Urdu Deccan

Sunday, December 25, 2022

ثمینہ گل

یوم پیدائش 25 دسمبر 1965

کھینچتا ہے کون آخر دائرے در دائرے 
دائرے ہی دائرے ہیں دائروں پر دائرے 

پانیوں کی کوکھ سے بھی پھوٹتا ہے دائرہ 
دیر تک پھر گھومتے رہتے ہیں اکثر دائرے 

اس کتاب زیست کے بھی آخری صفحے تلک 
کھینچ ڈالے قوس نے بھی زندگی پر دائرے 

جانے کیا کیا گھومتا ہے گرد کی آغوش میں 
جھانکتے ہیں آسمانوں سے سراسر دائرے 

آنکھ میں بھی دائرہ ہے دائرے میں دائرہ 
زندگانی دیکھتی ہے کیا برابر دائرے 

ثمینہ گل 


 

احمد علی برقی اعظمی

یوم پیدائش 25 دسمبر 1954

نہ آئے کام کسی کے جو زندگی کیا ہے
بشر نواز نہ ہو جو وہ آدمی کیا ہے

زمانہ ساز ہیں جو وہ ہیں مصلحت اندیش
جو ہو خلوص سے عاری وہ دوستی کیا ہے

پس از وفات نہ لیں جس کا نام اس کے عزیز
تونگری ہے اگر یہ تو مفلسی کیا ہے

کرو نہ دست درازی خدا کے بندوں پر
ہے نام اس کا شجاعت تو بزدلی کیا ہے

حقیقی دوستی وہ ہے ہو جس میں جوش و خروش
نشاط روح نہ ہو جس میں خوش دلی کیا ہے

عزیز تر ہیں مجھے خود سے بھی حسن چشتی
بتاؤں آپ کو کیا بندہ پروری کیا ہے

نہ ہو جو قاری و سامع پہ کچھ اثر انداز
فریب محض ہے برقیؔ وہ شاعری کیا ہے

احمد علی برقی اعظمی



رضوان لطیف خان

یوم پیدائش 25 دسمبر 1958

جب رنگِ عاجزی مرے تیور میں آگیا
میں کمترین سے صفِ برتر میں آگیا

دل وہ سپاہ گر ہے سرِ رزم گاہِ شوق
لشکر سے ہٹ گیا کبھی لشکر میں آگیا

دنیا کی ٹھوکروں سے تو بہتر یہی رہا
یعنی میں اپنے یار کی ٹھوکر میں آگیا

طیبہ میں حاضری کا بلاوا ملا مجھے
یہ خوش نصیب دن بھی مقدر میں آگیا

صحنِ حرم میں پہنچا تو ایسا لگا مجھے
جیسے کہ رحمتوں کے سمندر میں آگیا

فضلِ خدا سے رحمت و برکت کا سلسلہ
"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"

رضوان میری زیست کا عنواں بدل گیا
میں جب سے اُنؐ کے شہرِ منور میں آگیا

رضوان لطیف خان



محی الدین قادری زور

یوم پیدائش 25 دسمبر 1905

کیسے بے دردو بداندیش یہاں ہیں کچھ لوگ
جو سمجھتے نہیں پابند فغاں ہیں کچھ لوگ

پینے والے مئے و مینا پہ نظر رکھتے ہیں 
چشم ساقی کی طرف کیوں نگراں ہیں کچھ لوگ

ہم غریبوں پہ امیروں کی خدائی چلتی
باعث برہمی بزم بتاں ہیں کچھ لوگ

قافلے چل بھی پڑے لے کے شعور فروا
اور بھی مست مئے خواب گراں ہیں کچھ لوگ

طرح افسانہ و افسوں کی حقیقت معلوم
درپس کار گہ شیشہ گراں ہیں کچھ لوگ

ایک نگاہ غلط انداز سہی دیکھ تو لیں 
آپ کے چاہنے والوں میں یہاں ہیں کچھ لوگ

زندہ زندہ دلی، ذوق طلب، شوق عمل
عہد پیری میں بھی اے زورؔ جواں ہیں کچھ لوگ

محی الدین قادری زور



 

‏ فیصل فارانی

یوم پیدائش 25 دسمبر 

جو آئنے میں نظر آئے ، ہُوبہُو تُو ہے
‏یہ اپنے سامنے مَیں ہوں کہ رُوبرُو توُ ہے

‏چمن میں یاد کے مہکے جو چاندنی کی طرح
‏وہ میری رات کی رانی وہ مُشک بُو تُو ہے

‏تلاش اصْل میں اپنی ، تلاش اپنی نہیں
‏کہ خوار مُجھ کو جو رکھّے وہ جُستجُو تُو ہے

جو تیرے در سے اُٹھوں بھی تو اُٹھ کے جاؤں کہاں 
‏جبِیں جُھکی رہے جس میں وہ آرزو تُو ہے

‏یہ کس مقام پہ لایا ہے تیرا عِشق مُجھے
‏کہ مَیں کہِیں بھی نہیں اور کُو بہ کُو تُو ہے

‏یہ تیرا ہِجر ہے کیسا عجیب ہِجر کہ مَیں
‏اکیلا بیٹھا ہوں اور میرے رُوبرُو تُو ہے

‏ فیصل فارانی 


قمر گوالیار

یوم پیدائش 25 دسمبر 1938

انسان کو انساں سے کچھ کام نہیں ہوتا 
دنیا میں محبت کا جب نام نہیں ہوتا 

یہ کیسی حقیقت ہے اے دوست محبت میں 
آغاز تو ہوتا ہے انجام نہیں ہوتا 

تم سے تو نہ کچھ ہوگا اے چارہ گرو جاؤ 
بیمار محبت کو آرام نہیں ہوتا 

یہ منزل آخر ہے آ جاؤ عیادت کو 
آ جانے سے ایسے میں الزام نہیں ہوتا 

لازم ہے سمجھ لینا نظروں کی زباں صاحب 
لفظوں سے محبت میں کچھ کام نہیں ہوتا 

بڑھتے ہوئے دھارے ہوں برپا ہو قمرؔ طوفاں 
ہمت سے جو بڑھ جائے ناکام نہیں ہوتا 

قمر گوالیار



کلیم ساکن

یوم پیدائش 24 دسمبر 1990

ہے سب کو یہاں پر ملا تیرے صدقے 
کہ زندہ ہے ہر اک گدا تیرے صدقے 

ہمیں کب خبر تھی کہ مالک ہے کوئی 
عیاں ہو گیا ہے خدا تیرے صدقے 

علؓی ہیں حسؓن ہیں حسینی ہے عالَم 
ہے پنجتن گھرانہ سجا تیرے صدقے 

محبت کروں میں تو بڑھتا ہے رتبہ 
کہ قرنی صحابی ہوا تیرے صدقے 

کہوں گا محمّد محمّد ہی ہر دم 
ہے اندر کا گلشن ہرا تیرے صدقے 

نہ ساکن کی کوئی بھی سنتا تھا لیکن 
خدا تک گئی ہے صدا تیرے صدقے 

کلیم ساکن 





مراق مرزا

یوم پیدائش 24 دسمبر 1962

مشکل تری اڑان ہے سورج نظر میں رکھ 
تاریک آسمان ہے سورج نظر میں رکھ 

جانا ہے روشنی کی طرف لوٹ کر تجھے 
دو پل کا یہ جہان ہے سورج نظر میں رکھ 

بے رنگ اس کے پھول ہیں بے نور ہر شجر 
جنگل یہ گلستان ہے سورج نظر میں رکھ 

یہ ارض بے ثبات ہے ہر موڑ پر یہاں 
ظلمت کا ارسلان ہے سورج نظر میں رکھ 

ہر رہ گزر میں ظلم و ستم کا ہی راج ہے 
یہ شہر بے امان ہے سورج نظر میں رکھ 

دنیا پل صراط سے کچھ کم نہیں مراقؔ 
ہر پل اک امتحان ہے سورج نظر میں رکھ

مراق مرزا



تبسم فیضی

یوم پیدائش 23 دسمبر 2000

کچھ اصولوں سے بغاوت نہیں کی
دل بہت چاہا محبت نہیں کی

عیش و عشرت میں گزارے گئے دن
سو کسی لڑکی کی چاہت نہیں کی

اہل ہو کوئی نہ ہو ہم کو کیا
حد سے بڑ کر کبھی الفت نہیں کی

دوستی اپنی علم والوں سے
صنف نازک کی اطاعت نہیں کی

چاند تارے کہاں اپنے بس میں
ان کو چھونے کی حماقت نہیں کی

لاکھ درجے وہ حسیں ہوگی مگر
عشق کی فیضی نے حسرت نہیں کی
 
تبسم فیضی



حماد زیف

یوم پیدائش 23 دسمبر 

کچھ دیر اور روکا گیا گر بیان سے
میں بد زباں چھلکنے لگوں گا زبان سے

میں کس لیے لڑائی کروں آسمان سے
جب کائنات چلتی ہے میرے گمان سے

منظر بدل دیا ہے کسی خوش خصال نے
دل پھینکنے لگے ہیں سپاہی کمان سے

یہ انہدام پہلا قدم ہے نمود کا
پر کاٹنے لگا ہوں رگڑ کر چٹان سے

ممکن ہے خواہشوں کا گلا گھونٹنا پڑے
کچھ خواب سر اٹھا رہے ہیں خواب دان سے

 چلمن کی تیلیوں سے سرکتے ہوئے وجود
حماد دیکھ پھول نکلتے، مچان سے

حماد زیف


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...