Urdu Deccan

Monday, December 12, 2022

خالد بارہ بنکوی

یوم پیدائش 10 دسمبر 1970

نظر بے باک ہے سارے بدن پر دست کاری ہے 
یہی معیار ہے تیرا کہ یہ غفلت شعاری ہے

تری تصویر شاید اس لئے کچھ اور پیاری ہے 
یہ میری کیمرہ تمثال آنکھوں نے اتاری ہے 

وہ اب بھی ہے جو ہم میں فاصلہ تھا ایک کروٹ کا
ہم اپنے ضبط سے ہارے وہ اپنی ضد سے ہاری ہے 

میں شیشہ ہوں یہ شیشہ گر مرے ٹکڑوں سے پلتے ہیں
مری عادت نہیں ہے ٹوٹ جانا ذمے داری ہے 

اسے پانا نہیں اسکی بھلائی چاہتے ہیں ہم 
کوئی سمجھے محبت ہم نے ہاری ہے تو ہاری 

سمندر دھوپ صحرا اور تم سب ایک جیسے ہو
کسی سے کوئی ہمدردی نہ کوئی غمگساری ہے 

خالد بارہ بنکوی



شبانہ زیدی شبین

یوم پیدائش 10 دسمبر 

اب کے موسم میں کوئی خواب سجایا ہی نہیں 
زرد پتوں کو ہواؤں نے گرایا ہی نہیں 

دیکھ کر جس کو ٹھہر جائیں مسافر کے قدم 
ایسا منظر تو کوئی راہ میں آیا ہی نہیں 

کیوں ترے واسطے اس دل میں جگہ ہے ورنہ 
کوئی چہرہ مری آنکھوں میں سمایا ہی نہیں 

اس نے بھی مانگ لیا آج محبت کا ثبوت 
ایک لمحے کے لیے جس کو بھلایا ہی نہیں

جس کی خوشبو سے مہکتے مرے گھر کے در و بام 
وقت نے رنگ کوئی ایسا دکھایا ہی نہیں 

روشنی اپنے مقدر میں کہاں ہوگی شبینؔ 
جب دیا ہم نے اندھیروں میں جلایا ہی نہیں

شبانہ زیدی شبین



ماجد علی احرار

یوم پیدائش 09 دسمبر 1997

عشق کا جادو چلا ہے مجھ پہ کوئی دم کرے 
ہے یہاں ایسی دوا جو اس مرض کو کم کرے

مسکراؤں جس طرح میں ، مسکرائے اُس طرح
جس طرح میں غم کروں یا اس طرح سے غم کرے

راز دل جتنے چھپائے ہیں کہے تو کھول دوں
سننے والا یار پہلے اپنی آنکھیں نم کرے

اِس نگر کا یار میں بھی رہنے والا ہوں یہاں 
لوگ باتیں تو زیادہ کام لیکن کم کرے

 ماجد علی احرار



وفا سکندر پوری

یوم پیدائش 09 دسمبر 1943


کچھ اس طرح ہمارا تعاقب کیا گیا

ڈرنے لگے ہیں اپنے ہی قدموں کی چاپ سے


وفا سکندر پوری




نادر قادری

یوم پیدائش 09 دسمبر 1940

گود میں ذرات کی سر اپنا رکھ کر سو گیا 
پیاس کی دہلیز پر دریا کا منظر سو گیا

کچھ نظر آتا نہیں آئینۂ ایام میں 
عکس حیرت جاگ اٹھا خوابوں کا پیکر سو گیا
 
درد کو درماں بنانے کا ہنر رکھتا تھا وہ 
اوڑھ کر جو وقت کی خوش رنگ چادر سو گیا 

ہم ہی غم خوار تمنا تھے نہ سوئے صبح تک 
جب در و دیوار کو نیند آ گئی گھر سو گیا 

خاک اڑتی ہے سر صحن تمنا چار سو 
دیدنی جو کچھ بھی تھا منظر بہ منظر سو گیا 

عہد نو نے تابش حسن رفاقت چھین لی 
قریۂ جاں میں محبت کا سمندر سو گیا 

موسم سفاک نے وہ صبح روشن کی ہے نازؔ 
قطرۂ شبنم سر شاخ گل تر سو گیا

نادر قادری



عمران رشید یاور

یوم پیدائش 08 دسمبر 1979

ذکر اب اُس کا کہیں آئے میں چپ رہتا ہوں 
دل سے نکلے بھی اگر ہائے، میں چپ رہتا ہوں 

ساتھ گزرے ہوئے لمحوں کا بھرم رکھتا ہوں 
کوئی الزام بھی لگ جائے میں چپ رہتا ہوں 

میں سخن ور ہوں مجھے بات کا فن آتا ہے
ہر جگہ دیتا نہیں رائے میں چپ رہتا ہوں

آ ہی جاتی ہیں تعلق میں دڑاریں لیکن 
جب تلک زخم نہ بھر جائے میں چپ رہتا ہوں

اب مجھے اُس سے شکایت ہے نہ امیدِ وفا
اب وہ جتنے بھی ستم ڈھائے میں چپ رہتا ہوں

وہ سمجھتا ہے مجھے اپنی اناؤں کا اسیر
کوئی جا کر اُسے سمجھائے میں چپ رہتا ہوں

اُس کے جانے کی اذیت کا اثر ہے یاور
جب تلک جاں پہ نہ بن آئے میں چپ رہتا ہوں

عمران رشید یاور



شکیل عادل

یوم پیدائش 08دسمبر 

سارے غم  دوسری طرح کے ہیں 
اور ہم دوسری طرح کے ہیں 

جب بھی لکھیں گے سچ ہی لکھیں گے 
یہ قلم دوسری طرح کے ہیں 

کیا ہو نقشِ قدم سے اندازہ 
وہ قدم دوسری طرح کے ہیں 

وہ کرم دوسری طرح کے تھے 
یہ کرم دوسری طرح کے ہیں 

جتنے بھی لوگ ہیں میرے اطراف 
بیش و کم دوسری طرح کے ہیں 

محترم آپ ہیں بہت لیکن 
محترم دوسری طرح کے ہیں 

سب کو بکھرے ہوئے دکھائی دئیے 
ہم  بہم  دوسری طرح کے ہیں 

اس محبت کی راہ میں عادل 
پیچ و خم دوسری طرح کے ہیں

شکیل عادل


 

بلال صابر

یوم پیدائش 08 دسمبر 1995

مسئلے حل نہیں ہوئے میرے
تم مکمل نہیں ہوئے میرے

جن پلوں کے لیے وہ میرا تھا
بس وہی پل نہیں ہوئے میرے

کیا کروں گا میں کل بھی دنیا میں؟
تم اگر کل نہیں ہوئے میرے

میرے عاقِل تو غیر تھے لیکن
میرے پاگل، نہیں ہوئے میرے

چند آنکھیں مِری ہوئیں لیکن
ان کے کاجل نہیں ہوئے میرے

ان گنت باغ میرے ہیں پھر بھی
پھول اور پھل نہیں ہوئے میرے

روز اول بھی وہ بدن چھو کر
ہاتھ کیوں شَل نہیں ہوئے میرے

لفظ چندن کے جیسے بھی رکھ کر
شعر صندل نہیں ہوئے میرے

تُو بتا تیرے یار، تیرے ہیں؟
ٹھیک ہے چل نہیں ہوئے میرے

بلال صابر


شعبان بخاری

یوم پیدائش 08 دسمبر 1999

اس طرح دل میں کوئی جلوہ نشیں ہوتا ہے 
جیسے آئینے میں اک عکسِ حسیں ہوتا ہے 

ہم کو انجامِ محبت سے ڈرانے والو !
فکرِ انجام محبت میں کہیں ہوتا ہے ؟ 

اب ترے عشق میں حالت ہے یہ میرے دل کی
 تیری قربت کا بھی احساس نہیں ہوتا ہے 

رفعتِ بامِ ثریا پہ پہچنے والو !! 
آخرش ! آدمی پیوندِ زمیں ہوتا ہے ! 
 
عمر کے ساتھ نہیں عشق و محبت مشروط 
عشق جس عمر میں ہوتا ہے حسیں ہوتا ہے 

عشق اس سجدے کا قائل ہی نہیں ہے شعبان 
ایسا سجدہ کہ جو مرہونِ جبیں ہوتا ہے 

شعبان بخاری


 

ارم زہرا

یوم پیدائش 08 دسمبر 

میں لاجواب ہوں تجھے جواب سے نکال کر
میں بے حساب ہوں تجھے حساب سے نکال کر

ابھی تو رات بھر ہوں اپنی نیند کے خمار میں
ہے خواب پورا پھر کسی کو خواب سے نکال کر

مرے گلے میں جاکے جو فساد کا سبب بنے
وہ ہڈی پھینک آئی ہوں کباب سے نکال کر

جو میرے ہونٹ کی طرح کسی کی منتظر نہ تھی
میں لائی ہوں وہ پنکھڑی گلاب سے نکال کر

کسی کے انتظار میں تھی رات دن صلیب پر
میں خوش ہوں اپنے آپ کو عذاب سے نکال کر

 ارم الجھ کے رہ گئی تھی زندگی کے باب میں
 کتاب پوری ہے تجھے نصاب سے نکال کر
 
ارم زہرا



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...