Urdu Deccan

Tuesday, November 1, 2022

نیراعظمی

یوم پیدائش 01 نومبر 1954

اس کے دل میں بھی وفا ہے مجھے معلوم نہ تھا
پھول پتھر پہ کھلا ہے مجھے معلوم نہ تھا

چشمِ ساقی میں نشہ ہے مجھے معلوم نہ تھا
جام خالی بھی بھرا ہے مجھے معلوم نہ تھا

تیری بکھری ہوئی زلفوں کی مہک سے پہلے
سانس بھی بادِ صبا ہے مجھے معلوم نہ تھا

جس کو پانے کے لیے کتنی نقابیں الٹیں
دل کے پردے میں چھپا ہے مجھے معلوم نہ تھا

جو سرِ شام چراغوں کو بجھا دیتی ہے
میرے دامن کی ہوا ہے مجھے معلوم نہ تھا

مفتیِ دین کے فتوے کو نہ فتویٰ سمجھا
تیری رحمت سے بڑا ہے مجھے معلوم نہ تھا

سجدہ ریزی سے تو اچھی تھی مری لاعلمی
کوئی بت ہے کہ خدا ہے مجھے معلوم نہ تھا

گھپ اندھیرے میں حقیقت ہوئی روشن نیّرؔ
دل کا ہر داغ دیا ہے مجھے معلوم نہ تھا

نیراعظمی



قمر پیامی

یوم پیدائش 01 نومبر 1952

جذبات سے عاری ہے قمر چہرہ بتوں کا
کیا جانیے یہ کونسی مٹی کے بنے ہیں

قمر پیامی



پروین کمار اشک

یوم پیدائش 01 نومبر 1951

سمندر آنکھ سے اوجھل ذرا نہیں ہوتا 
ندی کو ڈر کسی چٹان کا نہیں ہوتا 

وہ جب بھی روتا ہے میں ساتھ ساتھ روتا ہوں 
مزے کی بات ہے اس کو پتا نہیں ہوتا 

مسافروں کے لیے منزلیں ہی ہوتی ہیں 
مسافروں کے لیے راستہ نہیں ہوتا 

تماشا گاہ میں کس کا تماشا ہوتا ہے 
تماش بینوں کو اس کا پتا نہیں ہوتا 

میں روز فون پر اس کو صدائیں دیتا ہوں 
خدا کے ساتھ مرا رابطہ نہیں ہوتا 

جہاں ملیں انہیں سجدہ گزاریئے صاحب 
محبتوں کے لیے سوچنا نہیں ہوتا 

وہاں چراغ جلاتا ہوں زندگی کا اشکؔ 
جہاں ہوا کے لیے راستہ نہیں ہوتا 

پروین کمار اشک



منظر عباس نقوی

یوم پیدائش 01 نومبر 1933

جب تصور میں وہ بادیدۂ تر آتے ہیں
کیسے موتی مرے دامن میں نظر آتے ہیں

وہ بنا دیتے ہیں ہر دشت کو رشکِ گلزار
کوئے جاناں سے جو اک بار گزر آتے ہیں

زیست دشوار سہی غم سے گراں بار سہی
ہم کو مر مر کے بھی جینے کے ہنر آتے ہیں

منظر عباس نقوی



دتا تریہ کیفی

یوم پیدائش 01 نومبر 1955

اک خواب کا خیال ہے دنیا کہیں جسے 
ہے اس میں اک طلسم تمنا کہیں جسے 

اک شکل ہے تفنن طبع جمال کی 
اس سے زیادہ کچھ نہیں دنیا کہیں جسے 

خمیازہ ہے کرشمہ پرستئ دہر کا 
اہل زمانہ عالم عقبیٰ کہیں جسے 

اک اشک ارمیدۂ ضبط غم فراق 
موج ہوائے شوق ہے دریا کہیں جسے 

باوصف ضبط راز محبت ہے آشکار 
عقدہ ہے دل کا عقد ثریا کہیں جسے 

برہم زن حجاب ہے خود رفتگی حسن 
اک شان بے خودی ہے زلیخا کہیں جسے 

عکس صفائے قلب کا جوہر ہے آئینہ 
وارفتۂ جمال خود آرا کہیں جسے 

رم شیوہ ہے صنم تو ہے رم آشنا یہ دل 
حاصل ہے مجھ کو عیش مہیا کہیں جسے 

سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں دہر کا وجود 
کیفیؔ یہ بات وہ ہے معما کہیں جسے

دتا تریہ کیفی



تبسم گورو

یوم پیدائش 01 نومبر 1952

ہونٹوں پہ آ گئے ہیں پھر درد کے فسانے
آنکھوں سے بہہ نہ جائے آنسو اسی بہانے
 
خاموشیوں پہ میری وہ ان کا مسکراتا 
یادیں سمیٹ لائیں گذرے ہوئے زمانے 

اللہ لاج رکھنا اب میرے ضبط غم کی
وہ آ رہے ہیں اپنا درد نہاں سنانے

زخموں پہ کیوں نمک تم آخر چھڑک رہے ہو
پرسش کو آئے ہو یا آئے ہو مسکرانے

پھر تازہ کر دئے ہیں آثار گلستان نے
جائیں کہاں تبسم زخموں کو ہم چھپانے

تبسم گورو



عطا عابدی

یوم پیدائش 01 نومبر 1962

تماشا زندگی کا روز و شب ہے 
ہماری آنکھوں کو آرام کب ہے 

چمکتی ہے تمنا جگنوؤں سی 
اندھیری رات میں رونق عجب ہے 

ضرورت ڈھل گئی رشتے میں ورنہ 
یہاں کوئی کسی کا اپنا کب ہے 

زباں ہی تیرا سرمایہ ہے لیکن 
عطاؔ خاموش یہ جائے ادب ہے

عطا عابدی



کامل شطاری

یوم وفات 01 نومبر 1976

رسول‌ اللہ سے نسبت پے قسمت ناز کرتی ہے
در اقدس کے سجدوں پر عبادت ناز کرتی ہے

تمہاری ذات والا سے شرف ہے نسل آدم کو
تمہی وہ ہو کہ جس پر آدمیت ناز کرتی ہے

شرافت ہی شرافت تھی مکمل زندگی جس کی
اسی پر اب بھی دنیا شرافت ناز کرتی ہے

کہیں کیا اوس کی پاکی کے لئے الفاظ عاجز ہیں
کہ جس کے گھر کے لوگوں پر طہارت ناز کرتی ہے

تمہاری پاک سیرت نے دکھائے ہیں مقام ایسے
جہاں انسان پر انساں کی عظمت ناز کرتی ہے

میرے عصیاں نے دامن میرا باندھا اوس کے دامن سے
کہ جس کی ذات اقدس پر شفاعت ناز کرتی ہے

وہ دیکھو جمع ہیں سب انبیا میدان محشر میں
انہیں میں وہ بھی ہے جس پر رسالت ناز کرتی ہے

اک انساں اور پھر اتنے مکمل خد و خال اس کے
حسیں منہ تک رہے ہیں اور قدرت ناز کرتی ہے

مئے حب نبی کا کیف ہو جاتا ہے جب کاملؔ
محبت کرنے والے پر محبت ناز کرتی ہے

کامل شطاری



علقمہ شبلی

یوم پیدائش 01 نومبر 1930

زندگی سے مری اس طرح ملاقات ہوئی 
لب ہلے آنکھ ملی اور نہ کوئی بات ہوئی 

درد کی دھوپ نہیں یاد کا سایہ بھی نہیں 
اب تو قسمت میری بے رنگئ حالات ہوئی 

صرف کل ہی نہیں اس دور میں بھی دیدہ وری 
نذر اوہام ہوئی صید روایات ہوئی 

کل تو محور تھے مری ذات کے یہ کون و مکاں 
کائنات آج جو سمٹی تو مری ذات ہوئی 

سر کو پھوڑا کئے پتھر سے سمندر سے لڑے 
صبح یوں شام ہوئی شام سے یوں رات ہوئی 

گھر مرا دیکھ لیا سیل بلا نے شبلیؔ 
آگہی کیا ہوئی اک درد کی سوغات ہوئی

علقمہ شبلی



غیاث متین

یوم پیدائش 01 نومبر 1942

بارش ہوگی تو بارش میں دونوں مل کر بھیگیں گے 
ریت پہ ایک مسافر کا گھر اور سمندر بھیگیں گے 

اچھا میں ہارا تم جیتے آگے کی اک بات سنو 
اب کے برس جب بارش ہوگی سوچ سمجھ کر بھیگیں گے 

دھوپ کا اک ٹکڑا کیوں میرے سر پر سایہ کرتا ہے 
کیا مجھ کو منظر سے ہٹا کر سارے منظر بھیگیں گے 

کاغذ کی اک کشتی لے کر بارش میں کیوں نکلے ہو 
بھولے بسرے بچپن کی یادوں کے پیکر بھیگیں گے 

اچھے لوگوں کی بستی میں تم کیوں رہنے آئے ہو 
یاں ہونٹوں پر پھول کھلیں گے خون میں خنجر بھیگیں گے 

اس دن کی جب بارش ہوگی کون بچے گا ہم سفرو 
پھول پرند چراغ جزیرے کنکر پتھر بھیگیں گے 

اک فانوس ہے جس میں اپنی روح متینؔ سلگتی ہے 
بھیگنا جب ٹھہرا تو اسی فانوس کے اندر بھیگیں گے

غیاث متین



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...