Urdu Deccan

Monday, October 24, 2022

عبید خان

یوم پیدائش 12 اکتوبر 

کب تک چراغ ِ ہجر اکیلے جلاؤں میں
 ایسا بھی ہو کبھی کہ اسے یاد آؤں میں

احساس کے قفس سے رہا کر کے کچھ خیال
 نظموں کے آسمان پہ ان کو اڑاؤں میں

 باد صبا کے ہاتھ جو نامہ ملے مجھے
  اک خواب بن کے اس کے شبستاں میں جاؤں میں

دیتے ہوئے چمن کو بہار و خزاں کے رنگ
موسم کی گردشوں میں کہیں کھو نہ جاؤں میں

جب ذہنی انتشار کے حاصل ہوں رت جگے
اپنے تھکے شعور کو کیسے سلاؤں میں

اک عمر میں نے یاد میں ، جس کی گزار دی
کہتا ہے آج وہ کہ اسے بھول جاؤں میں 

تھکنے لگا ہوں دشت نوردی سے اب عبید
چھاؤں کہیں ذرا سی ملے ، بیٹھ جاؤں میں

عبید خان


 

شاہین مفتی

یوم پیدائش 12 اکتوبر 1954

اگر یہ روشنی قلب و نظر سے آئی ہے 
تو پھر شبیہ ستم گر کدھر سے آئی ہے 

مہک رہا ہے بدن مانگ میں ستارے ہیں 
شب فراق بتا کس کے گھر سے آئی ہے 

گلوں میں رنگ تو خون جگر سے آیا ہے 
مگر یہ تازگی اس چشم تر سے آئی ہے 

روش روش پہ کچھ ایسے ٹہل رہی ہے صبا 
کہ جیسے ہو کے تری رہ گزر سے آئی ہے 

اسے تو گوشۂ مخصوص میں سنبھال کے رکھ 
کرن ہے کوچۂ شمس و قمر سے آئی ہے

شاہین مفتی


 

شمع بھلیسی

یوم پیدائش 12 اکتوبر 

سکوں ہمیں نہیں حاصل نہیں قرار آئے
خزاں کا ٹھہرا ہے موسم کہاں بہار آئے
 
کبھی ٹہل کے جو آئے پرانی گلیوں سے
قسم خدا کی بہت ہو کے بیقرار آئے

طویل ہے یہ شبِ غم بسر نہیں ممکن
نہ جانے کیوں وہ تصور میں بار بار آئے

لکھا ہے جسکی بھی قسمت میں جو، ملے اسکو
گلاب حصےکسی کے ، کسی کے خار آئے

زمانے ہجر نہ پلٹا نہ وصلِ یار ہوا
نصیب میں ہے میرے حصّے انتظار آئے

شمع بھلیسی



راجیندر منچندا بانی

یوم وفات 11 اکتوبر 1981

زماں مکاں تھے مرے سامنے بکھرتے ہوئے 
میں ڈھیر ہو گیا طول سفر سے ڈرتے ہوئے 

دکھا کے لمحۂ خالی کا عکس لاتفسیر 
یہ مجھ میں کون ہے مجھ سے فرار کرتے ہوئے 

بس ایک زخم تھا دل میں جگہ بناتا ہوا 
ہزار غم تھے مگر بھولتے بسرتے ہوئے 

وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حسن آخر تھا 
کہ چپ سی لگ گئی دونوں کو بات کرتے ہوئے 

عجب نظارا تھا بستی کا اس کنارے پر 
سبھی بچھڑ گئے دریا سے پار اترتے ہوئے 

میں ایک حادثہ بن کر کھڑا تھا رستے میں 
عجب زمانے مرے سر سے تھے گزرتے ہوئے 

وہی ہوا کہ تکلف کا حسن بیچ میں تھا 
بدن تھے قرب تہی لمس سے بکھرتے ہوئے

راجیندر منچندا بانی


 

جینت پرمار

یوم پیدائش 11 اکتوبر 1955

غبار جاں سے ستارا نکلنا چاہتا ہے 
یہ آسمان بھی کروٹ بدلنا چاہتا ہے 

مرے لہو کا سمندر اچھلنا چاہتا ہے 
یہ چاند میرے بدن میں پگھلنا چاہتا ہے 

سیاہ دشت میں امکان روشنی بھی نہیں 
مگر یہ ہاتھ اندھیرے میں جلنا چاہتا ہے 

ہر ایک شاخ کے ہاتھوں میں پھول مہکیں گے 
خزاں کا پیڑ بھی کپڑے بدلنا چاہتا ہے

بہت کٹھن ہے کہ سانسیں بھی بار لگتی ہیں 
مرا وجود بھی نقطے میں ڈھلنا چاہتا ہے

جینت پرمار



سلطان ساحر

یوم پیدائش 11 اکتوبر 1960

پہن کے ہاتھ میں زنجیر پاؤں میں بیڑی
کس اہتمام سے سچائیاں نکلتی ہیں

سلطان ساحر 



مختار حسینی

یوم پیدائش 11 اکتوبر 1971

کیا بتاؤں کہ کیا دلربا لے گئی ؟
میری آنکھوں سے نیندیں چرا لے گئی

یہ تو سوغات تہذیبِ مغرب کی ہے
بے حیائی عطا کی ، حیا لے گئی

ایسی گندی سیاست کی آندھی چلی
دیش سے بھائی چارہ اُڑا لے گئی

تم نئی روشنی کا اثر دیکھ لو
بیٹیوں کے سروں سے ردا لے گئی

دیکھو مختار دورِ خزاں آگیا
رت درختوں سے ان کی قبا لے گئی

مختار حسینی



احسن امام احسن

یوم پیدائش 11 اکتوبر 1968

ایک رنگین خواب ہے دنیا 
یا نشاط سراب ہے دنیا 

غور سے پڑھ سکو تو سمجھو گے 
ایک دل کش کتاب ہے دنیا 

الجھنوں نے یہ کر دیا ثابت 
اک مسلسل عذاب ہے دنیا 

بھائی بھائی کا خون کرتا ہے 
سوچو کتنی خراب ہے دنیا 

ہے سزا ہی سزا ہمارے لئے 
کس قدر پر عتاب ہے دنیا 

دل لگاؤ نہ اس سے اے احسنؔ 
ایک بے فیض خواب ہے دنیا

احسن امام احسن



ظہیر ناشاد دربھنگوی

یوم پیدائش 11 اکتوبر 1933

بدلے گی خود ہی دنیا رفتار رفتہ رفتہ
ہرذرہ ہورہا ہے بیدار رفتہ رفتہ

رنگینیء چمن ہے کس کے لہو کا صدقہ
 تاریخ خود کرے گی اقرار رفتہ رفتہ

عالم یہی رہا جوار باب گلستاں کا
مقتل بنے گا اک دن گلزار رفتہ رفتہ

ہے ابتدائے الفت کچھ اور مسکرالو
 راتوں کی نیند ہوگی دشوار رفتہ رفتہ

کیا کیا نہ دوستی کی پہلے ہوئی نمائش
پھر درمیاں میں اٹھی دیوار رفتہ رفتہ

ناشاد زندگی نے جو کچھ مجھے دیا ہے
شعروں میں کررہا ہوں اظہار رفتہ رفتہ

ظہیر ناشاد دربھنگوی
 


سید علی شاہ رخ

یوم پیدائش 10 اکتوبر 1987

مخلصی کی مجھے سزا دیجے
جھوٹ کہیے تو سچ بتا دیجے

کچھ بھرم رہ سکے مروت کا
چار چھ اشک ہی بہا دیجے

پھر جو پچھتائیں گے تو بہتر ہے
جانے والوں کو راستہ دیجے

میں کے دشمن ہوں گھر کے دیپک کا
مجھ کو اس چوک میں جلا دیجے

دھوپ نے دکھ بڑھا دیا ہے مرا
پر توے زلف کی گھٹا دیجے 

سید علی شاہ رخ


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...