Urdu Deccan

Monday, September 26, 2022

عرفان حیدر

یوم پیدائش 15 سپتمبر 

ذکرِ حسن ؓ حسین ؓسخن در سخن رہے
زندہ غمِ حسین ؓ کی یہ انجمن رہے

 یارب مری زبان کو میثم شناس کر
سولی پہ چڑھ کے ذکرِ علی ؓ میں مگن رہے

الحاد، شر، نفاق، ولایت کی دشمنی 
پاکیزہ ہر مرض سے ہمارا وطن رہے

جاری فراتِ چشم ہو پیاسوں کی یاد میں 
اک بے نوا کی یاد میں زخمی بدن رہے 

کرتے نہیں شکست کے ماروں کا تذکرہ 
جاری لبوں پہ قصۂِ فتحِ حسن ؓ رہے 

مجھ کو علی ؓ کے عشق میں دیوانہ کہتے ہیں 
میں چاہتا ہوں یہ میرا دیوانہ پن رہے

حبدار کو نہ غم ہو سوائے غمِ حسین ؓ 
یارب ہرا بھرا یہ عزائی چمن رہے

عرفان یہ دعا ہے خدا وند سے مری
میرے لہو میں عشقِ علی ؓ کی لگن رہے

عرفان حیدر



محبوب اکبر

یوم پیدائش 15 سپتمبر 1969

فرش پر جیسے شکستہ بتِ پندار گرے
اس طرح رات کو سورج کے پرستار گرے

جس کو کشکولِ تمنا میں سجا رکھا تھا
وہ نگینے مری پلکوں سے کئی بار گرے

ایک کہرام سا مچ جاتا ہے گھر کے اندر
روح کے سامنے جب جسم کی دیوا رگرے

خود نمائی سے بچو یہ ہے خودی کی دشمن
جس کی تقلید سے انسان کا کردار گرے

باغباں ہی نہیں پنچھی کو بھی ہوتا ہے ملال
پیڑ جب کوئی گلستاں کا ثمردار گرے

بخش دیتا ہے گناہوں کو یقیناً اس کے
ہو کے شرمندہ جو سجدے میں گنہہ گار گرے

دیکھ کر میرے تخیل کی بلندی اکثر
کچھ کبوتر گرے ، شاہیں گرے ، تغدار گرے

اس طرح سے گرے محبوب مرے دل کا مکاں
جیسے آندھی میں کوئی رات کی دیوار گرے

محبوب اکبر



حسن اثر

یوم پیدائش 15 سپتمبر 1942

ہنسنے لگی ہے رات ، چمکنے لگا ہے شہر
بڑھنے لگی ہیں اپنے بھی گھر کی اداسیاں

حسن اثر


 

خمار بارہ بنکوی

یوم پیدائش 15 سپتمبر 1919

نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے
دیا جل رہا ہے ہوا چل رہی ہے

سکوں ہی سکوں ہے خوشی ہی خوشی ہے
ترا غم سلامت مجھے کیا کمی ہے

کھٹک گدگدی کا مزا دے رہی ہے
جسے عشق کہتے ہیں شاید یہی ہے

وہ موجود ہیں اور ان کی کمی ہے
محبت بھی تنہائی دائمی ہے

چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں
نیا ہے زمانہ نئی روشنی ہے

ارے او جفاؤں پہ چپ رہنے والو
خموشی جفاؤں کی تائید بھی ہے

مرے راہبر مجھ کو گمراہ کر دے
سنا ہے کہ منزل قریب آ گئی ہے

خمارؔ بلا نوش تو اور توبہ
تجھے زاہدوں کی نظر لگ گئی ہے

خمار بارہ بنکوی



Friday, September 23, 2022

عرفان الحق صائم

یوم پیدائش 14 سپتمبر 1951

دیوار میں امکان کا اک در کوئی کھولے
اوجھل ہے جو آنکھوں سے وہ منظر کوئی کھولے

اب شہر کے اندر بھی تو ہر روز ہے ہجرت
کیا ایسے میں باندھا ہوا بستر کوئی کھولے

رقصاں ہو تو پھر نیند سے اٹھنے نہیں دیتی
اس بادِ صبا کی ذرا جھانجھر کوئی کھولے

جب ان سنی ہر بات کے ہونے کا یقیں ہو
کیوں اپنی شکایات کا دفتر کوئی کھولے

آسیب کے آجانے سے کچھ پہلے عزیزو
ممکن ہو تو اس دل کا ہر اک گھر کوئی کھولے

اب شہر کے ہر شخص کی خواہش ہے یہ صائمؔ
جو باندھ کے رکھا ہے سمندر کوئی کھولے

عرفان الحق صائم


 

شوکت پردیسی

یوم وفات 14 سپتمبر 1995

میرے محبوب مرے دل کو جلایا نہ کرو 
ساز چھیڑا نہ کرو گیت سنایا نہ کرو 

جاؤ آباد کرو اپنی تمناؤں کو 
مجھ کو محفل کا تماشائی بنایا نہ کرو 

میری راہوں میں جو کانٹے ہیں تو کیوں پھول ملیں 
میرے دامن کو الجھنے دو چھڑایا نہ کرو 

تم نے اچھا ہی کیا ساتھ ہمارا نہ دیا 
بجھ چکے ہیں جو دیے ان کو جلایا نہ کرو 

میرے جیسا کوئی پاگل نہ کہیں مل جائے 
تم کسی موڑ پہ تنہا کبھی جایا نہ کرو 

یہ تو دنیا ہے سبھی قسم کے ہیں لوگ یہاں 
ہر کسی کے لیے تم آنکھ بچھایا نہ کرو 

زہر غم پی کے بھی کچھ لوگ جیا کرتے ہیں 
ان کو چھیڑا نہ کرو ان کو ستایا نہ کرو

شوکت پردیسی



سلیم آکاش

یوم پیدائش 14 سپتمبر 1990

یہ کس نے تم سےکہہ دیاکہ رائیگاں سفرگیا
سفر میں جاں چلی گئ تھی اس کےبعد گھرگیا

غمِ جہان کی مصیبتوں میں ہم کو ڈال کے
یہ بھوت عشق کا ہمارےسرسےیوں اترگیا

یہ کس نےتارِ بےنفٙس کوپھر نفٙس عطا کیا
بکھر بکھر کہ میں سمٹ رہاتھاپھربکھرگیا

سنو کوئی بھی فیصلہ کرو تو پہلے سوچ لو
 کہ میرے دل سے جب کوئی اتر گیا اتر گیا 

کسی نے راستے میں چھوڑا یار کام آ گئے 
میں آدھا جی رہا ہوں آدھا پچھلے سال مر گیا 

سلیم آکاش


 

برہم ناتھ دت قاصر

یوم پیدائش 14 سپتمبر 1891

یہ اعتراف ہے اس ذاتِ کبریائی کا
کہ خود بتوں کو بھی اقرار ہے خدائی کا

پہنچ گیا وہ ترے آستانِ عالی تک
ملا ہے جادہ جسے عذرِ نارسائی کا

جو عشق کو ہے اِدھر ذوقِ دید کا لپکا
تو حسن کو ہے اُدھر شوق خود نمائی کا

بنایا پیکرِ تصویر محویّت نے مجھے
نہ وصل کی ہے مسرت نہ غم جدائی کا

وہ قتل گاہ میں ہے خنجر آزما قاصر
چلو کہ وقت ہے اب قسمت آزمائی کا

برہم ناتھ دت قاصر



درشن سنگھ

یوم پیدائش 14 سپتمبر 1921

کسی کی شام سادگی سحر کا رنگ پا گئی 
صبا کے پاؤں تھک گئے مگر بہار آ گئی 

چمن کی جشن گاہ میں اداسیاں بھی کم نہ تھیں 
جلی جو کوئی شمع گل کلی کا دل بجھا گئی 

بتان رنگ رنگ سے بھرے تھے بت کدے مگر 
تیری ادائے سادگی مری نظر کو بھا گئی 

میری نگاه تشنہ لب کی سر خوشی نہ پوچھئے 
کے جب اٹھی نگاہ ناز پی گئی پلا گئی 

خزاں کا دور ہے مگر وہ اس ادا سے آئے ہیں 
بہار درشنؔ حزیں کی زندگی پہ چھا گئی

درشن سنگھ



فانی بدایونی

یوم پیدائش 13 سپتمبر 1879

نام بدنام ہے ناحق شب تنہائی کا 
وہ بھی اک رخ ہے تری انجمن آرائی کا 

آ چلا ہے مجھے کچھ وعدۂ فردا کا یقیں 
دل پہ الزام نہ آ جائے شکیبائی کا 

اب نہ کانٹوں ہی سے کچھ لاگ نہ پھولوں سے لگاؤ 
ہم نے دیکھا ہے تماشا تری رعنائی کا 

دونوں عالم سے گزر کر بھی زمانہ گزرا 
کچھ ٹھکانا بھی ہے اس بادیہ پیمائی کا 

خود ہی بیتاب تجلی ہے ازل سے کوئی 
دیکھنے کے لیے پردہ ہے تمنائی کا 

لگ گئی بھیڑ یہ دیوانہ جدھر سے گزرا
ایک عالم کو ہے سودا ترے سودائی کا

پھر اسی کافر بے مہر کے در پر فانیؔ
لے چلا شوق مجھے ناصیہ فرسائی کا

فانی بدایونی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...