Urdu Deccan

Sunday, October 30, 2022

ڈاکٹر نذیر قیصر

یوم پیدائش 30 اکتوبر 1922

سکوتِ شام میں جب کائنات ڈھلتی ہے
کسی کی یاد خیالوں کے رُخ بدلتی ہے

مری نگاہ نے وہ محفلیں بھی دیکھی ہیں
جہاں چراغ کی لَو تیرگی اُگلتی ہے

بڑھا ہے جب سے بہاروں کی سمت دامنِ شوق
خزاں بھی سرحدِ گلشن سے بچ کے چلتی ہے

ابھی سے راہزنوں کے سلوک پر تنقید
ابھی تو مشعلِ رہبر لہُو سے جلتی ہے

اب اور کون سنے گا صدائے زخم بہار
صبا بھی پیکرِ گلشن پہ خاک ملتی ہے

نہ جانے کس لیے گُھٹنے لگا ہے دم قیصرؔ
سماں بھی مہکا ہوا ہے ‘ ہوا بھی چلتی ہے

ڈاکٹر نذیر قیصر


 

ارشاد جالندھری

یوم وفات 30 اکتوبر 2015

خزاؤں میں تجھے پھولوں کی رانی لکھ رہا ہوں میں
بہاروں کو ترا عہدِ جوانی لکھ رہا ہوں میں

تری یادیں جو لکھتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے
کہ جیسے کوئی اپنی ہی کہانی لکھ رہا ہوں میں

فریبِ جستجو ہے یا اسے ذوقِ نظر سمجھوں
جو دانستہ سرابوں کو بھی پانی لکھ رہا ہوں میں

ذرا سا مسکرا کر تم بڑھا دو حوصلہ میرا
کہ چہرۂ خزاں پر گلفشانی لکھ رہا ہوں میں

یہ دنیا جو بھی کہتی ہے کہے اس کا کسے ڈر ہے
نہیں تیرا کہیں بھی کوئی ثانی لکھ رہا ہوں میں

کوئی تو ہوگی مجبوری کوئی تو ہے سبب آخر
کہ تیرے ہر ستم کو مہربانی لکھ رہا ہوں میں

وہی پر کیف لمحے جو گذارے تیری قربت میں
انہی لمحوں کو اپنی زندگانی لکھ رہا ہوں میں

گل و غنچہ ،صبا خوشبو، کرن شبنم، سحر نغمہ
یہ سب تیرے سراپا کے معانی لکھ رہا ہوں میں

بسا ارشاد یوں آنکھوں میں وہ اک پھول سا چہرہ
کہ زخموں کو سکونِ زندگانی لکھ رہا ہوں میں

ارشاد جالندھری


 

صابر براری

یوم پیدائش 30 اکٹوبر 1928

شہر میں تیرے مرا کوئی شناسا بھی نہیں 
کون ہوں میں یہ کسی شخص نے پوچھا بھی نہیں 

حسن مغرور کو آنکھوں میں بسایا بھی نہیں 
حرص کا زہر مری روح میں اترا بھی نہیں 

اس کی یادوں سے منور ہوئی دل کی دنیا 
چاند ایسا جو ابھی ابر سے نکلا بھی نہیں 

اپنی مرضی سے قفس ہم نے چنا تھا صیاد 
اس لئے تیرے ستم کا ہمیں شکوہ بھی نہیں 

دور دورہ ہے یہاں جور و جفا کا لیکن 
دوستو اہل وفا شہر میں عنقا بھی نہیں 

گلستاں کیسے تجھے سونپ دیں اے دشمن گل 
اس میں شامل تو ترے خون کا قطرہ بھی نہیں 

ناخدا غیر کی کشتی کا تجھے کیوں غم ہے 
دور گرداب سے کچھ تیرا سفینہ بھی نہیں 

پارسا گو کہ نہیں صابرؔ خستہ لیکن 
آپ جیسا اسے سمجھے ہیں تو ویسا بھی نہیں

صابر براری

آصف شفیع

یوم پیدائش 29 اکتوبر 1973

اور اب یہ دل بھی میرا مانتا ہے 
وہ میری دسترس سے ماورا ہے
 
چلو کوئی ٹھکانہ ڈھونڈتے ہیں 
ہوا کا زور بڑھتا جا رہا ہے 

مرے دل میں ہے صحراؤں کا منظر 
مگر آنکھوں سے چشمہ پھوٹتا ہے 

صدا کوئی سنائی دے تو کیسے 
مرے گھر میں خلا اندر خلا ہے 

زمانہ ہٹ چکا پیچھے کبھی کا 
اور اب تو صرف اپنا سامنا ہے 

میں چپ ہوں اب اسے کیسے بتاؤں 
کوئی اندر سے کیسے ٹوٹتا ہے

آصف شفیع


 

شیخ عبداللطیف تپش

یوم پیدائش 29 اکتوبر 1895

موت آتی نہیں قرینے کی 
یہ سزا مل رہی ہے جینے کی 

مے سے پرہیز شیخ توبہ کرو 
اک یہی چیز تو ہے پینے کی 

تمہیں کہتا ہے آئنہ خودبیں 
باتیں سنتے ہو اس کمینے کی 

ہو گیا جب سے بے نقاب کوئی 
شمع روشن نہ پھر کسی نے کی 

چشم تر آبرو تو پیدا کر 
یوں نہیں بجھتی آگ سینے کی 

اہل دنیا سے کیا بدی کا گلا 
اے تپشؔ تو نے کس سے کی نیکی

شیخ عبداللطیف تپش


 

فرحان قادری

یوم پیدائش 28 اکتوبر 2001

شعورِ درد نہیں نالہ و فغاں بھی نہیں
فراقِ یار میں پہلی سہی مستیاں بھی نہیں

تمھاری پردہ نشینی کا کچھ بیاں بھی نہیں
کہ تم نہاں بھی نہیں ٹھیک سے عیاں بھی نہیں

سنا تھا میرے ہی دل میں چھپے ہوئے ہو تم
بہت تلاش کیا تم ملے وہاں بھی نہیں

تمھارے گرمیِ احساس کا کرشمہ ہے
سلگ رہا ہے بدن اور سائباں بھی نہیں

مری جدائی نے تم کو بنا دیا مفلس
تمھارے کان میں سونے کی بالیاں بھی نہیں

فرحان قادری


 

حیرت الہ آبادی

یوم پیدائش 28 اکتوبر 1835

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں 
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں 

آ جائیں رعب غیر میں ہم وہ بشر نہیں 
کچھ آپ کی طرح ہمیں لوگوں کا ڈر نہیں 

اک تو شب فراق کے صدمے ہیں جاں گداز 
اندھیر اس پہ یہ ہے کہ ہوتی سحر نہیں 

کیا کہئے اس طرح کے تلون مزاج کو 
وعدے کا ہے یہ حال ادھر ہاں ادھر نہیں 

رکھتے قدم جو وادئ الفت میں بے دھڑک 
حیرتؔ سوا تمہارے کسی کا جگر نہیں

 حیرت الہ آبادی


 

سید خرم نقوی

یوم پیدائش 27 اکتوبر 

اِس سے پہلے کہ خوں مِیں تر جائیں
کیوں نہ وعدوں سے ہم مُکر جائیں

اب بھی باقی ہیں کچھ وفا پیکر 
 ان سے بولو کہ اب سُدھر جائیں

وہ ہی ناخن بڑھائے پھرتا ہے
ہم تو کہتے ہیں زخم بھر جائیں

اب ہے سارا مدار کانٹوں پر
 کہو پھولوں سے اب بکھر جائیں 

کچھ اذیت ہمیں اضافی دو
عین ممکن ہے ہم سنور جائیں

مَیں جو روتا دِکھوں تو لازم ہے
آپ ہنستے ہوئے گزر جائیں

ہم کہ دنیا سے بچ گئے سیدٓ
 خود سے بچنے کو اب کِدھر جائیں

سید خرم نقوی


 

مفتی تقی عثمانی

یوم پیدائش 27 اکتوبر 1943

محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہو جانا
متاعِ جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہو جانا

قدم ہیں راۂ اُلفت میں تو منزل کی ہوس کیسی
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چُور ہو جانا

یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو
کوئی آسان ہے کیا سرمد و منصور ہوجانا

بَسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجا ہے
پہاڑوں کو توبس آتا ہے جل کر طور ہوجانا

نظر سے دور رہ کر بھی تقی وہ پاس ہیں میرے
کہ میری عاشقی کو عیب ہے مہجور ہوجانا

مفتی تقی عثمانی


صوفیہ احمد

یوم پیدائش 27 اکتوبر 1951

کچھ خواب بیچنے ہیں خریدار چاہیے
ہم بک رہے ہیں اب ہمیں بازار چاہیے

اس بے سکون سے فلکِ بے ستوں تلے
رہنے کو پائیدار سا گھر بار چاہیے

اس درد کی گلی میں بڑی تیز دھوپ ہے
سستانے کے لیے کہیں چھتنار چاہیے

صوفیہ احمد 

پھوٹی ہے بطنِ شبِ دیجور سے رقصاں کرن
کٹ گیا دکھ کا سفر شاید سحر ہونے کو ہے

بے یقینی لامکانی عمر بھر ڈستی رہی
ہے فضا کچھ دوستانہ اپنا گھر ہونے کو ہے

تھک گیا صاحبانِ سنگ کا لشکر بھی اب
دشمنی کی آخری حد مختصر ہونے کو ہے

صوفیہ احمد


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...