یوم پیدائش 21 جولائی 1919
یہ روز و شب ملیں گے کہاں دیکھتے چلیں
آئے ہیں جب یہاں تو جہاں دیکھتے چلیں
زمزم پئیں شراب پئیں زہر غم پئیں
ہر ہر نفس کا رقص جواں دیکھتے چلیں
ہو جائیں رفتہ رفتہ حسینوں کی خاک پا
بے نام ہو کے نام و نشاں دیکھتے چلیں
لہجے میں رنگ رخ میں نظر میں خرام میں
اک جان جاں کا لطف نہاں دیکھتے چلیں
آنکھوں سے انگلیوں سے لبوں سے خیال سے
جس جس بدن میں جو ہے سماں دیکھتے چلیں
یہ جان و تن جو پیر ہوئے غم کے بوجھ سے
جاتے ہوئے تو ان کو جواں دیکھتے چلیں
خوشبو سے جن کی اب بھی معطر ہیں بام و در
ان بستیوں میں ان کے نشاں دیکھتے چلیں
ذوق یقیں کی حسن مروت کی غم کی موت
جو کچھ دکھائے عمر رواں دیکھتے چلیں
کھائیں فریب روز اٹھائیں نقاب روز
ہر شخص کیا ہے اور کہاں دیکھتے چلیں
مانا کہ رائیگاں ہی گئی عمر بے ثبات
پھر بھی حساب سود و زیاں دیکھتے چلیں
خورشید الاسلام