نظر بے باک ہے سارے بدن پر دست کاری ہے
یہی معیار ہے تیرا کہ یہ غفلت شعاری ہے
تری تصویر شاید اس لئے کچھ اور پیاری ہے
یہ میری کیمرہ تمثال آنکھوں نے اتاری ہے
وہ اب بھی ہے جو ہم میں فاصلہ تھا ایک کروٹ کا
ہم اپنے ضبط سے ہارے وہ اپنی ضد سے ہاری ہے
میں شیشہ ہوں یہ شیشہ گر مرے ٹکڑوں سے پلتے ہیں
مری عادت نہیں ہے ٹوٹ جانا ذمے داری ہے
اسے پانا نہیں اسکی بھلائی چاہتے ہیں ہم
کوئی سمجھے محبت ہم نے ہاری ہے تو ہاری
سمندر دھوپ صحرا اور تم سب ایک جیسے ہو
کسی سے کوئی ہمدردی نہ کوئی غمگساری ہے









