جب کبھی چہرے سے وہ پردہ اٹھا دیتے ہیں
پھول بھی اپنی نگاہوں کو جھکا دیتے ہیں
ہم اگر سوئے ہیں تو خیر منا اپنی تُو
ہوش میں آتے ہیں تو حشر اٹھا دیتے ہیں
تم نے لوگوں سے سنا کاش کہ ہم سے سنتے !
لوگ توبات کا افسانہ بنا دیتے ہیں
بیقراری میں نہ جانے ہمیں کیا ہوتا ہے
رات بھر لکھتے ہیں خط صبح جلا دیتے ہیں
جانے والے تو بتا کر نہیں جاتے ہیں مگر
جاتے جاتے کچھ اشاروں میں بتا دیتے ہیں
جب بھی تنہائی کے موسم میں تڑپتے ہیں ہم
تیری تصویر کو سینے سے لگا دیتے ہیں
رنج و غم ہو کہ خوشی کا کوئی موسم اشؔہر
سارے موسم بخدا اپنا مزا دیتے ہیں
اشہر اشرف