Urdu Deccan

Monday, July 26, 2021

خورشید الا سلام

 یوم پیدائش 21 جولائی 1919


یہ روز و شب ملیں گے کہاں دیکھتے چلیں

آئے ہیں جب یہاں تو جہاں دیکھتے چلیں


زمزم پئیں شراب پئیں زہر غم پئیں

ہر ہر نفس کا رقص جواں دیکھتے چلیں


ہو جائیں رفتہ رفتہ حسینوں کی خاک پا

بے نام ہو کے نام و نشاں دیکھتے چلیں


لہجے میں رنگ رخ میں نظر میں خرام میں

اک جان جاں کا لطف نہاں دیکھتے چلیں


آنکھوں سے انگلیوں سے لبوں سے خیال سے

جس جس بدن میں جو ہے سماں دیکھتے چلیں


یہ جان و تن جو پیر ہوئے غم کے بوجھ سے

جاتے ہوئے تو ان کو جواں دیکھتے چلیں


خوشبو سے جن کی اب بھی معطر ہیں بام و در

ان بستیوں میں ان کے نشاں دیکھتے چلیں 


ذوق یقیں کی حسن مروت کی غم کی موت 

جو کچھ دکھائے عمر رواں دیکھتے چلیں


کھائیں فریب روز اٹھائیں نقاب روز

ہر شخص کیا ہے اور کہاں دیکھتے چلیں


مانا کہ رائیگاں ہی گئی عمر بے ثبات

پھر بھی حساب سود و زیاں دیکھتے چلیں


خورشید الاسلام


مرلی دھر شرما طالب

 یوم پیدائش 20 جولائی 1977


مری ڈگر سے بھی اک دن گزر کے دیکھ ذرا

اے آسمان زمیں پر اتر کے دیکھ ذرا


دھڑکنے لگتے ہیں دیوار و در بھی دل کی طرح

کہ سنگ و خشت میں کچھ سانس بھر کے دیکھ ذرا


ہر ایک عیب ہنر میں بدل بھی سکتا ہے

حساب اپنے گناہوں کا کر کے دیکھ ذرا


تو چپ رہے گا ترے ہاتھ پاؤں بولیں

یقیں نہ آئے تو اک روز مر کے دیکھ ذرا


اٹھے جدھر بھی نظر روشنی ادھر جائے

کرشمے کیسے ہیں اس کی نظر کے دیکھ ذرا


مسیحا ہو کے بھی ہوتا نہیں مسیحا کوئی

تو زخم زخم کسی دن بکھر کے دیکھ ذرا


خموشیوں کو بھی طالبؔ زبان ہے کہ نہیں

سکوت دریا کے اندر اتر کے دیکھ ذرا


مرلی دھر شرما طالب


ن م ناصر

 یوم پیدائش 20 جولائی


آج میں کل پِرو لیا جائے 

پیار کھیتوں میں بو لیا جائے


 آ ہی جائے وہ خواب میں شاید

 دو گھڑی کو تو سو لیا جائے

 

 اوڑھ کے رات کی سیہ چادر

 دل کو آنسو سے دھو لیا جائے

 

مخمصہ ہو گئی محبت بھی

پا لیا جائے کھو لیا جائے


عکس ہے، یا مِرا وجود وہاں

آئینہ کھوج تو لیا جائے


آو تارے اتاریں پلکوں پر

 آو ناصر کہ رو لیا جائے

 

ن م ناصر


یونس عظیم

 یوم پیدائش 20 جولائی


تِری صحبت گوارا بھی نہیں ہے

تِری فرقت کا یارا بھی نہیں ہے


ہمیں اُس نے پکارا بھی نہیں ہے

سوائے صبر ، چارا بھی نہیں ہے


ہمارا وہ نہیں ہے ، اِس کا غم ہے

خوشی یہ ہے ، تمہارا بھی نہیں ہے


نہیں ملتا نشان ِ آرزو تک

کوئی رہبر ستارا بھی نہیں ہے


وہی میں ہوں ، وہی ہے گرد ِ اُلفت

کبھی خود کو سنوارا بھی نہیں ہے


خفا اُس سے ہُوا پھرتا ہے ، یونس

بِنا جس کے ، گزارا بھی نہیں ہے


یونس عظیم


شفا کجگاؤنوی

 یوم پیدائش 20 جولائی 1962


جن کے فٹ پاتھ پہ گھر پاؤں میں چھالے ہوں گے

ان کے ذہنوں میں نہ مسجد نہ شوالے ہوں گے


بھوکے بچوں کی امیدیں نہ شکستہ ہو جائیں

ماں نے کچھ اشک بھی پانی میں ابالے ہوں گے


تیرے لشکر میں کوئی ہو تو بلا لے اس کو

میرا دعویٰ ہے کہ اس سمت جیالے ہوں گے


جنگ پر جاتے ہوئے بیٹے کی ماں سے پوچھو

کیسے جذبات کے طوفان سنبھالے ہوں گے


سجدۂ حق کے لئے سینہ سپر تھے غازی

ایسے دنیا میں کہاں چاہنے والے ہوں گے


کچھ نہ ساحل پہ ملے گا کہ شفاؔ اس نے تو

در یکتا کے لیے بحر کھنگالے ہوں گے


شفا کجگاؤنوی


معراج نقوی

 یوم پیدائش 20 جولائی


مرے سخن میں ترا ذکر گر نہیں ہوگا

مرا کہا ہوا کچھ معتبر نہیں ہوگا


میں چاہتا ہوں کہ تو مجھکو بے وفا سمجھے

مرا یہ چاہا ہوا بھی مگر نہیں ہوگا


تجھے بھی مجھ سے بچھڑنے کا رنج ہوگا مگر

کہ جس قدر ہے مجھے اس قدر نہیں ہوگا


مجھے پلایا ہے وہ زہر زندگی نے کہ اب

کسی بھی زہر کا مجھ پر اثر نہیں ہوگا


تو کیوں نہ آج ملاقات اس سے کی جائے

کہ آج سنڈے ہے وہ کام پر نہیں ہوگا


یہ راہ عشق ہے اس راہ میں کہیں پر بھی

کوئی بھی سایہ کوئی بھی شجر نہیں ہوگا


یہ جرم عشق تھا عجلت کا فیصلہ یعنی

خطا معاف یہ بار دگر نہیں ہوگا


معراج نقوی


ابراہیم اشکؔ

 یوم پیدائش 20 جولائی 1951


دیکھا تو کوئی اور تھا سوچا تو کوئی اور

جب آ کے ملا اور تھا چاہا تو کوئی اور


اس شخص کے چہرے میں کئی رنگ چھپے تھے

چپ تھا تو کوئی اور تھا بولا تو کوئی اور


دو چار قدم پر ہی بدلتے ہوئے دیکھا

ٹھہرا تو کوئی اور تھا گزرا تو کوئی اور


تم جان کے بھی اس کو نہ پہچان سکو گے

انجانے میں وہ اور ہے جانا تو کوئی اور


الجھن میں ہوں کھو دوں کہ اسے پا لوں کروں کیا

کھونے پہ وہ کچھ اور ہے پایا تو کوئی اور


دشمن بھی ہے ہم راز بھی انجان بھی ہے وہ

کیا اشکؔ نے سمجھا اسے وہ تھا تو کوئی اور


ابراہیم اشکؔ


ناہید ورک

 ایک نے منزل سمجھی اپنی، ایک نے رستہ سمجھا تھا

دونوں نے ہی اک دوجے کو، اپنے جیسا سمجھا تھا


عشق نے تیری عقل پہ کتنے گہرے پردے ڈال دیے

اے دل میرے میں نے تجھ کو اچھا خاصہ سمجھا تھا


وہ تھا دنیا داری والا، عشق وفا سے اُس کو کیا

تیری غلطی تُو نے اُس کو بات کا پکا سمجھا تھا


میں نے پورے سچّے دل سے، اُس کے ہاتھ پہ بَیعَت کی 

روح کی ہر اک رگ سے اُس کو، عشق صحیفہ سمجھا تھا


گرد میں لپٹی اک مٹیالے سائے کی وہ صورت تھی

لیکن میں نے سات ستاروں والا جُھمکا سمجھا تھا


کتنی گہری چُپ تھی لیکن، دیکھ کے اس کو بول پڑی

یہ ہے دل کا اندھا جس کو، میں نے زندہ سمجھا تھا


تیرا پتھر کا ہو جانا اب تو واجب ہے ناہید

پتھر ہی کو تُو نے اپنا، دین اور دنیا سمجھا تھا


ناہید وِرک


Monday, July 19, 2021

خلیل حیرت

 یوم پیدائش 19 جولائی 1951


وہ جو دولت پہ مرنے والے ہیں

وہ کہاں اب سدھرنے والے ہیں


ڈوبنا ہی نصیب ہے جن کا

ڈوب کر کب ابھرنے والے ہیں


ساری دنیا سے وہ نہیں ڈرتے 

آخرت سے جو ڈرنے والے ہیں


بس یقیں اور جذب ایماں سے

اپنے رستے سنورنے والے ہیں


ان کے حالات جب برے ہوں تو

تنکے تنکے بکھرنے والے ہیں


جن کے ایمان میں ہے تابانی

راہ حق سے گزرنے والے ہیں


ہے جنوں جن کو عشق کرنے کا

رات بھر آہ بھرنے والے ہیں


عقل آئی ضمیر جاگا ہے

حد سے حیرت گزرنے والے ہیں


خلیل حیرت


قیصر خالد

 یوم پیدائش 19 جولائی 1971


ہم زمیں کا آتشیں ابھار دیکھتے رہے

سہمے سہمے سے ہی بس غبار دیکھتے رہے


شہرتیں، یہ دولتیں، یہ مسندیں، ملیں پہ ہم

بے نیاز ہی رہے، ہزار دیکھتے رہے


آخرش زمانہ ان کو چھوڑ آگے بڑھ گیا

ہر قدم جو عزت و وقار دیکھتے رہے


ان کو پھر اماں کہاں نصیب ہونی تھی، کہ جو

ہر مقام سے رہ فرار دیکھتے رہے


ایک ایک کر کے قتل ہو رہی تھی پھر بھی ہم

اپنی خواہشوں کی اک قطار دیکھتے رہے


ہے محافظ چمن کا مجرمانہ طور یہ

نچ گئی کلی کلی پہ خار دیکھتے رہے


سب سیاہ تھا کہیں نہ سب سفید، پھر بھی ہم

لیل دیکھتے رہے، نہار دیکھتے رہے


باہر اپنے خول سے نہ آ سکے تمام عمر

ہم درون ذات خلفشار دیکھتے رہے


حوصلہ نہ کاوشیں، عمل نہ ربط آسماں

ہم کہ حسرتوں کا اک مزار دیکھتے رہے


آفتاب و کہکشاں، یہ چاند، تارے دور سے

روشنی کا بالیقیں مدار دیکھتے رہے


اب گلہ ہے کیوں مدد کا آسماں سے، جب کہ ہم

کایر ایسے تھے کہ خود پہ وار دیکھتے رہے


تیرے بن حیات کی سوچ بھی گناہ تھی

ہم قریب جاں ترا حصار دیکھتے رہے


دوسروں کے حق کی وہ لڑائی لڑ سکیں گے کیا

وہ جو اپنے آپ کو بھی خوار دیکھتے رہے


خالدؔ ایسے بھی تو ہیں کنارے بیٹھ کر ہی جو

بحر میں چڑھاؤ اور اتار دیکھتے رہے


قیصر خالد


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...