یوم اردو مبارک ہو
جہاں خودی کا بھی ہے صاحبِ فراز و نشیب
یہاں بھی معرکہ آرا ہے خُوب سے ناخُوب
حریم تیرا، خودی غیر کی! معاذاللہ
دوبارہ زندہ نہ کر کاروبارِ لات و منات
آسماں میں راہ کرتی ہے خودی
صیدِ مہر و ماہ کرتی ہے خودی
ہے شعرِ عجَم گرچہ طرب ناک و دل آویز
اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیرِ خودی تیز
اقبالؔ! یہاں نام نہ لے علمِ خودی کا
موزُوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات
اُس کی خودی ہے ابھی شام و سحَر میں اسیر
گردشِ دَوراں کا ہے جس کی زباں پر گِلہ
رومی بدلے، شامی بدلے، بدلا ہندُستان
تُو بھی اے فرزندِ کُہستاں! اپنی خودی پہچان
اگر خودی کی حفاظت کریں تو عینِ حیات
نہ کر سکیں تو سراپا فسُون و افسانہ
بے اشکِ سحَر گاہی تقویمِ خودی مشکل
یہ لالۂ پیکانی خوشتر ہے کنارِ جُو
تاثیرِ غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم
اچھّی نہیں اُس قوم کے حق میں عجمی لَے
تری خودی سے ہے روشن ترا حریمِ وجود
حیات کیا ہے، اُسی کا سُرور و سوز و ثبات
تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں ہے کہ یہ چار سُو بدل جائے
یہ ذکرِ نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سُرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے، اسے پھیر
بے ذوقِ نمود زندگی، موت
تعمیرِ خودی میں ہے خدائی
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
تعمیرِ خودی کر، اَثرِ آہِ رسا دیکھ
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
تمام عارف و عامی خودی سے بیگانہ
کوئی بتائے یہ مسجد ہے یا کہ میخانہ
تُو اپنی خودی اگر نہ کھوتا
زُناّریِ برگساں نہ ہوتا
فطرت کو دِکھایا بھی ہے، دیکھا بھی ہے تُو نے
آئینۂ فطرت میں دِکھا اپنی خودی بھی!
محکم کیسے ہو زندگانی
کس طرح خودی ہو لازمانی
تُو اپنی خودی کو کھو چکا ہے
کھوئی ہوئی شے کی جُستجو کر
تیری خودی کا غیاب معرکۂ ذکر و فکر
تیری خودی کا حضور عالمِ شعر و سرود
جس بندۂ حق بیں کی خودی ہوگئی بیدار
شمشیر کی مانند ہے بُرَّندہ و برّاق
جس کو مشروع سمجھتے ہیں فقیہانِ خودی
منتظر ہے کسی مُطرب کا ابھی تک وہ سرود!
زمانے میں جھُوٹا ہے اُس کا نِگیں
جو اپنی خودی کو پرکھتا نہیں
تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رُوسیاہی
جوہرِ زندگی ہے عشق، جوہرِ عشق ہے خودی
آہ کہ ہے یہ تیغِ تیز پردگیِ نیام ابھی
یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تُو نہ رہے
رہا نہ توُ تو نہ سوزِ خودی، نہ سازِ حیات
خلوَت میں خودی ہوتی ہے خودگیر، و لیکن
خلوَت نہیں اب دَیر و حرم میں بھی میَسّر
خودی کو نہ دے سیم و زر کے عوض
نہیں شُعلہ دیتے شرر کے عوض
عطا درد ہوتا تھا شاعر کے دل کو
خودی تَشنہ کامِ مئے بے خودی تھی
یہ موجِ نفَس کیا ہے تلوار ہے
خودی کیا ہے، تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے، رازِ درُونِ حیات
خودی کیا ہے، بیداریِ کائنات
خودی جلوہ بدمست و خلوَت پسند
سمندر ہے اک بُوند پانی میں بند
خودی کے نِگہباں کو ہے زہرِ ناب
وہ ناں جس سے جاتی رہے اس کی آب
فرو فالِ محمود سے درگزر
خودی کو نِگہ رکھ، ایازی نہ کر
خودی کی یہ ہے منزلِ اوّلیں
مسافر! یہ تیرا نشیمن نہیں
یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تِل میں ہے
خودی سے اس طلسمِ رنگ و بُو کو توڑ سکتے ہیں
یہی توحید تھی جس کو نہ تُو سمجھا نہ مَیں سمجھا
ہُوئی ہے زیرِ فلک اُمتوں کی رُسوائی
خودی سے جب اَدب و دِیں ہُوئے ہیں بیگانہ
خودی سے مردِ خود آگاہ کا جمال و جلال
کہ یہ کتاب ہے، باقی تمام تفسیریں
خودی میں ڈوب جا غافل! یہ سِرِّ زندگانی ہے
نکل کر حلقۂ شام و سحَر سے جاوداں ہو جا
خودی میں ڈُوب، زمانے سے نا اُمید نہ ہو
کہ اس کا زخم ہے درپردہ اہتمامِ رفُو
خودی میں ڈُوبتے ہیں پھر اُبھر بھی آتے ہیں
مگر یہ حوصلۂ مردِ ہیچ کارہ نہیں
خودی میں ڈُوبنے والوں کے عزم و ہمّت نے
اس آبُجو سے کیے بحرِ بے کراں پیدا
خودی میں گُم ہے خدائی، تلاش کر غافل!
یہی ہے تیرے لیے اب صلاحِ کار کی راہ
مرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر!
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تُو آبجُو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں
تُو رازِ کن فکاں ہے، اپنی انکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا
خودی کا سِرِّ نہاں لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
خودی ہے تیغ، فَساں لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تِل میں ہے
خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی
یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سُلطانی
خودی کو جس نے فلک سے بلند تر دیکھا
وہی ہے مملکتِ صبح و شام سے آگاہ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پُوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
خودی ہو زندہ تو ہے فقر بھی شہنشاہی
نہیں ہے سَنجر و طغرل سے کم شکوہِ فقیر
خودی ہو زندہ تو دریائے بے کراں پایاب
خودی ہو زندہ تو کُہسار پرنیان و حریر
خودی کی شوخی و تُندی میں کبر و ناز نہیں
جو ناز ہو بھی تو بے لذّتِ نیاز نہیں
خودی کی موت سے مغرب کا اندرُوں بے نور
خودی کی موت سے مشرق ہے مُبتلائے جُذام
خودی کی موت سے رُوحِ عرب ہے بے تب و تاب
بدن عراق و عَجم کا ہے بے عروق و عظام
خودی کی موت سے ہِندی شکستہ بالوں پر
قفَس ہُوا ہے حلال اور آشیانہ حرام!
خودی کی موت سے پیرِ حرم ہُوا مجبور
کہ بیچ کھائے مسلماں کا جامٔہ احرام
خودی کی موت سے مشرق کی سر زمینوں میں
ہُوا نہ کوئی خُدائی کا رازداں پیدا
کسے نہیں ہے تمنّائے سَروری، لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سَروری کیا ہے
حیات کیا ہے، خیال و نظر کی مجذوبی
خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناگُوں
نہ ہے ستارے کی گردش، نہ بازیِ افلاک
خودی کی موت ہے تیرا زوالِ نعمت و جاہ
سُنا ہے مَیں نے، غلامی سے اُمتوّں کی نجات
خودی کی پرورش و لذّتِ نمود میں ہے
خودی کے ساز میں ہے عُمرِ جاوداں کا سُراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں اُمتوں کے چراغ
خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل
اگر ہو عشق سے محکم تو صُورِ اسرافیل
خودی ہے مُردہ تو مانندِ کاہ پیشِ نسیم
خودی ہے زندہ تو سلطانِ جملہ موجودات
خودی ہے زندہ تو ہے موت اک مقامِ حیات
کہ عشق موت سے کرتا ہے امتحانِ ثبات
خودی ہے زندہ تو دریا ہے بے کرانہ ترا
ترے فراق میں مُضطر ہے موجِ نیل و فرات
خودی ہے مُردہ تو مانندِ کاہ پیشِ نسیم
خودی ہے زندہ تو سلطانِ جملہ موجودات
رائی زورِ خودی سے پربت
پربت ضعفِ خودی سے رائی
رُوح اسلام کی ہے نُورِ خودی، نارِ خودی
زندگانی کے لیے نارِ خودی نور و حضور!
اے کہ غلامی سے ہے رُوح تری مُضمحل
سینۂ بے سوز میں ڈھُونڈ خودی کا مقام
شرابِ بے خودی سے تا فلک پرواز ہے میری
شکستِ رنگ سے سیکھا ہے مَیں نے بن کے بُو رہنا
عجب مزا ہے، مجھے لذّتِ خودی دے کر
وہ چاہتے ہیں کہ مَیں اپنے آپ میں نہ
مہر و مہ و مشتری، چند نفس کا فروغ
عشق سے ہے پائدار تیری خودی کا وجود
عشقِ بُتاں سے ہاتھ اُٹھا، اپنی خودی میں ڈوب جا
نقش و نگارِ دَیر میں خُونِ جگر نہ کر تلَف
غافل نہ ہو خودی سے، کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تُو بھی ہے آستانہ
حیات و موت نہیں التفات کے لائق
فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود
اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف
محرم خودی سے جس دم ہُوا فقر
تُو بھی شہنشاہ، مَیں بھی شہنشاہ
مری خودی بھی سزا کی ہے مستحق لیکن
زمانہ دارو رسَن کی تلاش میں ہے ابھی
ممکن نہیں تخلیقِ خودی خانقہوں سے
اس شُعلۂ نم خوردہ سے ٹُوٹے گا شرَر کیا!
مگر یہ پیکرِ خاکی خودی سے ہے خالی
فقط نیام ہے تُو، زرنگار و بے شمشیر
مہ و ستارہ، مثالِ شرارہ یک دو نفَس
میٔ خودی کا اَبد تک سُرور رہتا ہے
نمود جس کی فرازِ خودی سے ہو، وہ جمیل
جو ہو نشیب میں پیدا، قبیح و نامحبوب
جہاں خودی کا بھی ہے صاحبِ فراز و نشیب
یہاں بھی معرکہ آرا ہے خُوب سے ناخُوب
نہ خودی ہے، نہ جہانِ سحَر و شام کے دور
زندگانی کی حریفانہ کشاکش سے نجات
نہ دیر میں نہ حرم میں خودی کی بیداری
کہ خاوراں میں ہے قوموں کی رُوح تریاکی
نظر سپہر پہ رکھتا ہے جو ستارہ شناس
نہیں ہے اپنی خودی کے مقام سے آگاہ
وجود کیا ہے، فقط جوہرِ خودی کی نمود
کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا
چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تیغِ خودی
ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کارِ سپاہ
شاخِ گُل پر چہک و لیکن
کر اپنی خودی میں آشیانہ
محکم کیسے ہو زندگانی
کس طرح خودی ہو لازمانی!
ابھی تک ہے پردے میں اولادِ آدم
کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے
ترے بلند مناصب کی خیر ہو یا رب
کہ ان کے واسطے تُو نے کِیا خودی کو ہلاک
تری نجات غمِ مرگ سے نہیں ممکن
کہ تُو خودی کو سمجھتا ہے پیکرِ خاکی
نہ میں اعجمی نہ ہندی، نہ عراقی و حجازی
کہ خودی سے مَیں نے سِیکھی دو جہاں سے بے نیازی
یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صُبح گاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی
نظر نہیں تو مرے حلقۂ سخن میں نہ بیٹھ
کہ نُکتہہائے خودی ہیں مثالِ تیغِ اصیل
پسند رُوح و بدن کی ہے وا نمود اس کو
کہ ہے نہایتِ مومن خودی کی عُریانی
اغیار کے افکار و تخیّل کی گدائی!
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟
گر ہُنَر میں نہیں تعمیرِ خودی کا جوہر
وائے صُورت گری و شاعری و ناے و سرود!
گراں بہا ہے تو حِفظِ خودی سے ہے ورنہ
گُہَر میں آبِ گُہَر کے سوا کچھ اور نہیں
گُسَستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک
کہ تُو ہے نغمۂ رومیؔ سے بے نیاز اب تک
اُس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صُورتِ فولاد
قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جُدائی
ہو صاحبِ مرکز تو خودی کیا ہے، خدائی
خودی را سوز و تابے دیگرے دہ
جہاں را انقلابے دیگرے دہ
فِردوس میں رومیؔ سے یہ کہتا تھا سنائیؔ
مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ، وہی آش
حلّاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر
اک مرد قلندر نے کِیا رازِ خودی فاش
حکیمی، نامسلمانی خودی کی
کلیمی، رمزِ پنہانی خودی کی
تجھے گُر فقر و شاہی کا بتا دوں
غریبی میں نگہبانی خودی کی
خودی بلند تھی اُس خُوں گرفتہ چینی کی
کہا غریب نے جلاّد سے دمِ تعزیر
ٹھہرَ ٹھہرَ کہ بہت دِل کشا ہے یہ منظر
ذرا میں دیکھ تو لوں تاب ناکیِ شمشیر
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
عبَث ہے شکوۂ تقدیرِ یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے؟
نہیں مقام کی خُوگر طبیعتِ آزاد
ہُوائے سیر مثالِ نسیم پیدا کر
ہزار چشمہ ترے سنگِ راہ سے پُھوٹے
خودی میں ڈُوب کے ضربِ کلیم پیدا کر
نہ ایشیا میں نہ یورپ میں سوز و سازِ حیات
خودی کی موت ہے یہ، اور وہ ضمیر کی موت
دِلوں میں ولولۂ انقلاب ہے پیدا
قریب آگئی شاید جہانِ پِیر کی موت
خودی کی پرورش و تربیَت پہ ہے موقوف
کہ مُشتِ خاک میں پیدا ہو آتشِ ہمہ سوز
یہی ہے سِرِّ کلیمی ہر اک زمانے میں
ہَوائے دشت و شعیب و شبانیِ شب و روز
خودی کی جلوَتوں میں مُصطفائی
خودی کی خلوَتوں میں کبریائی
زمین و آسمان و کُرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خُدائی!
خودی کی خلوتوں میں گُم رہا مَیں
خدا کے سامنے گویا نہ تھا مَیں
نہ دیکھا آنکھ اٹھا کر جلوۂ دوست
قیامت میں تماشا بن گیا مَیں
خودی کی پرورش و تربیَت پہ ہے موقوف
کہ مُشتِ خاک میں پیدا ہو آتشِ ہمہ سوز
یہی ہے سِرِّ کلیمی ہر اک زمانے میں
ہَوائے دشت و شعیب و شبانیِ شب و روز
خودی کے زور سے دُنیا پہ چھا جا
مقامِ رنگ و بُو کا راز پا جا
برنگِ بحر ساحل آشنا رہ
کفِ ساحل سے دامن کھینچتا جا
زندگانی ہے صدَف، قطرۂ نیساں ہے خودی
وہ صدَف کیا کہ جو قطرے کو گُہر کر نہ سکے
ہو اگر خودنِگر و خودگر و خودگیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تُو موت سے بھی مر نہ سکے
کبھی دریا سے مثلِ موج ابھر کر
کبھی دریا کے سینے میں اُتر کر
کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر
مقام اپنی خودی کا فاش تر کر
زندگانی ہے صدَف، قطرۂ نیساں ہے خودی
وہ صدَف کیا کہ جو قطرے کو گُہر کر نہ سکے
ہو اگر خودنِگر و خودگر و خودگیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تُو موت سے بھی مر نہ سکے
کھُلے جاتے ہیں اسرارِ نہانی
گیا دَورِ حدیثِ ’لن ترانی‘
ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار
وہی مہدی، وہی آخر زمانی
جُرأت ہے تو افکار کی دنیا سے گزر جا
ہیں بحرِ خودی میں ابھی پوشیدہ جزیرے
کھُلتے نہیں اس قُلزُمِ خاموش کے اسرار
جب تک تُو اسے ضربِ کلیمی سے نہ چِیرے
علامہ اقبال