Urdu Deccan

Tuesday, November 22, 2022

فیروز احمد فائز

یوم پیدائش 10 نومبر 1990

اب حقیقت بھی خواب کی سی ہے
یہ محبت سراب کی سی ہے

پار ہو جائے، گر توازن ہو
زندگی اک طناب کی سی ہے

زخمِ دل طول دے گیا ورنہ
ہستی اپنی حباب کی سی ہے

ہو گئے واصلِ جہنم ہم
تیری فرقت عذاب کی سی ہے

آدمی بھی نہیں ہو تم لیکن
شان عزت مآب کی سی ہے

ہے سراپا سرِ ورق فائز
زیست اس کی کتاب کی سی ہے

فیروز احمد فائز



چشمہ فاروقی

یوم پیدائش 10 نومبر

فتنے اٹھیں گے تو پیغام تباہی دیں گے
اور تاریک فضاؤں کو سیاہی دیں گے

آپ چاہیں تو ہمیں بھول بھی جائیں لیکن 
حال دل ہم تو کسی روز سنا ہی دیں گے

صرف اپنوں کی شرارت ہے تباہی میں یہاں 
آپ کس کس کو یہ الزام تباہی دیں گے

بے نیازی کا یہ عالم ہے تو ایک دن چشمہ 
میرے دل کو وہ تڑپ صورت ماہی دیں گے

چشمہ فاروقی



سہیل اختر

یوم پیدائش 10 نومبر 1962

ہمارے جیسے ہی لوگوں سے شہر بھر گئے ہیں 
وہ لوگ جن کی ضرورت تھی سارے مر گئے ہیں 

گھروں سے وہ بھی صدا دے تو کون نکلے گا 
ہے دن کا وقت ابھی لوگ کام پر گئے ہیں 

کہ آ گئے ہیں تری شور و شر کی محفل میں 
ہم اپنی اپنی خموشی سے کتنا ڈر گئے ہیں 

انہیں سے سیکھ لیں تہذیب راہ چلنے کی 
جو راہ دینے کی خاطر ہمیں ٹھہر گئے ہیں 

سبھی کو کرتے ہیں مل جل کے رہنے کی تلقین 
کچھ اپنے آپ میں ہم اس قدر بکھر گئے ہیں 

نہیں قبول ہمیں کامیابی کا یہ جنون 
یہ جانتے بھی ہیں ناکامیوں پہ سر گئے ہیں 

تو کیوں ستاتی ہے بگڑے دنوں کی یاد کہ ہم 
مصالحت ہوئی دنیا سے اب سدھر گئے ہیں 

ہوائے دشت یہاں کیوں ہے اتنا سناٹا 
وہ تیرے سارے دوانے بتا کدھر گئے ہیں

سہیل اختر



شہناز نور

یوم پیدائش 10 نومبر 1947

کسی سے ہاتھ کسی سے نظر ملاتے ہوئے
میں بجھ رہی ہوں روا داریاں نبھاتے ہوئے

کسی کو میرے دکھوں کی خبر بھی کیسے ہو
کہ میں ہر ایک سے ملتی ہوں مسکراتے ہوئے

عجیب خوف ہے اندر کی خامشی کا مجھے
کہ راستوں سے گزرتی ہوں گنگناتے ہوئے

کہاں تک اور میں سمٹوں کہ عمر بیت گئی
دل و نظر کے تقاضوں سے منہ چھپاتے ہوئے

نہیں ملال کہ میں رائیگاں ہوئی ہوں نورؔ
بدن کی خاک سے دیوار و در بناتے ہوئے

شہناز نور


 

نجمہ منصور

یوم پیدائش 09 نومبر 1967

نظم (محبت کو کبھی یاد نہ بننے دینا)

کبھی محبت کو یاد نہ بننے دینا 
تمہیں معلوم نہیں ہے 
محبت یاد بن جائے تو 
لمبے گھنے درختوں کی شاخوں کی مانند 
بدن کے گرد 
یوں لپٹ جاتی ہیں کہ سانسیں 
رک رک کر آتی ہیں 
ایک لمحہ کو 
یوں لگتا ہے جیسے 
زندگی اور موت کے بیچ خانہ جنگی میں 
زندگی ہار جائے گی 
مگر محبت کی سسکیاں 
کچھ دیر سہم کر 
چپ اوڑھ لیتی ہیں 
اور پھر اس ایک لمحے کی موت 
کئی صدیوں پر بھاری ہو جاتی ہے 
سنو 
بس اس ایک لمحے کی سیاہی 
رگوں میں گھلنے سے پہلے 
یہ جان لو 
محبت کو کبھی یاد نہ بننے دینا

نجمہ منصور



ثمیر کبیر

یوم پیدائش 09 نومبر 1973

کوئی صورت کتاب سے نکلے 
یاد سوکھے گلاب سے نکلے 

میری آنکھیں ہیں منتظر اب بھی 
کب وہ چہرہ نقاب سے نکلے 

اے شب ماہ ٹوٹتا ہے بدن 
درد شاید شراب سے نکلے 

چاند اترا تھا شب کو آنگن میں 
نیند ٹوٹے تو خواب سے نکلے 

وہ مری پیاس کو بجھا دے گا 
ایک قطرہ جو آب سے نکلے 

ثمیر کبیر


 

کومل جوئیہ

یوم پیدائش 09 نومبر 1983

زرد چہرہ ہے مرا زرد بھی ایسا ویسا 
ہجر کا درد ہے اور درد بھی ایسا ویسا 

ایسی ٹھنڈک کہ جمی برف ہر اک خواہش پر 
سرد لہجہ تھا کوئی سرد بھی ایسا ویسا 

اب اسے فرصت احوال میسر ہی نہیں 
وہ جو ہمدرد تھا ہمدرد بھی ایسا ویسا 

یعنی اس دھول کے چھٹنے پہ بھی الزام جنوں 
کوئی طوفاں ہے پس گرد بھی ایسا ویسا 

پوری بستی میں بس اک شخص سے نسبت مجھ کو 
مجھ سے منکر ہے وہ اک فرد بھی ایسا ویسا 

عشق نے ریل کی پٹری پہ لٹایا جس کو 
تھا جواں مرد جواں مرد بھی ایسا ویسا 

کیا تجھے ہجر کے آزار بتائے کوملؔ 
تو تو بے درد ہے بے درد بھی ایسا ویسا

کومل جوئیہ


 

علامہ اقبال

یوم اردو مبارک ہو 

جہاں خودی کا بھی ہے صاحبِ فراز و نشیب
یہاں بھی معرکہ آرا ہے خُوب سے ناخُوب

حریم تیرا، خودی غیر کی! معاذاللہ
دوبارہ زندہ نہ کر کاروبارِ لات و منات

آسماں میں راہ کرتی ہے خودی
صیدِ مہر و ماہ کرتی ہے خودی

ہے شعرِ عجَم گرچہ طرب ناک و دل آویز
اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیرِ خودی تیز

اقبالؔ! یہاں نام نہ لے علمِ خودی کا
موزُوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات

اُس کی خودی ہے ابھی شام و سحَر میں اسیر
گردشِ دَوراں کا ہے جس کی زباں پر گِلہ

رومی بدلے، شامی بدلے، بدلا ہندُستان
تُو بھی اے فرزندِ کُہستاں! اپنی خودی پہچان

اگر خودی کی حفاظت کریں تو عینِ حیات
نہ کر سکیں تو سراپا فسُون و افسانہ

بے اشکِ سحَر گاہی تقویمِ خودی مشکل
یہ لالۂ پیکانی خوشتر ہے کنارِ جُو

تاثیرِ غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم
اچھّی نہیں اُس قوم کے حق میں عجمی لَے

تری خودی سے ہے روشن ترا حریمِ وجود
حیات کیا ہے، اُسی کا سُرور و سوز و ثبات

تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں ہے کہ یہ چار سُو بدل جائے

یہ ذکرِ نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سُرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے، اسے پھیر

بے ذوقِ نمود زندگی، موت
تعمیرِ خودی میں ہے خدائی

پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
تعمیرِ خودی کر، اَثرِ آہِ رسا دیکھ

تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ

تمام عارف و عامی خودی سے بیگانہ
کوئی بتائے یہ مسجد ہے یا کہ میخانہ

تُو اپنی خودی اگر نہ کھوتا
زُناّریِ برگساں نہ ہوتا

فطرت کو دِکھایا بھی ہے، دیکھا بھی ہے تُو نے
آئینۂ فطرت میں دِکھا اپنی خودی بھی!

محکم کیسے ہو زندگانی
کس طرح خودی ہو لازمانی

تُو اپنی خودی کو کھو چکا ہے
کھوئی ہوئی شے کی جُستجو کر

تیری خودی کا غیاب معرکۂ ذکر و فکر
تیری خودی کا حضور عالمِ شعر و سرود

جس بندۂ حق بیں کی خودی ہوگئی بیدار
شمشیر کی مانند ہے بُرَّندہ و برّاق

جس کو مشروع سمجھتے ہیں فقیہانِ خودی
منتظر ہے کسی مُطرب کا ابھی تک وہ سرود!

زمانے میں جھُوٹا ہے اُس کا نِگیں
جو اپنی خودی کو پرکھتا نہیں

تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رُوسیاہی

جوہرِ زندگی ہے عشق، جوہرِ عشق ہے خودی
آہ کہ ہے یہ تیغِ تیز پردگیِ نیام ابھی

یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تُو نہ رہے
رہا نہ توُ تو نہ سوزِ خودی، نہ سازِ حیات

خلوَت میں خودی ہوتی ہے خودگیر، و لیکن
خلوَت نہیں اب دَیر و حرم میں بھی میَسّر

خودی کو نہ دے سیم و زر کے عوض
نہیں شُعلہ دیتے شرر کے عوض

عطا درد ہوتا تھا شاعر کے دل کو
خودی تَشنہ کامِ مئے بے خودی تھی

یہ موجِ نفَس کیا ہے تلوار ہے
خودی کیا ہے، تلوار کی دھار ہے

خودی کیا ہے، رازِ درُونِ حیات
خودی کیا ہے، بیداریِ کائنات

خودی جلوہ بدمست و خلوَت پسند
سمندر ہے اک بُوند پانی میں بند

خودی کے نِگہباں کو ہے زہرِ ناب
وہ ناں جس سے جاتی رہے اس کی آب

فرو فالِ محمود سے درگزر
خودی کو نِگہ رکھ، ایازی نہ کر

خودی کی یہ ہے منزلِ اوّلیں
مسافر! یہ تیرا نشیمن نہیں

یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار

خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تِل میں ہے

خودی سے اس طلسمِ رنگ و بُو کو توڑ سکتے ہیں
یہی توحید تھی جس کو نہ تُو سمجھا نہ مَیں سمجھا

ہُوئی ہے زیرِ فلک اُمتوں کی رُسوائی
خودی سے جب اَدب و دِیں ہُوئے ہیں بیگانہ

خودی سے مردِ خود آگاہ کا جمال و جلال
کہ یہ کتاب ہے، باقی تمام تفسیریں

خودی میں ڈوب جا غافل! یہ سِرِّ زندگانی ہے
نکل کر حلقۂ شام و سحَر سے جاوداں ہو جا

خودی میں ڈُوب، زمانے سے نا اُمید نہ ہو
کہ اس کا زخم ہے درپردہ اہتمامِ رفُو

خودی میں ڈُوبتے ہیں پھر اُبھر بھی آتے ہیں
مگر یہ حوصلۂ مردِ ہیچ کارہ نہیں

خودی میں ڈُوبنے والوں کے عزم و ہمّت نے
اس آبُجو سے کیے بحرِ بے کراں پیدا

خودی میں گُم ہے خدائی، تلاش کر غافل!
یہی ہے تیرے لیے اب صلاحِ کار کی راہ

مرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر!

خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تُو آبجُو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں

تُو رازِ کن فکاں ہے، اپنی انکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا

خودی کا سِرِّ نہاں لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
خودی ہے تیغ، فَساں لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ

خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تِل میں ہے

خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی
یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سُلطانی

خودی کو جس نے فلک سے بلند تر دیکھا
وہی ہے مملکتِ صبح و شام سے آگاہ

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پُوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے

خودی ہو زندہ تو ہے فقر بھی شہنشاہی
نہیں ہے سَنجر و طغرل سے کم شکوہِ فقیر

خودی ہو زندہ تو دریائے بے کراں پایاب
خودی ہو زندہ تو کُہسار پرنیان و حریر

خودی کی شوخی و تُندی میں کبر و ناز نہیں
جو ناز ہو بھی تو بے لذّتِ نیاز نہیں

خودی کی موت سے مغرب کا اندرُوں بے نور
خودی کی موت سے مشرق ہے مُبتلائے جُذام

خودی کی موت سے رُوحِ عرب ہے بے تب و تاب
بدن عراق و عَجم کا ہے بے عروق و عظام

خودی کی موت سے ہِندی شکستہ بالوں پر
قفَس ہُوا ہے حلال اور آشیانہ حرام!

خودی کی موت سے پیرِ حرم ہُوا مجبور
کہ بیچ کھائے مسلماں کا جامٔہ احرام

خودی کی موت سے مشرق کی سر زمینوں میں
ہُوا نہ کوئی خُدائی کا رازداں پیدا

کسے نہیں ہے تمنّائے سَروری، لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سَروری کیا ہے

حیات کیا ہے، خیال و نظر کی مجذوبی
خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناگُوں

نہ ہے ستارے کی گردش، نہ بازیِ افلاک
خودی کی موت ہے تیرا زوالِ نعمت و جاہ

سُنا ہے مَیں نے، غلامی سے اُمتوّں کی نجات
خودی کی پرورش و لذّتِ نمود میں ہے

خودی کے ساز میں ہے عُمرِ جاوداں کا سُراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں اُمتوں کے چراغ

خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل
اگر ہو عشق سے محکم تو صُورِ اسرافیل

خودی ہے مُردہ تو مانندِ کاہ پیشِ نسیم
خودی ہے زندہ تو سلطانِ جملہ موجودات

خودی ہے زندہ تو ہے موت اک مقامِ حیات
کہ عشق موت سے کرتا ہے امتحانِ ثبات

خودی ہے زندہ تو دریا ہے بے کرانہ ترا
ترے فراق میں مُضطر ہے موجِ نیل و فرات

خودی ہے مُردہ تو مانندِ کاہ پیشِ نسیم
خودی ہے زندہ تو سلطانِ جملہ موجودات

رائی زورِ خودی سے پربت
پربت ضعفِ خودی سے رائی

رُوح اسلام کی ہے نُورِ خودی، نارِ خودی
زندگانی کے لیے نارِ خودی نور و حضور!

اے کہ غلامی سے ہے رُوح تری مُضمحل
سینۂ بے سوز میں ڈھُونڈ خودی کا مقام

شرابِ بے خودی سے تا فلک پرواز ہے میری
شکستِ رنگ سے سیکھا ہے مَیں نے بن کے بُو رہنا

عجب مزا ہے، مجھے لذّتِ خودی دے کر
وہ چاہتے ہیں کہ مَیں اپنے آپ میں نہ

مہر و مہ و مشتری، چند نفس کا فروغ
عشق سے ہے پائدار تیری خودی کا وجود

عشقِ بُتاں سے ہاتھ اُٹھا، اپنی خودی میں ڈوب جا
نقش و نگارِ دَیر میں خُونِ جگر نہ کر تلَف

غافل نہ ہو خودی سے، کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تُو بھی ہے آستانہ

حیات و موت نہیں التفات کے لائق
فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود

اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف

محرم خودی سے جس دم ہُوا فقر
تُو بھی شہنشاہ، مَیں بھی شہنشاہ

مری خودی بھی سزا کی ہے مستحق لیکن
زمانہ دارو رسَن کی تلاش میں ہے ابھی

ممکن نہیں تخلیقِ خودی خانقہوں سے
اس شُعلۂ نم خوردہ سے ٹُوٹے گا شرَر کیا!

مگر یہ پیکرِ خاکی خودی سے ہے خالی
فقط نیام ہے تُو، زرنگار و بے شمشیر

مہ و ستارہ، مثالِ شرارہ یک دو نفَس
میٔ خودی کا اَبد تک سُرور رہتا ہے

نمود جس کی فرازِ خودی سے ہو، وہ جمیل
جو ہو نشیب میں پیدا، قبیح و نامحبوب

جہاں خودی کا بھی ہے صاحبِ فراز و نشیب
یہاں بھی معرکہ آرا ہے خُوب سے ناخُوب

نہ خودی ہے، نہ جہانِ سحَر و شام کے دور
زندگانی کی حریفانہ کشاکش سے نجات

نہ دیر میں نہ حرم میں خودی کی بیداری
کہ خاوراں میں ہے قوموں کی رُوح تریاکی

نظر سپہر پہ رکھتا ہے جو ستارہ شناس
نہیں ہے اپنی خودی کے مقام سے آگاہ

وجود کیا ہے، فقط جوہرِ خودی کی نمود
کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا

چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تیغِ خودی
ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کارِ سپاہ

شاخِ گُل پر چہک و لیکن
کر اپنی خودی میں آشیانہ

محکم کیسے ہو زندگانی
کس طرح خودی ہو لازمانی!

ابھی تک ہے پردے میں اولادِ آدم
کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے

ترے بلند مناصب کی خیر ہو یا رب
کہ ان کے واسطے تُو نے کِیا خودی کو ہلاک

تری نجات غمِ مرگ سے نہیں ممکن
کہ تُو خودی کو سمجھتا ہے پیکرِ خاکی

نہ میں اعجمی نہ ہندی، نہ عراقی و حجازی
کہ خودی سے مَیں نے سِیکھی دو جہاں سے بے نیازی

یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صُبح گاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی

نظر نہیں تو مرے حلقۂ سخن میں نہ بیٹھ
کہ نُکتہ‌ہائے خودی ہیں مثالِ تیغِ اصیل

پسند رُوح و بدن کی ہے وا نمود اس کو
کہ ہے نہایتِ مومن خودی کی عُریانی

اغیار کے افکار و تخیّل کی گدائی!
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟

گر ہُنَر میں نہیں تعمیرِ خودی کا جوہر
وائے صُورت گری و شاعری و ناے و سرود!

گراں بہا ہے تو حِفظِ خودی سے ہے ورنہ
گُہَر میں آبِ گُہَر کے سوا کچھ اور نہیں

گُسَستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک
کہ تُو ہے نغمۂ رومیؔ سے بے نیاز اب تک

اُس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صُورتِ فولاد

قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جُدائی
ہو صاحبِ مرکز تو خودی کیا ہے، خدائی

خودی را سوز و تابے دیگرے دہ
جہاں را انقلابے دیگرے دہ

فِردوس میں رومیؔ سے یہ کہتا تھا سنائیؔ
مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ، وہی آش
حلّاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر
اک مرد قلندر نے کِیا رازِ خودی فاش

حکیمی، نامسلمانی خودی کی
کلیمی، رمزِ پنہانی خودی کی
تجھے گُر فقر و شاہی کا بتا دوں
غریبی میں نگہبانی خودی کی

خودی بلند تھی اُس خُوں گرفتہ چینی کی
کہا غریب نے جلاّد سے دمِ تعزیر
ٹھہرَ ٹھہرَ کہ بہت دِل کشا ہے یہ منظر
ذرا میں دیکھ تو لوں تاب ناکیِ شمشیر

ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
عبَث ہے شکوۂ تقدیرِ یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے؟

نہیں مقام کی خُوگر طبیعتِ آزاد
ہُوائے سیر مثالِ نسیم پیدا کر
ہزار چشمہ ترے سنگِ راہ سے پُھوٹے
خودی میں ڈُوب کے ضربِ کلیم پیدا کر

نہ ایشیا میں نہ یورپ میں سوز و سازِ حیات
خودی کی موت ہے یہ، اور وہ ضمیر کی موت
دِلوں میں ولولۂ انقلاب ہے پیدا
قریب آگئی شاید جہانِ پِیر کی موت

خودی کی پرورش و تربیَت پہ ہے موقوف
کہ مُشتِ خاک میں پیدا ہو آتشِ ہمہ سوز
یہی ہے سِرِّ کلیمی ہر اک زمانے میں
ہَوائے دشت و شعیب و شبانیِ شب و روز

خودی کی جلوَتوں میں مُصطفائی
خودی کی خلوَتوں میں کبریائی
زمین و آسمان و کُرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خُدائی!

خودی کی خلوتوں میں گُم رہا مَیں
خدا کے سامنے گویا نہ تھا مَیں
نہ دیکھا آنکھ اٹھا کر جلوۂ دوست
قیامت میں تماشا بن گیا مَیں

خودی کی پرورش و تربیَت پہ ہے موقوف
کہ مُشتِ خاک میں پیدا ہو آتشِ ہمہ سوز
یہی ہے سِرِّ کلیمی ہر اک زمانے میں
ہَوائے دشت و شعیب و شبانیِ شب و روز

خودی کے زور سے دُنیا پہ چھا جا
مقامِ رنگ و بُو کا راز پا جا
برنگِ بحر ساحل آشنا رہ
کفِ ساحل سے دامن کھینچتا جا

زندگانی ہے صدَف، قطرۂ نیساں ہے خودی
وہ صدَف کیا کہ جو قطرے کو گُہر کر نہ سکے
ہو اگر خودنِگر و خودگر و خودگیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تُو موت سے بھی مر نہ سکے

کبھی دریا سے مثلِ موج ابھر کر
کبھی دریا کے سینے میں اُتر کر
کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر
مقام اپنی خودی کا فاش تر کر

 زندگانی ہے صدَف، قطرۂ نیساں ہے خودی
وہ صدَف کیا کہ جو قطرے کو گُہر کر نہ سکے
ہو اگر خودنِگر و خودگر و خودگیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تُو موت سے بھی مر نہ سکے

کھُلے جاتے ہیں اسرارِ نہانی
گیا دَورِ حدیثِ ’لن ترانی‘
ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار
وہی مہدی، وہی آخر زمانی

جُرأت ہے تو افکار کی دنیا سے گزر جا
ہیں بحرِ خودی میں ابھی پوشیدہ جزیرے
کھُلتے نہیں اس قُلزُمِ خاموش کے اسرار
جب تک تُو اسے ضربِ کلیمی سے نہ چِیرے

علامہ اقبال 



عنبر عابد

یوم پیدائش 08 نومبر 

جان جاتی نہیں اور جاں سے گزر جاتے ہیں 
ہم جدائی کے بھی احساس سے مر جاتے ہیں 

باندھ کر رخت سفر سوچ رہی ہوں کب سے 
جن کا گھر کوئی نہیں ہوتا کدھر جاتے ہیں 

جن کو تاریکی میں راتوں کی منور دیکھا 
صبح ہوتی ہے تو پھر جانے کدھر جاتے ہیں 

جب بھی خودداری کی دیوار کو ڈھانا چاہیں 
اپنے اندر کی صدا سن کے ٹھہر جاتے ہیں 

راستے اس نے یوں تقسیم کئے تھے عنبرؔ 
اب ادھر جانا ہے تم کو ہم ادھر جاتے ہیں

عنبر عابد



انور مسعود

یوم پیدائش 08 نومبر 1935

اب کہاں اور کسی چیز کی جا رکھی ہے
دل میں اک تیری تمنا جو بسا رکھی ہے

سر بکف میں بھی ہوں شمشیر بکف ہے تو بھی
تو نے کس دن پہ یہ تقریب اٹھا رکھی ہے

دل سلگتا ہے ترے سرد رویے سے مرا
دیکھ اس برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے

آئنہ دیکھ ذرا کیا میں غلط کہتا ہوں
تو نے خود سے بھی کوئی بات چھپا رکھی ہے

جیسے تو حکم کرے دل مرا ویسے دھڑکے
یہ گھڑی تیرے اشاروں سے ملا رکھی ہے

مطمئن مجھ سے نہیں ہے جو رعیت میری
یہ مرا تاج رکھا ہے یہ قبا رکھی ہے

گوہر اشک سے خالی نہیں آنکھیں انورؔ
یہی پونجی تو زمانے سے بچا رکھی ہے

انور مسعود



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...