Urdu Deccan

Thursday, February 11, 2021

ساحر ہوشیار پوری

 یوم پیدائش 10 فروری 1913


کون کہتا ہے محبت کی زباں ہوتی ہے

یہ حقیقت تو نگاہوں سے بیاں ہوتی ہے 


وہ نہ آئے تو ستاتی ہے خلش سی دل کو

وہ جو آئے تو خلش اور جواں ہوتی ہے 


روح کو شاد کرے دل کو جو پر نور کرے

ہر نظارے میں یہ تنویر کہاں ہوتی ہے 


ضبط سیلاب محبت کو کہاں تک روکے

دل میں جو بات ہو آنکھوں سے عیاں ہوتی ہے 


زندگی ایک سلگتی سی چتا ہے ساحرؔ

شعلہ بنتی ہے نہ یہ بجھ کے دھواں ہوتی ہے 


ساحر ہوشیار پوری


الطاف مشہدی

 یوم پیدائش 10 فروری 1914


آہ دنیا سرائے فانی ہے

کس قدر مختصر کہانی ہے


خود کو دیتا ہوں مسکرا کے فریب

دل مگر وقف نوحہ خوانی ہے


مجھ سے ہنس بول لیں مرے ساتھی

اب کوئی دن کی زندگانی ہے


موسم گل میں وہ جو آن ملیں

ہم بھی جانیں کہ رت سہانی ہے


بے سبب تو نہیں بہے آنسو

آنسو آنسو میں اک کہانی ہے


اک سراپا کہ رنج و یاس ہیں ہم

درد دل مونس جوانی ہے


مسکراؤں میں کس طرح الطافؔ

تاک میں دور آسمانی ہے


الطاف مشہدی


ضیا فتح آبادی

 یوم پیدائش 09 فروری 1913


فرشتے امتحان بندگی میں ہم سے کم نکلے

مگر اک جرم کی پاداش میں جنت سے ہم نکلے


غم‌ دنیا و دیں ان کو نہ فکر نیک و بد ان کو

محبت کرنے والے بے نیاز بیش و کم نکلے


غرض کعبہ سے تھی جن کو نہ تھا مطلب کلیسا سے

حد دیر و حرم سے بھی وہ آگے دو قدم نکلے


سحر کی منزل روشن پہ جا پہنچے وہ دیوانے

شب تاریک میں جو نور کا لے کر علم نکلے


مہ و خورشید بن کر آسمانوں پر ہوئے روشن

دو آنسو وہ مری آنکھوں سے جو شام الم نکلے


سکوت شب میں ہم نے ایک رنگیں خواب دیکھا تھا

مسرت جاوداں ہوگی اگر تعبیر غم نکلے


نہ ملتی ہوں شراب زندگی کی تلخیاں جن میں

سنا ہے وہ ضیاؔ کے دل سے ایسے شعر کم نکلے


ضیا فتح آبادی


سید علی ظہیر

 یوم پیدائش 09 فروری 1947


یہ چمک دھول میں تحلیل بھی ہو سکتی ہے

کائنات اک نئی تشکیل بھی ہو سکتی ہے


تم نہ سمجھو گے کوئی اور سمجھ لے گا اسے

خامشی درد کی ترسیل بھی ہو سکتی ہے


کچھ سنبھل کر رہو ان سادہ ملاقاتوں میں

دوستی عشق میں تبدیل بھی ہو سکتی ہے


میں ادھورا ہوں مگر خود کو ادھورا نہ سمجھ

مجھ سے مل کر تری تکمیل بھی ہو سکتی ہے


کاٹنا رات کا آسان بھی ہو سکتا ہے

دل میں اک یاد کی قندیل بھی ہو سکتی ہے


اس قدر بھی نہ بڑھو دامن دل کی جانب

یہ محبت کوئی تمثیل بھی ہو سکتی ہے


ہاں دل و جان فدا کردہ ظہیرؔ اس پہ مگر

یہ بھی امکان ہے تذلیل بھی ہو سکتی ہے


سید علی ظہیر


جانثار اختر

 یوم پیدائش 08 فروری 1914


ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح

ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح 


خودبخود نیند سی آنکھوں میں گھلی جاتی ہے

مہکی مہکی ہے شب غم ترے بالوں کی طرح 


تیرے بن رات کے ہاتھوں پہ یہ تاروں کے ایاغ

خوبصورت ہیں مگر زہر کے پیالوں کی طرح 


اور کیا اس سے زیادہ کوئی نرمی برتوں

دل کے زخموں کو چھوا ہے ترے گالوں کی طرح 


گنگناتے ہوئے اور آ کبھی ان سینوں میں

تیری خاطر جو مہکتے ہیں شوالوں کی طرح 


تیری زلفیں تری آنکھیں ترے ابرو ترے لب

اب بھی مشہور ہیں دنیا میں مثالوں کی طرح 


ہم سے مایوس نہ ہو اے شب دوراں کہ ابھی

دل میں کچھ درد چمکتے ہیں اجالوں کی طرح 


مجھ سے نظریں تو ملاؤ کہ ہزاروں چہرے

میری آنکھوں میں سلگتے ہیں سوالوں کی طرح 


اور تو مجھ کو ملا کیا مری محنت کا صلہ

چند سکے ہیں مرے ہاتھ میں چھالوں کی طرح 


جستجو نے کسی منزل پہ ٹھہرنے نہ دیا

ہم بھٹکتے رہے آوارہ خیالوں کی طرح 


زندگی جس کو ترا پیار ملا وہ جانے

ہم تو ناکام رہے چاہنے والوں کی طرح


جاں نثاراختر


پیرزادہ قاسم

 یوم پیدائش 08 فروری 1943


اداکاری میں بھی سو کرب کے پہلو نکل آئے

کہ فنکارانہ روتے تھے مگر آنسو نکل آئے


ہمیں اپنی ہی جانب اب سفر آغاز کرنا ہے

سو مثل نکہت گل ہو کے بے قابو نکل آئے


یہی بے نام پیکر حسن بن جائیں گے فردا کا

سخن مہکے اگر کچھ عشق کی خوشبو نکل آئے


اسی امید پر ہم قتل ہوتے آئے ہیں اب تک

کہ کب قاتل کے پردے میں کوئی دل جو نکل آئے


سمجھتے تھے کہ مہجوری کی ظلمت ہی مقدر ہے

مگر پھر اس کی یادوں کے بہت جگنو نکل آئے


دلوں کو جیت لینا اس قدر آسان ہی کب تھا

مگر اب شعبدے ہیں اور بہت جادو نکل آئے


سفر کی انتہا تک ایک تازہ آس باقی ہے

کہ میں یہ موڑ کاٹوں اس طرف سے تو نکل آئے


پیرزادہ قاسم


وسیم بریلوی

 یوم پیدائش 08 فروری 1940


اپنے ہر ہر لفظ کا خود آئینہ ہو جاؤں گا

اس کو چھوٹا کہہ کے میں کیسے بڑا ہو جاؤں گا 


تم گرانے میں لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں

میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہو جاؤں گا 


مجھ کو چلنے دو اکیلا ہے ابھی میرا سفر

راستہ روکا گیا تو قافلہ ہو جاؤں گا 


ساری دنیا کی نظر میں ہے مرا عہد وفا

اک ترے کہنے سے کیا میں بے وفا ہو جاؤں گا


وسیم بریلوی


ریاست علی تاج

 یوم پیدائش 07 فروری 1930


خیال و فکر جہاں زاویے بدلتے ہیں

وہیں سے نت نئے اسلوب چل نکلتے ہیں 


وہ رات کو پئے گل گشت جب نکلتے ہیں

فلک پہ چاند ستاروں کے دل مچلتے ہیں 


مرے کلام میں مفروضہ‌‌ و قیاس نہیں

یہ تجربات ہیں جو شعر بن کے ڈھلتے ہیں 


رخ حیات کو ہر زاویے سے دیکھا ہے

مشاہدات کے قالب میں شعر ڈھلتے ہیں 


قدم قدم پہ حیا سوزیوں کا عالم ہے

سنور سنور کے نگاران شہر چلتے ہیں 


تمہارے غم سے عبارت ہے زندگی میری

تمہارے یاد کے دل میں چراغ چلتے ہیں 


ہیں کامران وہی لوگ آج دنیا میں

جو وقت اور زمانے کے ساتھ چلتے ہیں 


گداز قلب بھی ہوتا ہے کچھ انہیں کو نصیب

جو درد مند ہیں ان کے ہی دل پگھلتے ہیں 


رہ حیات میں ایسا بھی ہے مقام کوئی

جہاں جنون و خرد ساتھ ساتھ چلتے ہیں 


جدا ہے رنگ سخن تاجؔ ہر سخن ور کا

بے اعتبار نظر فکر و فن بدلتے ہیں  


ریاست علی تاج


Saturday, February 6, 2021

عبدالسلام بنگلوری

 یوم پیدائش 06 فروری 1953


دل کی حالت بیاں نہیں ہوتی 

خامشی جب زباں نہیں ہوتی 


حرف حسرت ہے تم نے کیا سمجھا 

زندگی داستاں نہیں ہوتی 


کیا مقابل ہو حسن جاناں کے 

چاندنی بے کراں نہیں ہوتی 


تم جو آؤ تو ہو جواں محفل 

ورنہ کب کہکشاں نہیں ہوتی 


حسن کی بے رخی ادا ٹھہری 

عاشقی بد گماں نہیں ہوتی 


بے قراری کی بس دوا تم ہو 

یہ طبیبوں کے ہاں نہیں ہوتی 


جو یہ ہندوستاں نہیں ہوتا 

تو یہ اردو زباں نہیں ہوتی 


کچھ مراسم سلامؔ رہنے دے 

دشمنی جاوداں نہیں ہوتی


عبد السلام بنگلوری


تنویر نقوی

 یوم پیدائش 06 فروری 1919


ہمارے واسطے ہر آرزو کانٹوں کی مالا ہے

ہمیں تو زندگی دے کر خدا نے مار ڈالا ہے 


ادھر قسمت ہے جو ہر دم نیا غم ہم کو دیتی ہے

ادھر ہم ہیں کہ ہر غم کو ہمیشہ دل میں پالا ہے 


ابھی تک اک کھٹک سی ہے ابھی تک اک چبھن سی ہے

اگرچہ ہم نے اپنے دل سے ہر کانٹا نکالا ہے 


غلط ہی لوگ کہتے ہیں بھلائی کر بھلا ہوگا

ہمیں تو دکھ دیا اس نے جسے دکھ سے نکالا ہے 


تماشا دیکھنے آئے ہیں ہم اپنی تباہی کا

بتا اے زندگی اب اور کیا کیا ہونے والا ہے


تنویر نقوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...