Urdu Deccan

Wednesday, August 31, 2022

مشتاق انجم

یوم پیدائش 31 اگست 1955

قہقہے کی موت ہے یا موت کی آواز ہے 
سسکیاں لیتا ہوا اب زندگی کا ساز ہے 

ایک سایہ لڑکھڑاتا آ رہا ہے اس طرف 
دیکھیے تو اک حقیقت سوچئے تو راز ہے 

ریت میں منہ ڈال کر سانسوں کا اس کا روکنا 
چند سکوں کے لئے بچہ بڑا جانباز ہے

سوچ کی منزل کہیں ہے اور آنکھیں ہیں کہیں 
جانتا ہوں کس میں کتنی قوت پرواز ہے 

کس طرح ہوگا بیاں حال دل بیمار اب 
آسماں برہم ہے اور خاموش چارہ ساز ہے 

دور آیا ہے عجب انجمؔ یہاں ہشیار باش 
زاغ ہے مخدوم اور خادم یہاں شہباز ہے 

مشتاق انجم


 

عزیز احسن

یوم پیدائش 31 اگست 1947

شہرِ طیبہ کا ہے دیوانہ نہ جانے کب سے
دل کہ ڈھونڈے ، وہیں جانے کے بہانے کب سے

کوئی دیدار کی صورت نکل آئے آقاؐ 
موت بھی تاک میں بیٹھی ہے سرہانے کب سے

وہ جو بھولے تھے ترا نقشِ کفِ پا آقاؐ
ہو چکے نقش بہ دیوار نہ جانے کب سے

ہم نے دیکھا ہی نہیں عہدِ درخشاں آقاؐ
ہم تو اِدبار کے سنتے ہیں فسانے کب سے

استغاثہ یہ مری سمت سے اس قوم کا ہے
جس کی مظلومی پہ روتے ہیں زمانے کب سے

اب عزیز احسنِ مضطر کا مُداوا کچھ ہو !
غل مچا رکھا ہے اس نوحہ سرا نے کب سے

عزیز احسن


 

امرتا پریتم

یوم پیدائش 31 اگست 1919
نظم سیاست 

سنا ہے سیاست ایک کلاسک فلم ہے
ہیرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مالک صد صفات
اپنا نام روز بدلتا ہے
ہیروئن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرسی اقتدار
وہی رہتی ہے
ایکٹر۔۔۔ راج سبھا اور لوک سبھا کے ممبران
فنانسر۔۔۔۔۔دیہاڑی کے مزدور کمی کسان
(سرمایا لگاتے ہیں , لگوا دیا جاتا ہے)
پارلیمنٹ ۔۔۔۔۔۔۔انڈور شوٹنگ کا مقابلہ
اخبار ۔۔۔۔آوٹ ڈور شوٹنگ کا زریعہ
یہ فلم میں نے دیکھی نہیں
صرف سنا ہے
کیونکہ سنسر کہنا ہے

بالغوں کے لئے نہیں 

امرتا پریتم


 

شیلندر

یوم پیدائش 30 اگست 1923

کچھ اور زمانہ کہتا ہے کچھ اور ہے ضد میرے دل کی
میں بات زمانہ کی مانوں یا بات سنوں اپنے دل کی

دنیا نے ہمیں بے رحمی سے ٹھکرا جو دیا اچھا ہی کیا
ناداں ہیں سمجھے بیٹھے تھے نبھتی ہے یہاں دل سے دل کی

انصاف محبت سچائی وہ رحم و کرم کے دکھلاوے
کچھ کہتے زباں شرماتی ہے پوچھو نہ جلن میرے دل کی

جو بستی ہے انسانوں کی انسان مگر ڈھونڈھے نہ ملا
پتھر کے بتوں سے کیا کیجے فریاد بھلا ٹوٹے دل کی

شیلندر


 

عین الدین عازم

یوم پیدائش 30 اگست 1963

کیا کروں ظرف شناسائی کو 
میں ترس جاتا ہوں تنہائی کو 

خامشی زور بیاں ہوتی ہے 
راستہ دیجئے گویائی کو 

تیرے جلووں کی فراوانی ہے 
اور کیا چاہئے بینائی کو 

ان کی ہر بات بہت میٹھی ہے 
منہ لگاتے نہیں سچائی کو 

اے سمندر میں قتیل غم ہوں
جانتا ہوں تری گہرائی کو 

بیٹھا رہتا ہوں اکیلا یوں ہی
یاد کر کے تری یکتائی کو

کھینچ لے جاتے ہیں کچھ دیوانے
اپنی جانب ترے سودائی کو

اف تماشہ گہ دنیا عازمؔ
کتنی فرصت ہے تماشائی کو

عین الدین عازم



بشریٰ رحمٰن

یوم پیدائش 29 اگست 1944

تیرے ہاتھوں میں پگھل جانے کو جی چاہتا ہے
آتش ِ شوق میں جل جانے کو جی چاہتا ہے

تجھ سے اک راز کی سر گوشی بھی کرنا چاہوں
پھر وہی راز نگل جانے کو جی چاہتا ہے

دل یہ چاہے کہ تِرے دل میں رہوں دل بن کے
پھر اسی دل سے نکل جانے کو جی چاہتا ہے

وحشت آباد مکانوں میں نہیں جی لگتا
شہر سے دور نکل جانے کو چاہتا ہے

ہم سے یہ رسم کی زنجیر بھی کب ٹوٹ سکی
دل کی ضد پر بھی مچل جانے کو جی چاہتا ہے

بشریٰ رحمٰن


Sunday, August 28, 2022

اختر خیرآبادی

یوم پیدائش 28 اگست 1949

تجھے دیکھنے کی حسرت ، تجھے چاہنے کا ارماں
مری زندگی کا حاصل مری زندگی کا ساماں
ہے بڑا عجیب ارماں، ہے بڑی عجیب حسرت
کہاں اپنی کم نگاہی کہاں دیدِ روئے جاناں

اختر خیرآبادی

 

 

حسیب علی

یوم پیدائش 28 اگست 1992

تری گلیوں سے چل کر جا رہے ہیں
جبھی تو ہم سنبھل کر جا رہے ہیں

"ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے"
ترے دل سے نکل کر جا رہے ہیں

ستاروں سے تو بہتر ہی ہوئے ہم 
تری قسمت بدل کر جا رہے ہیں

خدا روشن رکھے تا عمر اُن کو
جو ہم سے آج جل کر جا رہے ہیں

وہ واپس ہی نہ آ جائیں کسی دن
کہ مشکل سے بہل کر جا رہے ہیں

بہاریں مانگتے ہیں باغ سے پھر
جو کلیوں کو مسل کر جا رہے ہیں

حسیب علی



سالک ادیب بونتی

یوم پیدائش 28 اگست 1994

رستہ سنبھل سنبھل کے چلو تم نشے میں ہو
اور ہوسکے تو چپ بھی رہو تم نشے میں ہو

مل جائے گی کسی نہ کسی کو کوئی دلیل
دانشوروں سے آج بچو تم نشے میں ہو

ممکن ہے کام آئے گا میرا یہ مشورہ
پانی دیے کے پاس رکھوتم نشےمیں ہو

ہر شخص اعتبار کے قابل نہیں یہاں
یوں حال دل نہ سب سےکہوتم نشےمیں ہو

آئے ہیں میکدے میں بہت سے شریف لوگ
بوتل ذرا پکڑ کے رکھو تم نشےمیں ہو

ہونٹوں پہ کوئی نغمہ سجا کر چلو مگر
یوں زور زور سے نہ ہنسوتم نشے میں ہو

ایسا نہ ہو کہ کوئی تماشا بنا ہی دے  
سالک ادیبؔ حد میں رہو تم نشے میں ہو

سالک ادیب بونتی



صفدر آہ

یوم پیدائش 28 اگست 1903
تنہائی

آگاہ ہوا کذبِ دل آرائی سے
ہوش آیا فریب کھا کے رعنائی سے
میں محفل صد رنگ جہاں بھول گیا
جب ربط بڑھا شاہد تنہائی سے

سطحی ہے زمانے کی رفاقت کا مزہ
جھوٹا ہے یہ احباب کی صحبت کا مزہ
جلوے جلوت کے ہیج ہو جاتے ہیں
پاجائے اگر دل کہیں خلوت کا مزہ

اک ساز سکوں ہے لطف پیمائی ہے
عرلت کی بہار مجھکو راس آئی ہے
دنیا کی محفلوں میں تنہا تھا میں
تنہائی میں کیا انجمن آرائی ہے

زیب و زینت ہے حسن و رعنائی ہے
افکار کی تخلیق میں گہرائی ہے
اک بزم خیالات ہے شاعر کے ساتھ
مت سمجھو میرے گرد تنہائی ہے 


صفدر آہ


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...