ٹھنڈی ہماری چوڑیاں 

دیکھ لو اے گل رخو مرغان دل پابند ہیں 
بال کے پھندے کی صورت ہیں تمہاری چوڑیاں 

کرتے ہیں اپنے زبانوں میں ترے ہاتھوں کا وصف 
بولتی ہیں ایک منہ ہو کر ستاری چوڑیاں 

ہر ستارے کی چمک نور جہان حسن ہے 
رکھتی ہیں حکم جہانگیری تمہاری چوڑیاں 

جان پڑ جاتی ہے دست ناز سے ہر چیز میں 
رنگ بن کر چڑھتی ہیں ہاتھوں میں ساری چوڑیاں 

گو گہر ہو اے پری ناز نگاہ حور کا 
عینک رضواں کی حلقہ ہیں تمہاری چوڑیاں 

کر کے ہاتھا پائی ڈولی میں کیا ان کو سوار 
صاف ٹھنڈی ہو گئیں وقت سواری چوڑیاں 

بوندوں کے حلقے نہیں پڑتے ہیں اے گل نہر میں 
ڈالتا ہے ہندو ابر بہاری چوڑیاں 

خون لاکھوں کا کیا کرتے ہیں ہر جھنکار سے 
خوب سچا جوڑ چلتی ہیں تمہاری چوڑیاں 

غیر ڈیوڑھی پر کیا کرتے ہیں آرائش کا ذکر 
حلقۂ بیرون در ٹھہری تمہاری چوڑیاں 

ناز سے فرماتے ہیں لوں کس طرح تیرا سلام 
ہاتھ اٹھ سکتے نہیں ایسی ہیں بھاری چوڑیاں 

اتری پڑتی ہیں پھسل کر دست نازک سے مدام 
کس طرح ٹھہریں کلائی میں تمہاری چوڑیاں 

مار ڈالا آتش غم نے جلا کر اے منیرؔ 
ٹھنڈی کر دیں سوگ میں اس گل نے ساری چوڑیاں

منیرؔ شکوہ آبادی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...