Urdu Deccan

Monday, November 28, 2022

بیتاب کیفی

یومِ پیدائش 24 نومبر 1949

زمیں کی بات نہ میں آسماں کی بات کروں 
لگن ہے دل میں کہ تسخیر کائنات کروں 

فریب کھانا تو منظور ہے مگر یا رب 
مرا مزاج نہیں ہے کہ میں بھی گھات کروں 

مجھے ملے ہیں عجیب و غریب ہمسائے 
نہ گفتگو ہی نہ ترک تعلقات کروں 

پھر اس کے بعد ہی راحت کی بات سوچوں گا 
میں پہلے پار تعصب کے جنگلات کروں 

ہر ایک لمحہ نیا زخم دے کے جاتا ہے 
بیان کیسے میں بیتابؔ کربِ ذات کروں

بیتاب کیفی


 

حاذق انصاری

یوم وفات 23 نومبر 1976

کمالِ عشق تو دیکھو کہ دیکھنے والے
سمجھ رہے ہیں کہ تصویرِ حسنِ یار ہوں میں

حاذق انصاری


 

شاہ نصیر

یوم وفات 23 نومبر 1838

بے مہر و وفا ہے وہ دل آرام ہمارا 
کیا جانے کیا ہووے گا انجام ہمارا 

کیا قہر ہے اوروں سے وہ ملتا پھرے ظالم 
اور مفت میں اب نام ہے بد نام ہمارا 

اے آب دم تیغ ستم کیش بجھا پیاس 
ہوتا ہے تری چاہ میں اب کام ہمارا 

لبریز کر اس دور میں اے ساقیٔ کم ظرف 
مت رکھ مئے گلگوں سے تہی جام ہمارا 

کس طرح نکل بھاگوں میں اب آنکھ بچا کر 
صد چشم سے یاں ہے نگراں دام ہمارا 

یہ زلف و رخ یار ہے اے شیخ و برہمن 
باللہ یہاں کفر اور اسلام ہمارا 

بیعت کا ارادہ ہے ترے سلسلے میں جوں 
شانہ ہے اب اے زلف سیہ فام ہمارا 

اس شوخ تلک کوئی نہ پہنچا سکا ہمدم 
جز حقہ یہاں بوسہ بہ پیغام ہمارا 

کیا کہئے کس انداز سے شرمائے ہے وہ شوخ 
تقریباً اگر لے ہے کوئی نام ہمارا 

صیاد سے کہتے تھے کہ بے بال و پری میں 
آزاد نہ کر بد ہے کچھ انجام ہمارا 

پرواز کی طاقت نہیں یاں تا سر دیوار 
کیوں کر ہو پہنچنا بہ لب بام ہمارا 

اس عشق میں جیتے نہیں بچنے کے نصیرؔ آہ 
ہو جائے گا اک روز یوں ہی کام ہمارا

شاہ نصیر



آفتاب اجمیری

یوم پیدائش 23 نومبر 1959

صبح جب سورج اگا تو آگ برسانے لگا
پھول اپنے مسکرانے کی سزا پانے لگا

اس سے پہلے تو مری دنیا بہت بے کیف تھی
آپ کو دیکھا ہے جس دن سے نشہ چھانے لگا

ہم مکمل تھے مگر اب ریزہ ریزہ ہوگئے
نفرتوں کا بیج دل میں کیا جگہ پانے لگا

آدمی نے آدمی پر وہ ستم ڈھایا کہ بس
کانپ اٹھی ہے زمیں آکاش تھرانے لگا

آج کا انسان کتنا ہوگیا ہے بے ضمیر
بھول کر خوفِ خدا جھوٹی قسم کھانے لگا

آفتاب اجمیری

 

احمد الیاس

یوم پیدائش 23 نومبر 1934

یہ عہد چھوڑے گا اپنی نشانیاں کیا کیا
سُنیں گے لوگ ہماری کہانیاں کیا کیا

نہ جانے کیسے تھے وہ سب مقامِ عارض و لب
جہاں پہ خاک ہوئی ہیں جوانیاں کیا کیا

ہمارے قتل پہ سب نوحہ خواں بُلائے گئے
ستم کے بعد ہوئیں مہربا نیاں کیا کیا

ترے قریب کبھی دل کا حال یہ تو نہ تھا
بچھڑ کے تُجھ سے ہوئیں بد گمانیاں کیا کیا

ہمیں تو تنگیِ داماں کی داد بھی نہ ملی
سُنی تھیں ہم نے تری مہربانیاں کیا کیا

جو دیکھنا ہو تو آ ئو چراغِ شام کے بعد
دکھائیں اشکوں کی ہم بھی روانیاں کیا کیا

شکست وریخت کےآگے بھی مرحلے ہیں کئی
کروگے شیشہ گرو نوحہ خوانیاں کیا کیا

احمد الیاس



شاکر کلکتوی

یوم پیدائش 23 نومبر 1920

بے پردہ اس کا چہرۂ پر نور تو ہوا 
کچھ دیر شعبدہ سا سر طور تو ہوا 

اچھا کیا کہ میں نے کیا ترک آرزو 
بے صبر دل کو صبر کا مقدور تو ہوا 

گو اس میں اب نہیں ہیں لڑکپن کی شوخیاں 
لیکن شباب آنے سے مغرور تو ہوا 

اب اور التفات سے مقصد ہے کیا ترا 
بس اے نگاہ مست کہ میں چور تو ہوا 

تم نے اگر سنا نہیں یہ اور بات ہے 
افسانہ میرے عشق کا مشہور تو ہوا 

سنتا ہوں حسن مائل مہر و وفا ہے اب 
اے اختیار عشق وہ مجبور تو ہوا 

شاکرؔ کو ہے نصیب سے کس بات کا گلا 
دنیائے شاعری میں وہ مشہور تو ہوا

شاکر کلکتوی


 

Wednesday, November 23, 2022

یاسمین معز

یوم پیدائش 22 نومبر 

راہِ الفت پہ چلی تیرا نظارہ کر کے
بیٹھی سائے میں تری یاد سہارا کر کے

بڑھتی جاتی ہے محبت کی لگن کچھ ایسے
جیسے تو سامنے ہو، خود کو ستارہ کر کے

دکھ تو سارے ہی لکھے تھے مری قسمت میں سدا
زندگی گزری، گزاروں پہ گزارا کر کے

دل کے داغوں کو چھپاتی تھی ہمیشہ سب سے
اور رکھتی تھی انھیں جان سے پیارا کر کے

تجھ کو بھولوں گی تو خود میں بھی نہ بچ پاؤں گی 
مجھ کو جینا ہے اسی درد کو پارہ کر کے

میں جو بیٹھی ہوں، تری یاد سے بیگانی ہوں؟
"تو سمجھتا ہے ترا ہجر گوارا کر کے"

یاسمیں! چین محبت میں کہاں ملتا ہے؟
جینا پڑتا ہے یونہی خون فوارہ کر کے

یاسمین معز


 

انجم رانا

یوم پیدائش 22 نومبر 

محبت میں ایسا روا تو نہیں نا
وفاؤں کا بدلہ جفا تو نہیں نا

پرستش کو میری وہ سمجھے تو کیسے
وہ ماٹی کا بت ہے خدا تو نہیں نا

وہ چلمن کو پیچھے ہٹا کر ہنسے گا
یہ ممکن ہے لیکن.... ہوا تو نہیں نا

یہ کہہ کر فسانہ سمیٹا ہے اس نے 
جدائی کا مطلب.. جدا تو نہیں نا

تغیر.... تقاضا ہے فطرت کا لیکن
جو غنچے جلا دے صبا تو نہیں نا

میں انجم اسے بھول جاؤں تو کیسے
چھنے جو لبوں سے دعا تو نہیں نا

انجم رانا



کامران غنی صبا

یوم پیدائش 22 نومبر 1989

سنے گا کون یہاں میری ایک ذات کا شور
ہے میرے چاروں طرف بس توقعات کا شور

یہ اور بات کہ باہر بہت خموشی ہے
مرے وجود میں پنہاں ہے کائنات کا شور

میں دن کے شور سے محفوظ تو نکل آیا
مگر میں جاؤں کہاں سامنے ہے رات کا شور

صدائے فکر کو خدشہ ہے، ایک ہی خدشہ
اسے دبا کے نہ رکھ دے یہ "فاعلات" کا شور

پتہ چلا کہ یہی آخری حقیقت ہے
بس ایک ہچکی میں ضم ہو گیا حیات کا شور

مجھے بچائو! کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے صباؔ
مرے وجود کے ملبے پہ سانحات کا شور

کامران غنی صبا


 

سیدہ مہناز وارثی

یوم پیدائش 22 نومبر 1969

دادِ جفا وفا ہے دیے جارہی ہوں میں
اُن سے مگر نباہ کیے جارہی ہوں میں

خونِ دل و جگر ہو کہ ہوں میرے اشکِ غم
اُن کا ہی نام لے کے پیے جارہی ہوں میں

پت جھڑ کی رُت پہ بھی کوئی دیکھے مرا ہنر
دامانِ تارتار سیے جارہی ہوں میں

وارفتگی کہوں اِسے یا بے خودی کہوں
بس آپ ہی کا نام لیے جارہی ہوں میں

شاید کہ زندگی کے کسی موڑ پر ملوں
یہ سوچتی ہوں اور جیے جارہی ہوں میں

کیا رنگ لائے خدمتِ مخلوق دیکھیے
خدمت کا حوصلہ ہے ، کیے جارہی ہوں میں

مہنازؔ وہ بھی یاد کریں گے مری وفا
دل دے کے اُن سے درد لیے جارہی ہوں میں

سیدہ مہناز وارثی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...