Urdu Deccan

Sunday, December 25, 2022

آرزو سہارنپوری

یوم وفات 25 دسمبر 1983

کس قیامت کا ہے بازار ترے کوچے میں
بکنے آتے ہیں خریدار ترے کوچے میں

تو وہ عیسیٰ ہے کہ اے نبض شناس کونین
ابن مریم بھی ہے بیمار ترے کوچے میں

اذن دیدار تو ہے عام مگر کیا کہیے
چشم بینا بھی ہے بے کار ترے کوچے میں

جس نے دیکھا ہو نظر بھر کے ترا حسن تمام
کوئی ایسا بھی ہے اے یار ترے کوچے میں

آرزوؔ سا کبھی دیکھا ہے کوئی کافر عشق
یوں تو ہیں سینکڑوں دیں دار ترے کوچے میں

آرزو سہارنپوری


 

فیروز اختر

یوم پیدائش 25 دسمبر 1958

جمود ٹوٹے یہاں کوئی انتشار تو ہو
برس بھی جائے کہ موسم کا اعتبار تو ہو

فیروز اختر



سید اعجاز احمد رضوی

یوم پیدائش 25 دسمبر 1950

جو ہونا ہے وہی ہوتا رہے گا 
کبھی ہنستا کبھی روتا رہے گا 

بچا کوئی مکافات عمل سے 
وہی کاٹے گا جو بوتا رہے گا 

کچھ اپنا ہی بگاڑے گا اگر تو 
بھرم اپنا میاں کھوتا رہے گا 

ترے اعدا نکل جائیں گے آگے 
اگر تو رات دن سوتا رہے گا 

تو اپنا بار عصیاں کم سے کم کر 
کہاں تک بوجھ یہ ڈھوتا رہے گا 

کوئی حد بھی ہے آخر آنسوؤں سے 
کہاں تک اپنا منہ دھوتا رہے گا 

کہیں تدبیر سے ٹلتا ہے رضویؔ 
لکھا تقدیر کا ہوتا رہے گا 

سید اعجاز احمد رضوی



فرزانہ فرحت

یوم پیدائش 25 دسمبر 

اشکوں میں ڈھلا پر یہ زباں تک نہیں آیا
 ورنہ تو یہ طوفان کہاں تک نہیں آیا
 
دنیا نے بہت کچھ ہے لکھا اہلِ جنوں پر
لیکن کوئی الزام یہاں تک نہیں آیا

جب تیرا عدو تیرے نشا نے پہ کھڑا تھا
اچھا ہے ترا تیر کماں تک نہیں آیا

وہ عشق کی آتش تھی کہ جلتا رہا یہ جسم
شعلوں کا دھواں دل کے مکاں تک نہیں آیا

وہ میرے تعاقب میں تو آتا رہا برسوں
میں آج جہاں ہوں وہ وہاں تک نہیں آیا

رکھتا ہے مرے دل کے خرابوں کو جو آباد
نام اس کا کبھی میری زباں تک نہیں آیا

دل میں مرے کچھ وہم بھی آتے رہے فرحت 
پر اس سے بچھڑنے کا گماں تک نہیں آیا

فرزانہ فرحت


 

صوفیہ بیدار

یوم پیدائش 25 دسمبر 1964

اک درد کہن آنکھ سے دھویا نہیں جاتا 
جب رنج زیادہ ہو تو رویا نہیں جاتا 

مٹ جانے کی خواہش کو مٹایا نہیں کرتے 
کھو دینے کے ارمان کو کھویا نہیں جاتا 

جلتے ہوئے کھلیان میں اگتی نہیں فصلیں 
خوابوں کو کبھی آگ میں بویا نہیں جاتا 

جب حد سے گزرتے ہیں تو غم غم نہیں رہتے 
اور ایسی زبوں حالی میں رویا نہیں جاتا 

تحریر میں بنتی نہیں جو بات ہے دل میں 
کیا درد ہے شعروں میں سمویا نہیں جاتا 

سلگی ہیں مری آنکھ میں اک عمر کی نیندیں 
آنگن میں لگے آگ تو سویا نہیں جاتا 

یوں چھو کے در دل کو پلٹ آتا ہے واپس 
اک وہم محبت کا کہ گویا نہیں جاتا 

اب صوفیہؔ اس طرح سے دل پہ نہیں بنتی 
اب اشکوں سے آنچل کو بھگویا نہیں جاتا 

صوفیہ بیدار



شہزاد اظہر

یوم پیدائش 25 دسمبر 1972

کہاں کا ہوں مجھے اپنے اب وجد کی خبر کیا
معلق آئینہ ہوں قامت و قد کی خبر کیا

معانی ہیکلِ مستور ہے لیکن کہاں ہے
کسی کو ان کہے لفظوں کے معبد کی خبر کیا

زمانہ دل کے سائے میں پڑا سستا رہا ہے
گیانی کو ملی گوتم سے برگد کی خبر کیا 

کجی کوئی بیانِ روز و شب میں آ گئی تھی
پہنچ پائی نہیں حرفِ قلمزد کی خبر کیا

ہوا کی مٹھیوں میں ہوں ابد آباد تک میں
پرِکاهِ سخن ہوں مجھ کو مرقد کی خبر کیا

شہزاد اظہر


 

مصطفے غزالی

یوم پیدائش 25 دسمبر 

خدا نے ہرکسی کو اک نیا اندازبخشا ہے
کسی کو سوز بخشا ہے،کسی کو سازبخشا ہے

عطا کرکے کسی کو رنگ و رونق ، دلکشی ، شوخی
جمال و حسن کا بے مثل اک اعجاز بخشا ہے 

ترنم سے نوازا ہے کسی کو ربِ اکبرنے
کسی کو ماہرِ فن خوشنما شہباز بخشا ہے

گلوں کو رنگ و بو سے کس قدر شاداب رکھتا ہے
پرندوں کو عجب بال و پر پرواز بخشا ہے

فرشتوں کو ادائے بندگی سکھلائی ہے رب نے
مگر حوروں کو اس نے صورتِ شہنازبخشا ہے

رضائے رب جسے چاہے عطا کر دے نیا منصب
اسی نے ہر کسی کو ذلت و اعزاز بخشا ہے

وفا کا رنگ دنیا میں دیا عشّاق کو جس نے 
حسینوں کو اسی نے دلبری کا ناز بخشا ہے

کسی کو بے سہارا وہ کبھی کرتا نہیں ہرگز
ضرورت مند کو اس نے سدا دمساز بخشا ہے 

وہی محفوظ رکھتا ہے چُبھن سے خار کی لیکن
جِسے گُل کی تمنا ہے اُسے گُلناز بخشا ہے 

ادا کیسے کروں میں شکر اپنے ربِ اعظم کا
مجھےجس نے بہت اعلیٰ ،حسیں ہمرازبخشا ہے

زمانے کی نزاکت کو بھلا مجھے نہیں کیسے
دلِ شاعر کو قدرت نے شعورِ راز بخشا ہے

خدا چاہےگا تو پھر خوب تر انجام بھی ہوگا
مجھے ذوقِ سخن کا اس نے جب آغازبخشا ہے

کروں کیسے بیاں رب کی عطا کردہ نوازش کا
اسی نے فن میں خود منصب مجھے ممتاز بخشا ہے

خیالی دیوتاؤں پر کسی کو فخر ہے تو کیا ؟
غزالی کو محمد مصطفےٰﷺ پر ناز بخشا ہے

مصطفے غزالی



عبد القیوم افسر انصاری

یوم پیدائش 25 دسمبر 1977

توفیق اگر ہوگی چاہت کی دعا دینا
آساں ہے بہت ورنہ شعلوں کو ہوا دینا

اب لوگ کہاں جانیں تاثیر محبت کی
لوگوں کو تو آتا ہے الزام لگا دینا

لہروں سے بھی آئیں گی تحسین کی آوازیں
کاغذ مری غزلوں کا دریا میں بہا دینا

اب میری نگاہوں میں یہ کام عبادت ہے
گرتے کو اٹھا دینا، روتے کو ہنسا دینا

محفل کی اداسی کا بس ایک مداوا ہے
جب کوئی نہیں ہوگا افسرؔ کو صدا دینا

عبد القیوم افسر انصاری



ممتاز راشد

یوم پیدائش 25 دسمبر 1944

رنگ الفاظ کا الفاظ سے گہرا چاہوں 
بات کرنے کے لیے اپنا ہی لہجہ چاہوں 

ہے تھکن ایسی مرا پار اترنا ہے محال 
تشنگی وہ ہے کہ بہتا ہوا دریا چاہوں 

کم نظر ہے جو کرے تیری ستائش محدود 
تو وہ شہکار ہے میں جس کو سراپا چاہوں 

تجھ پہ روشن مرے حالات کی زنجیریں ہیں 
روک لینا جو کبھی تجھ سے بچھڑنا چاہوں 

مفلسی لاکھ سہی دولت نایاب ہے یہ 
میں ترے غم کے عوض کیوں غم دنیا چاہوں 

غم ہے سناٹوں میں قدموں کے نشاں تک راشدؔ 
وہ اندھیرا ہے کہ دیواروں سے رستا چاہوں

ممتاز راشد


 

سید اظہر فرید

یوم پیدائش 25 دسمبر

ایک خواہش تھی کوئی خواب معطر جاگے
  میری بستی میں تو ہر لمحہ ستم گر جاگے

تم نے پایا ہے اسے گزرا حوالہ دے کر
 اب نہ آنکھوں میں تمہاری یہ تکبر جاگے

  کیا پتہ تم کو دعاؤں کا ثمر مل جائے
تم قدم ریت پہ رکھ دو تو سمندر جاگے

  موسمِ ہجر نے آنے کو کہا ہے اظہر
   کیا خبر رات اندھیری کا مقدر جاگے

 سید اظہر فرید



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...