Urdu Deccan

Tuesday, April 4, 2023

کلیم ضیاء

یوم پیدائش 04 مارچ 1956

قدم بڑھاتے ہی منزل دِکھانے لگتے ہیں
یہ راستے تو بڑے ہی سیانے لگتے ہیں

کسی غریب کے گھر میں اُگے اگر سورج
اندھیرے پورے محلّے پہ چھانے لگتے ہیں

ہَوا بھی رُخ کبھی اپنا جِدھر نہیں کرتی 
اُسی گلی کے مناظِر سُہانے لگتے ہیں

خزاں میں پیڑ پہ پتّے ذرا نہیں ٹِکتے
بہار آتے ہی رشتے نِبھانے لگتے ہیں

حِنا کا بوجھ اُٹھانے کی جِن میں تاب نہیں
وہ آسمان کو سَر پر اُٹھانے لگتے ہیں

کسی نظر سے اُترنے کو ایک پَل ہے بہت
نظر میں چَڑھنے کو لیکن زمانے لگتے ہیں

کلیم ضیاء


 

سرور ارمان

یوم پیدائش 04 مارچ 1953

روشنی سے تیرگی تعبیر کر دی جائے گی 
رنگ سے محروم ہر تصویر کر دی جائے گی
 
عدل کے معیار میں آ جائیں گی تبدیلیاں 
بے گناہی لائق تعزیر کر دی جائے گی 

ہر نظر کو آرزوؤں کا سمندر بخش کر 
ہر زباں پر تشنگی تحریر کر دی جائے گی 

دب کے رہ جائیں گے جذبوں کے اجالے ایک دن 
ظلمت افلاس عالمگیر کر دی جائے گی 

ہر کلائی ہر تمنا ہر حقیقت ہر وفا 
آشنائے حلقۂ زنجیر کر دی جائے گی 

بانجھ ہو کر رہ گیا جس وقت دھرتی کا بدن 
تب ہمارے نام یہ جاگیر کر دی جائے گی 

دفن کر کے اس کی بنیادوں میں انسانوں کے سر 
اک مہذب شہر کی تعمیر کر دی جائے گی

سرور ارمان


 

رشیدہ عیان

یوم پیدائش 04 مارچ 1932

مرے قلم کا اگر سر کبھی قلم ہوگا 
نیا فسانۂ درد و الم رقم ہوگا 

یہ مانتی ہوں مٹا دے گا میرا دور مجھے 
نئے زمانے کا اس خاک سے جنم ہوگا 

میں اپنے آپ کی پہچان بھول بیٹھی ہوں 
اب اس سے اور بڑا کیا کوئی ستم ہوگا 

نہ جانے کیوں مجھے سچ بولنے کی عادت ہے 
یہ جان کر کہ ہر اک گام سر قلم ہوگا 

چلو اٹھاتے ہیں ایوان وقت کا ملبہ 
اسی میں دفن مری ذات کا صنم ہوگا 

فلک نے موند لیں آنکھیں زمیں نے روکی سانس 
عیاںؔ کا آج نئی راہ پر قدم ہوگا

رشیدہ عیان



عقیل الرحمن وقار

یوم پیدائش 03 مارچ 1960

ہم بنے تھے تباہ ہونے کو
آپ کا عشق تو بہانا تھا!

عقیل الرحمن وقار


 

وفا سکندر پوری

یوم پیدائش 03 مارچ 1945

نظر سے کہہ دو نہ سونپے زباں کو اپنی بات
نگاہ ِ عام میں ہوگی نہیں یہ اچھی بات

 وہ ایک بات جو ہم دونوں کر گئے محسوس 
زمانہ اس کو سمجھتا ہے بے تکی سی بات

فسانہ وقت کا سنتا ہے آدمی لیکن
سنے نہ وقت کبھی رُک کے ، آدمی کی بات

گو اچھی بات ہے آہستہ بولیے پھر بھی
کہیں پڑوس میں پھیلے نہ الٹی سیدھی بات

خلوص ، جذبہ ء ایشار ، اتحاد ، وفاؔ
 مرے شعور میں آئی ہے کس صدی کی بات
 
وفا سکندر پوری



ابوالمجاب راؤ لیاقت علی آزاد

یوم پیدائش 03 مارچ 1953

محنت بغیر کچھ بھی کسی کو ملا نہیں 
ہمت ہے گر بلند تو کچھ بھی چُھپا نہیں

ٰعلم و ہنر کو اپنی پسِ پُشت ڈال کر
روتے ہیں پھر نصیب کو اس میں لکھا نہیں

دنیا میں گرنا گر کے سنبھلنا تو عام ہے 
پر جس طرح سے ہم گرے کوئی گرا نہیں 

جو چین ڈھونڈتے ہیں شراب و شباب میں 
انکو کبھی سکون کا رستہ ملا نہیں 

وہ جو کہ امتی ہیں سراجٙٙ منیر کے
افسوس ان کے ہاتھ میں کوئی دِیا نہیں 

 ابوالمجاب راؤ لیاقت علی

آزاد

افتخار حیدر

یوم پیدائش 03 مارچ 1973

مستیاں بھی ہیں حادثات بھی ہیں 
اور محبت میں معجزات بھی ہیں 

دل سے دل کا معاملہ ہی نہیں 
کچھ ہوس کے معاملات بھی ہیں 

گھومتے بھی ہیں کائنات کے گرد 
وجہِ تخلیقِ کائنات بھی ہیں 

ہجر موسم میں تیرگی ہی نہیں 
تھوڑی تھوڑی تجّلیات بھی ہیں 

خونِ دل سےسنوارتے ہیں سخن 
اور منّت کشِ دوات بھی ہیں 

شاعری مسئلہ تو ہے لیکن 
کچھ محبت کے واجبات بھی ہیں

افتخار حیدر



طرفہ قریشی

یوم پیدائش 03 مارچ 1913

نگاہیں نیچی رکھتے ہیں بلندی کے نشاں والے 
اٹھا کر سر نہیں چلتے زمیں پر آسماں والے

تقید حبس کا آزادیاں دل کی نہیں کھوتا 
قفس کو بھی بنا لیتے ہیں گلشن آشیاں والے

نہیں ہے رہبریٔ منزل عرفان دل آساں 
بھٹک جاتے ہیں اکثر راستے سے کارواں والے

زمیں کی انکساری بھی بڑا اعجاز رکھتی ہے 
جبیں سا ہو گئے خشکی پہ بحر بیکراں والے

کسی دن گرم بازار عقیدت ہو تو جانے دو 
لگائیں گے مرے سجدوں کی قیمت آسماں والے

اجل کہتے ہیں جس کو نام ہے کمزور ہی دل کا 
اسے خاطر میں کیوں لائیں حیات جاوداں والے

ہمیں طرفہؔ کی لے سے کیوں نہ ہو عرفان دل حاصل 
سبک نغمے سناتے ہی نہیں ساز گراں والے

طرفہ قریشی



احمد حسین مجاہد

یوم پیدائش 02 مارچ 1961

ہوں کہ جب تک ہے کسی نے معتبر رکھا ہوا
ورنہ وہ ہے باندھ کر رخت ِ سفر رکھا ہوا

مجھ کو میرے سب شہیدوں کے تقدس کی قسم
ایک طعنہ ہے مجھے شانوں پہ سر رکھا ہوا

اک نئی منزل کی دھن میں دفعتاً سرکا لیا
اس نے اپنا پاؤں میرے پاؤں پر رکھا ہوا

میرے بوجھل پاؤں گھنگھرو باندھ کر ہلکے ہوئے
سوچنے سے کیا نکلتا دل میں ڈر رکھا ہوا

تو ہی دنیا کو سمجھ پروردہ ء دنیا ہے تو
میں یونہی اچھا ہوں سب سے بے خبر رکھا ہوا

احمد حسین مجاہد





شائستہ مہہ جبین

یوم پیدائش 02 مارچ

تم نے ہی تو گرائی تھیں مجھ پر یہ بجلیاں 
دینے کو آ رہی ہو مجھے کیوں تسلیاں 

سونے سی تھی کھری میں چمک برقرار تھی 
پھر کیوں ہزار بار لیں میری تلاشیاں 

نکلے جو آشیاں کو گرانے کبھی مرے 
گرنے لگی ہے آج انہیں پر یہ بجلیاں 

سلجھایا جتنا اتنی ہی الجھی یہ زندگی 
اس زندگی کی حل نہیں ہوتی پہیلیاں 

شائستگی محبتیں الفت وفا حیا 
رکھی ہے میرے پاس تری سب نشانیاں 

کرتا نہیں ہے کوئی محبت یہاں ہمیں 
آتی ہے روز روز ہمیں کیوں یہ ہچکیاں 

شائستہؔ یاد تجھ کو کرے کب تلک بتا 
اب چاہیے مجھے تری یادوں سے چھٹیاں

شائستہ مہہ جبین


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...