Urdu Deccan

Tuesday, April 11, 2023

پروین صباء

یوم پیدائش 25 مارچ 1969

اپنی ہی راہ پہ ہر حال میں چلتے رہنا
وقت کے ساتھ نہ رفتار بدلتے رہنا

میری رسوائی کا باعث نہ کہیں بن جائے
رات بھر شمع کی مانند پگھلتے رہنا

عشق کی راہ میں شعلوں کے سوا کچھ بھی نہیں
پاؤں جل جائیں مگر آگ پہ چلتے رہنا

دو قدم بھی کوئی ہمراہ نہ چل پائے گا
میری قسمت میں ہے گر گر کے سنبھلتے رہنا

تجھ کو خوش آگئی دنیا ، ہے نصیبہ تیرا
ورنہ سورج کی بھی قسمت میں ہے ڈھلتے رہنا

کس قدر فرصتیں ہیں ، مجھ کو تو حیرت ہے صبا
کام ہے لوگوں کا بس زہر اگلتے رہنا

پروین صباء


 

آرتی کماری

یوم پیدائش 25 مارچ 1977

تری یاد میں جو گزارا گیا ہے 
وہی وقت اچھا ہمارا گیا ہے 

بھلا اور کیا اپنا پن وہ دکھائے 
ترا نام لے کر پکارا گیا ہے 

تمہیں میری حالت پتہ کیا چلے گی 
مرا جو گیا کب تمہارا گیا ہے 

عجب ہے محبت کا میدان یارو 
نہ جیتا گیا ہے نہ ہارا گیا ہے 

لکھا ریت پر نام میں نے تمہارا 
ندی میں بھی چہرہ نہارا گیا ہے 

ہے میری بھی عادت تمہارے ہی جیسی 
ہر اک رنگ مجھ پہ تمہارا گیا ہے 

آرتی کماری


 

ظہور بیگ حامی

یوم پیدائش 24 مارچ 2000

سمجھ یہ آئے نہ ہر کسی کی
سزا ملے گی جو سرکشی کی

وہ غرق دریا ھوا ھے لیکن 
وہ بات کرتا ھے تشنگی کی

وفا کے مفہوم سے تو عاری 
زباں پہ باتیں ہیں عاشقی کی

وہ ماں کو گھر سے نکال بیٹھے
یہ اک کہانی ہے بے حسی کی

کبھی نہ بھاگا خوشی کے پیچھے
ہمیشہ غم کی ہی پیروی کی

ظہور بیگ حامی


 

ضمیر اختر نقوی

یوم پیدائش 24 مارچ 1940

مرے وجود نے یوں تو ضمیر کیا نہ دیا
انا کی آگ میں جلنے کا حوصلہ نہ دیا

شمار اپنا بھی ہوجاتا عشق والوں میں
پیالہ زہر کا ہم کو بھی کیوں پلا نہ دیا

کچل نہ پائے گا پھر بھی ہمارا جذبۂ دل
جو حسن نے ہمیں اعزازِ باوفا نہ دیا

ضمیر ایسی غزل کو تو دور ہی سے سلام
کہ جس نے فکر کو میدانِ ارتقا نہ دیا

ضمیر اختر نقوی


ڈاکٹر وسیم راشد

یوم پیدائش 23 مارچ

تیرا خیال میری انجمن میں رہتا ہے
عجیب پھول ہے تنہا چمن میں رہتاہے

میں اس سے دور بھی جاؤں تو کس طرح جاؤں
وہ عطر بن کے میرے پیرہن میں رہتا ہے

وہ اپنی روح کے زخموں کو کس طرح گنتا 
ہمیشہ الجھا ہوا وہ بدن میں رہتا ہے

تری تلاش میں تھک جاتے ہیں قدم لیکن
سکون قلب بھی شامل تھکن میں رہتا ہے

یہ بات سچ ہے نظریات جس کے چھوٹے ہوں
بڑے مکان میں بھی وہ گھٹن میں رہتا ہے

وسیم ہند کی مٹی میں کیسا جادو ہے 
کہیں بھی جاؤں مرا دل وطن میں رہتا ہے

ڈاکٹر وسیم راشد


پرویز رحمانی

یوم پیدائش 23 مارچ 1952

اندر باہر اوپر نیچے خواب ہی خواب 
دائیں بائیں آگے پیچھے خواب ہی خواب 

خوشبو شبنم رنگ کی دنیا ایک فریب 
غنچے گل بوٹے باغیچے خواب ہی خواب 

آنکھیں چہرے چاند ستارے رات ہی رات 
دروازے دیوار دریچے خواب ہی خواب 

حسرت ٹہنی ٹہنی نیند میں ڈوبی تھی 
بکھرے تھے پیڑوں کے پیچھے خواب ہی خواب
 
کاش کہ زندہ ہوتے احساسات سبھی 
دیکھا کرتے آنکھیں میچے خواب ہی خواب 

امیدیں مہدی کے تلوے چاٹ گئیں 
دکھلاتے کب تک غالیچے خواب ہی خواب 

خواہش خواہش جو چاہو چن لو پرویزؔ 
چھوڑ چلے ہم اپنے پیچھے خواب ہی خواب

پرویز رحمانی


 

ریحانہ شبیر

یوم پیدائش 23 مارچ 1972
نظم اک جوگی
اک جوگی ڈھونڈ رہی ہوں میں
جو زہر نکالے سانپوں کا
ہر جانب پھن پھیلائے ہوئے
ہیں ڈھیروں کالے ناگ یہاں
کچھ ہوس زدہ، کچھ حرص زدہ
کچھ اس دھرتی کی مایا پہ
پھن کو پھیلائے بیٹھے ہیں
کچھ استحصال کے کنڈل میں
سب کو لپٹائے بیٹھے ہیں
کوئی ہمت والا جوگی ہو
نہ زر کا کوئی روگی ہو
اک جوگی ڈھونڈ رہی ہوں میں
جو زہر نکالے سانپوں کا
ہے لفظوں میں تاثیر بہت
اور لفظوں میں تریاق بھی ہے
ان لفظوں سے انساں بدلے
ان لفظوں سے قومیں بدلیں
یہ طاقت ور کو زیر کریں
اور بزدل کو بھی شیر کریں
الفاظ میں ایسی خوبی ہے
الفاظ میں ایسی طاقت ہے
اے میرے دیس کے سخن ورو!
اپنے الفاظ کی لاٹھی سے
کچلو سر کالے ناگوں کے
اور استحصال کی کنڈل کو
کھولو الفاظ کی قوت سے
مزدور کی ہمت بن جاؤ
مظلوم کی طاقت بن جاؤ
تم سب کے سب ہی جوگی ہو
اب بین بجاؤ لفظوں کی
اور زہر نکالو سانپوں کا

ریحانہ شبیر

 

غلام مرتضی راہی

یوم پیدائش 23 مارچ 1937

نایاب چیز کون سی بازار میں نہیں
لیکن میں ان کے چند خریدار میں نہیں

چھو کر بلندیوں کو پلٹنا ہے اب مجھے
کھانے کو میرے گھاس بھی کہسار میں نہیں

آتا تھا جس کو دیکھ کے تصویر کا خیال
اب تو وہ کیل بھی مری دیوار میں نہیں

عرفان و آگہی کی یہ ہم کس ہوا میں ہیں
جنبش تک اس کے پردۂ اسرار میں نہیں

اگلا سا مجھ میں شوق شہادت نہیں اگر
پہلی سی کاٹ بھی تری تلوار میں نہیں

غلام مرتضی راہی



ڈاکٹر مختار شممیم

یوم پیدائش 23 مارچ 1944

صبح رنگین و جواں شام سہانی مانگے 
دل بیتاب کہ تیری ہی کہانی مانگے 

کوئی دیکھے یہ مرا عالم‌ جولانی طبع 
جس طرح آب رواں آپ روانی مانگے 

خوگر عیش نہیں فطرت شوریدہ‌ سراں 
غم و اندوہ طلب سوز نہانی مانگے 

دشت غربت میں ان آنکھوں کی نمی یاد آئے 
تشنہ لب جیسے کوئی صحرا سے پانی مانگے 

شومیٔ زیست کہ یہ آج زلیخا کی طرح 
کاسۂ عمر میں لمحات جوانی مانگے 

اپنے خوابوں پہ ہے شرمندہ شب غم دیدہ 
صبح معصوم اسی شب کی کہانی مانگے 

غنچۂ شوق شمیمؔ آج کھلا ہے شاید 
دل وحشت زدہ خوننابہ نشانی مانگے

 ڈاکٹر مختار شممیم





فیاض حسین شاہ

یوم پیدائش 22 مارچ

ایسا نہیں کہ حیلے بہانے بناؤں گا
کشتی نہ بن سکی تو میں تنکے بناؤں گا

اک روز میں بناؤں گا دونوں جہاں میں ربط
اور موت کے علاوہ بھی رستے بناؤں گا

یہ دیکھ میرے ہاتھوں کی پامال انگلیاں
پردیس آ کے سوچا تھا پیسے بناؤں گا

اک تیری کائنات ہے اک میری کائنات
گر ہوسکا تو ان میں دریچے بناؤں گا

اک روز میں بناؤں گا کاغذ کی تتلیاں
اور سات آٹھ پھول بھی نیلے بناؤں گا

پہلے بناؤں گا کسی کاغذ پہ اپنی آنکھ
پھر اس میں تیرے خواب کے ریشے بناؤں گا

فیاض حسین شاہ


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...